• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am

'فارمی چوزے'

شائع June 16, 2012

کل مجھے ٹورانٹو کے ایک پاکستانی کریانہ فروش کی کال آئی تو موصوف فرمانے لگے، ذرا کینیڈا کے سب سے معتبر اخبار 'ٹورانٹو سٹار' کے چیف ایڈیٹر سے ملاقات کروا دیں. میں نے کہا بھائی، خیرتو ہے؟ کہنے لگے کہ میں پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے لئیے کینیڈا میں نمائندہ مقرر ہونے والا ہوں. میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ کا تو صحافت سے کوئی تعلق نہیں، پھر یہ کیا کہانی ہے۔

جواب ملا کہ پیسے کا دور ہے اگر پاکستان میں بغیر صحافت کیئے آج کل ٹی وی اینکر بن سکتے ہیں تو پھر آپ کو میرے نمائندہ بننے پر کیا اعتراض ہے. رعب ڈالتے ہوئے مزید کہنے لگے کہ " میرا تو سولہ سال کا براڈکاسٹنگ کا بھی تجربہ ہے اور پاکستان میں پیسوں کے بدلے کون سا کام نہیں ہو سکتا"۔

میں نے کہا واہ بھائی، وہ کیسے؟ تو انہوں نے کہا "میں اپنی دوکان سے کئی برسوں سے سبزی اور دیگر اشیاۓ خوردو نوش کے نرخ براہ راست مقامی ریڈیو پر بتاتا رہا ہوں اوراس لحاظ سے میرا پاکستان کے کئی اینکروں سے زیادہ تجربہ ہے "۔

ان کے فون رکھنے کے بعد میں نے پاکستان میں آج کل کے بعض ٹی وی اینکروں کے بارے سوچنا شروع کر دیا. کیا وہ دور تھا جب ہم اپنے گاؤں میں مارک ٹلی اور ریاض بٹالوی جیسے صحافیوں کے کام کو داد دیتے تھے۔

جب گزشتہ چند سالوں کے دوران غربت اور افلاس نے کئی مزاحیہ اداکار اس دنیا سے اٹھا لیئے تو ہم نے بعض ٹی وی اینکروں کے "کٹاکٹ نما " شو دیکھ کر مزاحیہ ڈراموں کی کمی کو پورا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں- ان چینلوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے بعض اینکرز تو ایسے جلدی جلدی نمودار ہو ئے ہیں کہ جیسے "فارمی چوزہ " جلدی جلدی تیار ہوتا ہے۔

بد قسمتی سے پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے ہفتے کے ساتوں دن شہ سرخیوں میں رہتا ہے اور رہی سہی کسر ان چند نام نہاد اینکرز نے نکال دی ہے جوخود کو زبردستی صحافی بھی کہلواتے ہیں اور "سپا نسرڈ بریانی"  کھا کر ہر رات پاکستانی قوم کو امریکا سمیت دنیا کے مستقبل کا بھاشن دیتے نہیں تھکتے۔

اس کے ساتھ ساتھ بعض ٹی وی مالکان بھی بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کی دوڑ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا کون سا کیمرہ مین کب اور کہاں غربت اور افلاس یا دہشت گردی کا نشانہ بنا تھا- کئی ٹی وی کارکن تو تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی بھی کر چکے ہیں۔

دنیا ٹی وی کی حالیہ ویڈیو نے جو کہرام پاکستان میں برپا کیا ہے، اس نے بیرون ملک مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو بھی شرمندہ کروا دیا ہے - مجھے یاد ہے دو سال قبل میرے ایک دوست نے دنیا ٹی وی پر ہی سیالکوٹ میں دو بھائیوں کی بھرے مجمعے میں قتل کی ویڈیو بنائی تو اس وقت بھی " دنیا ٹی وی کی انتظامیہ اور مالکان نے صرف ریٹنگ کی پروا کی اور میرا کمرہ مین دوست ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا"۔

اس حالیہ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مجھے اب اس کمرہ مین کی بھی فکرکھا رہی ہے - نہ صرف  مجھے بلکہ مغربی ممالک میں صحافتی تنظیموں نے اس "تاریخی ویڈیو " کے  یوٹیوب پر آنے کے بعد پاکستان کے " نام نہاد  اینکروں" کی تربیت کے حوالے سے ان کے مالکان کو ہدایات دینے کے بارے میں غور کرنا شروع کر دیا ہے۔

کہتے ہیں کہ ملک ریاض کام نکلوانے کے لیئے پیسے کا  بے دریغ  استمال کرتے ہیں. اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھے  وینکوور  کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کی  یہ کی بات ہمیشہ یاد رہے گی کہ "اگر آج علامہ اقبال زندہ ہوتے تو ریاض ملک،  جن کو پاکستان کے  بعض اینکر "ریاض  ٹھیکیدار" بھی پکارتے ہیں، وہ علامہ اقبال کو بھی پیسے کے زور پر سیالکوٹ کا نام شہر اقبال کے  بجاۓ "شہر ریاض" کرنے کی ناکام کوشش ضرور کرتے (یاد رہے کہ ریاض ملک سیالکوٹ میں پیدا ہوئے)۔

اس حالیہ ویڈیو کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ملک ریاض اور دنیا ٹی وی کے دونوں اینکر بہت جلدی میں تھے - سیانے کہتے ہیں کہ "جلدی کا کام خرابی کا"۔

خیر اب بھی موقع ہے پاکستان کے غریب عوام کا مال لوٹنے والوں اور نام نہاد ٹی وی مالکان کے لیے کہ وہ اپنا قبلہ درست کر لیں ورنہ "غریب کی ہائے" اور اب " کیمرے کی آنکھ " جس کو لگ جائے اس کو اللّہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔

جاتے جاتے ایک واقعہ بتاتا چلوں - گزشتہ برس میں چھٹیوں میں پاکستان گیا تو ہمارے گاؤں کے بزرگ جنھیں "لالہ ٹھیکیدار" کہتے ہیں دو لاکھ روپے لے کر میرے پاس آۓ ، میں سمجھا شاید اپنے بیٹے کو بیرون ملک بھجوانے کے لئے کسی ایجنٹ کی تلاش میں ہیں تو حقے کا کش لگا کر کہنے لگے "ہماری تھوڑی سی زمین ہے، بیچ کر دو لاکھ ہی ملے ہیں، کینیڈا جانے سے پہلے کچھ دے دلا کر میرے میٹرک فیل بیٹے کو کسی ٹی وی چینل میں لگوا دو"۔

میں نے پوچھا کہ اس کا کیا فائدہ؟ تو کھانستے ہوئے کہنے لگے : "وقت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں اینکر بن جاۓ گا تو پھر سارا شہر بھی خرید لے گا- اب جلدی سے کسی جاننے والے کو فون کرو میرے بیٹے نے تو سکوٹر پر پریس بھی لکھوا لیا ہے"۔


mohsin-abbas-80محسن عباس

محسن عباس

محسن عباس ایوارڈ یافتہ پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی، فلمساز اور صحافتی آزادی کے کارکن ہیں۔ وہ کینیڈا میں نئے آنے والوں اور امیگرینٹس کے لیے متعدد زبانوں کی ہفتیوار اخبار ڈائیورسٹی رپورٹر کے ایڈیٹر ہیں۔

محسن عباس سے اس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ishaq Jun 22, 2012 06:11am
Very nice topic hai! Aj kal tv chanals ke numainday logon ko black mail krtay aur apnay ap ko qanoun se bala tara smjte ho police check posts per cheching b nai krwtay!aksar inko police walao ke sath jagrta hovay dhakha gaya hai!qanuon sub k liye baraber hona chahaye!

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024