• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

III – نیو آرمی ڈاکٹرائن

شائع February 19, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

یہ بلاگ چار حصّوں پر مشتمل سیریز کا تیسرا حصّہ ہے جس میں پاکستان کے اندرونی دشمن کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے؛ اور یہ کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کیوں اور کیسے اس خونخوار عفریت کو کئ دہائیوں تک پالا. پہلا حصّہ یہاں اور دوسرا یہاں دیکھیے.


is blog ko sunne ke liye play ka button click karen | اس بلاگ کو سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/79906406" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


وسطی صدیوں کے تقریبآ سبھی فاتح شکاری تھے- وہ مفتوح لوگوں کو اور ان کے وسائل کو اپنی خوراک کی طرح استعمال کرتے تھے، جو رعایا کے دلوں میں نفرت اور عداوت پیدا کرتی تھی- خلفاۓ راشدین کے بعد مسلم حکمرانوں نے بھی ذمی اور مفتوح کے اسلامی نظریات کو خالصتا اپنے دنیاوی مفادات کے لئے استمعال کیا-

حکمران اپنی دانش اور انصاف کی صفات سے اپنی رعایا کے دلوں میں احترام، بلکہ محبّت تک پیدا کر سکتے ہیں- مثلا انگریز حکمرانوں نے ہندوستانی عوام پر کتنے ہی مظالم ڈھاۓ لیکن اپنے سبھی جرائم کے باوجود وہ جاتے ہوئے تقریبآ دوست کی طرح رخصت ہونے میں کامیاب ہوئے، اور اب فریقین کے درمیان کوئی نفرت یا مخاصمت باقی نہیں کیونکہ برطانوی قوم اور اسکے رہنماؤں نے اپنے جرائم کو قبول کیا، انہوں نے ہندوستان چھوڑنے کا مطالبہ تسلیم کیا اور وہ اہل ہند کے لئے جدید نظام تعلیم، رسل و رسائل، نقل و حمل کے نظام، مذہبی رواداری، نظام حکومت، آئینی جمہوریت، سائنس اور ٹکنالوجی جیسے بہت سے قیمتی تحفے چھوڑ گئے-

یہ ایک المیہ ہے کہ یورپ کے نو آبادیاتی سرمایہ داروں کے برعکس ہند میں ہمارے اسلاف کے پاس اپنے ذمیوں کو دینے کے لئے بہت کم ایسا تھا جو انھیں رعایا کا پسندیدہ بنا سکتا- اس پر علما کا اسلام کی فضیلت کا فخر اور کسی تکلف اور لحاظ کے بغیر اس فخر کا کھلا اظہار تھا جس سے محکوم عوام کے دلوں کی کدورت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا-

یوں مسلم حکمرانی کو قائم رکھنے کے لئے قوت کا مسلسل استمعال اور بھی ضروری ہوتا گیا - لہٰذا سپاہ اور مسلم عوام کے جنگی جزبہ کی آبیاری کے لئے علماء اور مولوی حضرات کی مدد سے مسلمان کی نفسیات میں دینی فخر اور علم و افکار سے بیزاری کے رویے اور گہرے کئے گئے

پھر فتوحات اور فخر کے نتیجہ میں مسلمانوں کی تعمیری صلاحیت میں جو کمی پیدا ہوئی اس کی خلش مٹانے کے لئے قتل کرنے اور تباہ کرنے کی صلاحیت پر فخر کرنا سکھایا گیا-

شاید یہی فخر ہمیں وراثت میں ملا ہے کہ ہم گن گن کر بتاتے ہیں کہ ہم نے کس کس کو تباہ کیا- ہمارے آباء و اجداد نے ہندوؤں کے بتوں اور بادشاہوں کو تباہ کیا، حال ہی میں ہم نے روس کو تباہ کر دیا، ہم نے امریکا کو تباہی کی طرف دھکیل دیا ھے، ہم جلد ہی ہندوستان، یورپ اور "جاہلیت" کے ہر نظام کو برباد کر ڈالیں گے جن میں خود ہمارے پاکستانی اور افغان عوام اور انکے "کافرانہ" نظام بھی شامل ہیں- اس ذہنی حالت میں ہم یہ کبھی نہیں پوچھتے کہ ہم نے آباد کس کو کیا-

ایک قوم کی حیثیت سے ہمارے دلوں سے سائنس اور سائنسدانوں کا احترام ختم ہو گیا ھے- چنانچہ ریسرچ اور تحقیق کی جگہ ہم خیالی سازشوں کی کہانیوں سے کام چلاتے ہیں- ہم جوھری صلاحیت پر اتراتے ہیں جبکہ یہ بھی صرف تباہ کرنے کی صلاحیت ھے، نہ کہ دفاع کی -- اور اسے ہم نے کافروں سے چرایا ہے جبکہ وہ سائنس نہیں سیکھی جس نے اس صلاحیت کو پیدا کیا-

یہ علم و ایجاد کے اصولی رستوں کی بجاے چھوٹے رستے اختیار کرنے کی ہماری ذہنیت کی ایک اور مثال ہے- لہٰذا احساس ندامت کو چھپانے کے لئے ہمارے اسلام پسند لیڈر جوہری ٹیکنولوجی کے ایک ایسے موقع پرست کو سائنسدان کا احترام دیتے ہیں جو چراے ہوئے راز بیچتا ہے، طالبان کو قابل احترام مانتا اور سائنسدانوں سے نفرت کرتا ہے کہ وہ کافر ہیں-

چنانچہ اس ذہنی حالت میں ہمارے لوگوں کے لئےاس عفریت کی حمایت کرنا فطری سی بات ہے جو اسلام کا پرچم اٹھاے پاکستان اور دنیا کو تباہ کرتا ھے-

احساس پارسائی انکسار کو کھا جاتا ھے، یہ ہماری اس اہلیت کو منجمد کر دیتا ھے جس کی مدد سے ہم دوسروں کی صلاحیتوں کی بے لاگ تعریف کرتے ہیں- یوں دوسروں کی خیر و خوبی پر ہماری توجہ ہی نہیں جاتی-

جوں جوں ہماری کارکردگی کا معیار گھٹتا جاتا ھے، توں توں اپنی پارسائی اور خوبی پر ہماری ڈینگیں اور بھی بلند ہوتی جاتی ہیں- عمل اور دعووں کا یہ تضاد صرف منصفانہ جائزہ کی صلاحیت کو ہی مفلوج نہیں کرتا بلکہ غلطیوں کا ازالہ کرنے کے عزم کو بھی کھا جاتا ھے-

آزادی ملتے ہی ہمارے سیاسی اور فوجی رہنماؤں نے یہ آسان پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ ہندو کا "عظیم تر بھارت" کا قدیمی خواب پورا کرنے کے لئے ہندوستان  پاکستان کو لپیٹ میں لیناچاہتا ھے- لیکن کیا یہ نظریہ حقیقت پر مبنی تھا؟ کیا عظیم تر بھارت صرف ہندو کا خواب تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں اور علماے دین نے بھی ہمیشہ عظیم تر ہندوستان کی خواہش کی تھی-

مغلوں نے صدیوں پورے ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے جدوجہد جاری رکھی تھی- سات صدیوں کے دوران کئی بار انہوں نے ایک ہاتھ سے افغانستان اور دوسرے ہاتھ سے بنگال پکڑنے کی کوشش کی- 1947 سے ابتک ہمارے جرنیلوں اور سیاستدانوں نے کئی بار افغانستان میں اثر انداز ہونے اور بنگال پر طاقت سے قابض رہنے کی کوشش کی ھے- ہمارے کئی شیر اور شاہین اب بھی ہندوستان کو تباہ کر کے مسلم سلطنت کا صوبہ بنانے کے خواب دیکھتے ہیں-

یوں برصغیر کے قدیم باشندوں کا متحدہ ہندوستان دیکھنے کا خواب ایک فطری خواب تھا گرچہ اب ایسا ممکن نہ تھا-

مسلمان فاتحین سے بہت پہلے ہند کی تاریخ میں اشوک، کنشک اور ہرش وردھن کے خاندان ہو گزرے تھے جنہوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمانوں کے برابر شان و شوکت سے حکومت کی تھی- سو اگر ہند کے کچھ ماضی پرستوں نے اپنے وطن میں اپنی گزری ہوئی شان کی بحالی کا خواب دیکھا تو یہ کچھ ایسا غیر فطری نہ تھا جبکہ یہ ہندوستان کی اکثریت کا خواب نہ تھا-

ہندو اس سرزمیں میں گہرے احساس وفاداری کے ساتھ چار ہزار برس سے آباد ہیں- اس کے برعکس ہمارے مسلم آباء و اجداد کو آے ایک ہزار سال ہوئے اور انہوں نے کبھی بھی اس زمین سے وفاداری کا دم نہیں بھرا-

وہ ان لوگوں میں کبھی ضم نہیں ہوئے، ہم آہنگ نہیں ہوئے جن پر انہوں نے صدیوں حکومت کی، انہوں نے اپنے لئے غیرملکی شناخت پسند کی اور ان کی وفاداریاں عرب کی مقدّس سرزمین سے جڑی رہیں- انگریزوں نے بھی غیر ملکیوں کی حیثیت سے حکومت کی لیکن انہوں نے ہماری طرح ہند کے ایک حصّہ کا مطالبہ نہیں کیا-

انہوں نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا جو کہ ہم نے نہیں کیا، حالانکہ ہمارا دعویٰ تھا کہ ہم کچھ بھی ہوں ہندی نہیں- اپنی سچائی کا گھمنڈ ہماری حس انصاف کو یوں محدود کر دیتا ھے کہ جو کچھ ہم خود بڑے فخر و تکبّر سے کرتے نہیں تھکتے، غیر اگر انکی خواہش بھی کرے تو ہمیں نفرت آتی ھے-

انصاف اور دیانت کا تقاضہ ہے کہ کسی دعویٰ کو ماننے یا رد کرنے سے پہلے حقائق کا جائزہ لیا جاۓ- حقائق سے اس دعویٰ کی تصدیق نہیں ہوئی کہ ہندوستان  ہمارے ملک یا اسکے کسی حصّہ کو لپیٹنا چاہتا تھا- گرچہ ہندوستان کے انتہائی دائیں بازو کے کچھ عناصر تاریخ کے بعض واقعات کا انتقام لینے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں لیکن ایسی ذہنیت ہندوستان پر کبھی غالب نہیں آئی-

اس کے برعکس سرحد کے اس طرف ہمارے راۓ  ساز ادارے اور علماء وسیع عوامی سطح پر کشمیر فتح کرنے اور دہلی کے لال قلعہ پر پاک پرچم لہرانے کے جذبات ابھارتے رہے ہیں-

ہمارے ہاں یہ کہنا مشکل رہا ہے کہ ہندوستان نے نیپال، بھوٹان، سری لنکا وغیرہ ممالک میں سے کسی کو نہیں لپیٹا- اس نے بنگلہ دیش کو بھی ساتھ نہیں ملایا جس نے پاکستان سے علیحدگی خالصتا ہندوستانی فوج کے بل بوتے پر حاصل کی تھی- ہماری مشرقی سرحد پر لڑی جانے والی جنگوں کے بارے میں یہ انکشاف ہمارے لئے پریشانی کا سبب بنا کہ ان کا آغاز ہم ہی نے کیا تھا- یہ ایسے واقعات ہیں جو ہمارے مظلومیت کے دعووں کو شرمندہ کرتے ہیں-

جاری ہے ...


mubarik-80

  پروفیسر مبارک حیدر پاکستان کے مایہ ناز دانشور ہیں. ان کی کتابیں "تہذیبی نرگسیت" اور "مبالغے، مغالطے" اردو نان-فکشن  میں جدید فکر کی نئی شروعات سمجھی جاتی ہیں.

مبارک حیدر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Ali Feb 19, 2013 05:21pm
Unlike Britishers, 5 to 6 hundred million Muslims living in Bangladesh, India, do not have their forefathers from outside the region. Muslms in the regions are not Pakistanis, Bangladeshis & Indians of Arab, Persian, or central asia orgin, they are are Muslims from Indian origin. So the quesiont of them leaving the country like Britishers did, does not arise. Britishers also were engaged in continual supprsession of uprsiings in India. This is article is based on a mind set of psuedo intellectuals, that pleasse defeated mentality of many Pakistanis, and offcourse many of the Indians. It speaks half the truth, another name for not speaking the whole truth is propaganda.
Adil Feb 20, 2013 12:06am
بہت خوب۔۔۔۔ آپ کا یہ مضمون پڑھ کر دلی سکون ملا ہے کہ ہمارے ملک بھی ایسی ترقی پسند اور غیر جانبدار سوچ رکھنے والے مفکر موجود ہیں گو کہ ان کی آواز اتنی مقبول نہیں لیکن اسے امید کی کرن ضرور کہا جاسکتا ہے۔۔۔ آپ کے باقی مضمونوں کا بھی اگر آڈیو اپ لوڈ ہو جاتا بہت اچھا لگتا۔۔۔ کیا میں اس کو اپنی آواز میں اپ لوڈ کر سکتا ہوں۔۔۔؟؟

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024