حضرت راقم الحروف -1
السٹریشن — جمیل خان –.
نام تو اُن کا مرزا شیر افگن چغتائی تھا، لیکن شاید اُن کے اہلِ محلّہ، جنہیں وہ ایلے مِعِلّہ کہتے تھے، کو یہ نام کچھ زیادہ پسند نہیں آیا، اسی لیے اُنہوں نے اپنی سہولت کے پیشِ نظر راقم الحروف کو بہت سے خطابات دے رکھے تھے۔
گلی محلے کے بچوں کی زبان میں اِسے چِڑ بنانا کہتے ہیں۔
ہم نے ایک مرتبہ اپنے دیرینہ دوست نون سے پوچھا ‘آخر لوگ راقم الحروف کو اُن کے اصل نام سے کیوں نہیں پکارتے؟’
تو نون نے برجستہ جواب دیا ‘دراصل لوگوں کو اُن کا نام، اُن کی شخصیت کے اُوپر ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے پھبتی کس دی ہو۔’
نون کی اس زبان درازی پر تو ہم نے اُسے سخت سُست کہہ دیا، لیکن جب ہم نے خود اس نکتے پر غور کیا تو واقعی اُن کا نام اُن کے منحنی سے جسم پر سو کلو وزن اناج کی بوری کی مانند محسوس ہوا۔
جب راقم الحروف پیدل چل رہے ہوتے اور ہوا کا رُخ مخالف سمت میں ہوتا تو اُنہیں چلنے میں خاصی جدوجہد کرنی پڑتی اور جب ہوا کا رُخ موافق سمت ہوتا تو ایسی جدوجہد نہیں کرنی پڑتی بلکہ پھر تو کچھ بھی کرنا نہیں پڑتا۔ سنا تو یہ بھی گیا کہ ایسی صورتحال میں وہ مطلوبہ مقام پر وقت سے بہت پہلے ہی پہنچ جایا کرتے تھے۔
راقم الحروف کے سر پر گنے چنے چند بال عمرِ رفتہ کی یادگار کے طور پر باقی رہ گئے تھے۔ جنہیں اکثر آئینے میں خاصی دیر تلک بہ حسرت ویاس دیکھا کرتے، جبکہ چہرے پر داڑھی کا معاملہ کچھ ایسا تھا گویا بنجر زمین پر کاشت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہو، ساری زرخیزی ٹھوڑی پر آکر جمع ہوگئی تھی، اسی لیے ارد گرد آبادی خاصی کم تھی۔
کہتے ہیں جو چیز کمیاب ہو اُس کی قدر زیادہ ہوجاتی ہے، اسی لیے راقم الحروف دورانِ گفتگو مختصر سی ریش کو اُنگلی سے یوں مروڑی دیتے رہتے ہیں، جیسے پنجابی فلموں کی دو تین من وزنی الہڑ نار کسی گبرو جوان سے شرما کر اپنی مختصر سی چُنری کو مروڑیاں دینے لگتی ہے، چنانچہ اِس مستقل عمل کی وجہ سے اُن کی داڑھی لہر دار سی ہوگئی تھی۔ دور سے دیکھنے والااگر سر نیچے، پیر اوپر کرکے دیکھے تو یوں معلوم ہو کہ جیسے گرم گرم سوپ سے بھاپ اُٹھ رہی ہے۔
نون کا کہنا ہے کہ یہ بھاپ دراصل اُن کے دل کے غبار کی تمثیل ہے جو اکثر احباب کو اپنی لپیٹ میں لیتا رہتا ہے۔
راقم الحروف کے کاندھے پر پڑا چار خانوں کا ایک رومال بھی اُنہیں اِنفرادیت بخشتا ہے اور خاصا کثیرالمستعمل بھی ہے۔ خود ہم نے اپنی باثواب آنکھوں سے اُس کے بہت سے مستعملات دیکھ رکھے ہیں۔
آپ نے کیا کہا، کہ یہ باثواب آنکھیں کیا ہوتی ہیں؟ جناب گنہگار آنکھیں ہماری کیوں ہوں؟
ہم ایسی چیزوں پر نظر ہی نہیں ڈالتے، جن سے ایمان خراب ہو، ہم نے جب بھی دیکھا ہے کسی کو، ہمارا تو ایمان تازہ ہی ہوا ہے۔
خیر بات ہورہی تھی حضرت راقم الحروف کے چارخانوں والے برکتی رومال کی، اکثر وہ اسی رومال کے کسی کنارے کو بتی بناکر اُس سے ناک میں پھریری کرکے جی بھرکر چھینکیں بھی لیا کرتے اور اِس دوران ناک سے خارج ہونے والی گاڑھی پتلی آلودگیوں کو اُسی رومال سے صاف بھی کرتے جاتے۔ اگر کبھی آجاتا عین چھینکوں کے درمیان وقتِ نماز، تو وضو کرنے کے بعد قبلہ رو کھڑے ہونے سے قبل گیلے ہاتھوں اور چہرے کو رگڑ رگڑ کر اُسی رومال سے خشک کیا جاتا۔
کسی جگہ اُن کے تشریف فرما ہونے سے پہلے وہی رومال اُس جگہ کو جھاڑنے کے بھی کام آتا۔ ان کی مختصر سی تشریف رکھنے کے لیے یہ جگہ کبھی کرسی، صوفہ یا بیڈ ہوا کرتا تو کبھی گلی کی فٹ پاتھ۔
یہی رومال اکثر موسم کی شدت سے بچنے کے لیے سر پر بھی لپیٹ لیا جاتا۔
ہم نے راقم الحروف کو لوگوں کے دیے ہوئے خطابات سے کبھی یاد نہیں کیا، اس لیے کہ اُن خطابات میں سے بعض تو لکھنے تو کجا کہنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
البتہ ہم اُنہیں حضرت راقم الحروف کے تخلص سے پکارتے تھے اور اُنہوں نے کبھی بُرا بھی نہیں منایا، شاید اس لیے کہ ہم حضرت کا اضافہ بھی کردیتے تھے۔ اِن حضرت کو یہ علم نہیں تھا کہ بعض ثقہ قسم کے ادیبوں نے شیطان کو بھی حضرتِ شیطان کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
لفظ راقم الحروف کی تکرار اُن کی تحریروں میں ہمیں جابجا نظر آئی۔ یہ تحریریں اُن کے ایک ہفتہ وار گزٹ میں شائع ہوتی تھیں۔
اس ہفتہ وار گزٹ کے ایڈیٹر، کاتب، طابع اور سرکولیشن انچارج وہ خود ہی تھے اور ہر جمعہ کو محلے کی بڑی جامع مسجد کے باہر کھڑے ہوکر خود ہی اُسے مفت تقسیم بھی کرتے تھے۔
فوٹو اسٹیٹ مشین سے کاپیاں نکلوا کرشائع کیے جانے والے اس ہفتہ وار گزٹ میں اکثر وہ دردناک عذاب، حتّٰی کہ قیامت تک کی آمد کی مستند پیشن گوئیاں بھی شائع کرچکے تھے۔ وہ ایک عرصے سے پیشن گوئی فرمارہے تھے کہ انیس سو ننانوے قیامت کا سال ہوگا، انیس سو ننانوے سکون سے گزرگیا تو وہ دوہزار چھ سے لوگوں کو ڈرانے لگے، لیکن افسوس کہ خود ان پر ہی دوہزار چھ سے قبل قیامت گزرگئی اور وہ ستر یا بہتر حوروں کی زندگی میں قیامت برپا کرنے کے لیے دنیا ہی سے گزر گئے۔
اپنی تحریروں کے اختتام پر راقم الحروف اپنے نام سے پہلے بندۂ عاصی یعنی گناہ گار بندہ، ضرور تحریر کیا کرتے تھے۔ نون نے ایک مرتبہ یہ دیکھ کر کہا ‘جو بات زبانِ زدِ عام ہو، اُسے لکھ کر بتانے کی کیا ضرورت ہے؟’
حضرت راقم الحروف کا کہنا تھا کہ وہ اپنی قوم کا بہت درد رکھتے ہیں۔ اُن کے اِس جذبے کی تصدیق تو ہمارا دوست نون بھی کرتا ہے۔ اُس نے خود اُنہیں ڈاکٹرسے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ‘ڈاکٹر صاحب! میرا پورا جسم درد کرتا ہے۔’
راقم الحروف کی پیشین گوئیوں کے مطابق قیامت تو برپا نہ ہوسکی، ہاں البتہ اُن پر ضرور ایک قیامت گزر گئی۔ زبانِ خلق کے مطابق ہوا کچھ یوں کہ اچانک بجلی کے محکمے والوں کی چھاپہ مار ٹیم آن پہنچی اور راقم الحروف جلد بازی میں میٹر بورڈ سے کُنڈہ نکالتے ہوئے بجلی کے کرنٹ کا شکار ہوگئے۔
اس شہادت گہہ کرنٹ کے بعد محلے والوں نے اُن کے تمام خطابات واپس لے لیے، لیکن ہم آج بھی اُن کو حضرت راقم الحروف کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
(حضرت راقم الحروف کی بقیہ روداد جلد ہی آپ کی خدمت میں پیش کردی جائے گی)
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں