چوتھی قسم کے انسان
السٹریشن — جمیل خان –.
جب انسان اس دنیا میں اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا تو اس کا امتحان چہ معنی دارد؟
قدم قدم پر اسے ڈرانے والے ڈراتے ہیں کہ یہ نہ کرو، یہ نہ کہو بلکہ یہاں تک کہ یوں نہ سوچو۔
پھر جب اس طرز کی ہی زندگی سے مقامِ اشرفیت حاصل ہوسکتا ہے تو اس عالم رنگ و نور میں شعور کی آنکھ ہی نہ کھولنے دی جاتی۔
اس اسفل السافلین میں جہاں پر گویا قدم قدم پر سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی مانند جگہ جگہ ایسے اژدہے اپنا منہ کھولے بیٹھے ہیں کہ جہاں قدم رکھتے ہی وہ جہنم کے عمیق گڑھے میں جا گرتا ہے۔ ان سے بچنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی زندگی گزارنے کے لیے سب کچھ خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ تین وقت کی روٹی خالق کی طرف سے براہ راست مہیّا نہیں کی جاتی، بلکہ ہمارے ہی جیسے انسانوں کی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے، جو دن رات کھیتوں میں مشقت کرتے ہیں۔ گندم یا کوئی بھی اناج جنگل سے نہیں آتا۔ جنگل میں اُگنے والے خود رَو پھل تو شاید کھانے کے قابل ہی نہ ہوں اور اگر ہوں تو انسانی محنت شامل کیے بغیر ان کی مقدار اتنی ہو ہی نہیں سکتی کہ تمام انسانوں کی بھوک مٹا سکے۔
ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ کوشش کرو، کوشش سے ہی انسانوں کو سب کچھ ملتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ سب کچھ قدرت نے اپنے قلم سے لکھ دیا ہے۔
کیا وہ قدرت؟
جس قدرت کا دنیاوی ٹھیکے دار تعارف کرواتے ہیں، موجودہ دور کے انسانوں سے بھی پیچھے ہے؟
جی یہ سوال ہے تو تلخ اور گستاخانہ لیکن حضرت بات یہ ہے کہ گزشتہ بیس برسوں سے لکھنا پڑھنا میرا اوڑھنا بچھونا ہے لیکن پچھلے کئی برسوں سے میں نے قلم کا استعمال ہی نہیں کیا۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ جب لکھ ہی دیا گیا ہے تو پھر ہماری کوششیں کیا حقیقت رکھتی ہیں؟
ہمارے پیدا ہونے کے بعد ہمیں معاشرے کے اجارہ داروں کی جانب سے ایک نظام حیات ملتا ہے۔ جب کوئی انسان ممنوع ومجاز، مستحب اور مکروہات کے اس نظام پر عمل پیرا ہوجاتا ہے تو گویا اس طرح وہ اپنی عقل کو ایک طرف رکھ کر اپنی پروگرامنگ کے لیے خود کو اُن لوگوں کے ہی سپرد کردیتا ہے۔ کچھ وقت گزرتا ہے، اگر وہ پوری طرح خود کو اس گروہ کے حوالے کردے تو اس کو ایک پروگرام شُدہ مشین کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
بہت سے لوگ ہماری اس توجیہہ کو دوسرے رُخ پر لے جاسکتے ہیں، لہٰذا ہم ان کے لیے عرض کردیں کہ یہاں بات اخلاقیات کی نہیں ہو رہی ہے، بلکہ ان معاملات کی ہے جن کا تعلق ہماری روز مرہ کی زندگی سے ہے جو ہر انسان اور معاشرے میں مختلف ہوتی ہیں، یا بعض اوقات محض ذاتی عمل ہوتا ہے۔
آپ ایسے انسان کو کیا کہیں جس کے پاس کچھ مخصوص الفاظ کا ایک مجموعہ ہے جنہیں اس نے ہر وقت دہراتے رہنا ہے، صبح اٹھتے وقت، رات کو سونے سے پہلے، کھانے سے پہلے اور بعد میں، بازار میں جانے سے پہلے، بیت الخلاء میں جانے سے پہلے، سواری، سفر، مرض، کپڑے بدلنا، نہانا، خرید وفروخت۔ غرضیکہ دنیا کا ایسا کوئی کام نہیں جسے کرنے سے پہلے یہ الفاظ نہ دہرائے جائیں۔
صرف اس پر ہی بس نہیں، اس کے پاس کچھ قاعدے بھی ہیں جو باقی چیزوں کا تعین کرتے ہیں مثلاً کھانا کس ہاتھ سے کھایا جائے، گھر میں اور بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے کون سا قدم بڑھایا جائے، کس طرح بیٹھا جائے اور بیٹھنے کے کن طریقوں سے اجتناب برتا جائے، بیوی کے ساتھ تعلقات کس طرح استوار کیے جائیں، بات کس طرح کی جائے، اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کس طرح دیکھا جائے۔ اس کے پاس اپنے لباس، بال، داڑھی، ظاہری حلیہ، کس ٹوتھ برش سے اجتناب برتنا ہے اور کیا کھانا پینا ہے، یہاں تک کہ ان خوشبوؤں کے بارے میں بھی اس کے پاس ہدایات موجود ہیں جنہیں اس نے استعمال کرنا اور جن سے اجتناب برتنا ہے۔
جان لوتھر ایک مغربی مفکر گزرے ہیں، انہوں نے زندگی میں کامیابی کے چند اصول بتائے ہیں اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو ہم بہتر طریقے سے غور و فکر کر سکتے ہیں۔ جان لوتھر صاحب کا کہنا ہے کہ عام لوگ عموماً مذہبی علماء کی رائے پر بھروسہ کرنے کے عادی ہیں، اور خود سوچنے کی بجائے یہ کام اُن کے سپرد کردیتے ہیں، اگر لوگ اپنے افکار ونظریات پر اعتماد پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اُن کو تین باتیں یاد رکھنی چاہئیں:
1- علم صرف کتابوں سے نہیں ملتا، یہ مشاہدے اور مشاہدے کے بعد نتائج اخذ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
2- سوچنے کی عادت ڈالیں، حقائق کا مطالعہ کریں اور اپنے ذہن اور منطق کو استعمال کریں، آپ کو اکثر صحیح جواب مل جائے گا۔
3- ماہرین اور عالموں کے خیالات اگر آپ کے مشاہدے اور تجربے کے مطابق نہ ہوں تو انہیں مسترد کردیں، یاد رکھیں کہ کتابیں اور علماء غلط بھی ہوسکتے ہیں۔
یہ ساری باتیں فطرت کے قوانین ہیں لیکن شاید مسلمانوں کی فطرت اس فطرت سے الگ ہے جو کائنات میں جاری و ساری ہے۔ اسی لیے اکثر بہت ہی سمجھدار اور باشعور افراد بھی یہی مشورے دیتے ہیں کہ کٹھ پتلی کا کوئی کردار بن کر رہنا ہی اس دنیا کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔
جب ہمارے معاشروں میں ذہنی صلاحیتوں پر جبر اور خوف کے پہرے بٹھائے جاتے ہوں تو آپ کیسے یہ تصور کرسکتے ہیں کہ یہاں ترقی کا کوئی سسٹم قائم ہوسکے گا۔ اس لیے کہ صرف تخلیقی ذہن رکھنے والا فرد ہی ایسا ادارہ قائم کرسکتا ہے جو اس کے بغیر بھی کام کرتا رہے۔
ایک حقیقی راہنما جب کام مکمل کر لیتا ہے تو اس کے ساتھی اور پیروکار کہتے ہیں ’یہ کام تو ہم نے خود کیا ہے۔‘
وہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک راہنما یا لیڈر کے بغیر بھی وہ عظیم کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں۔
چونکہ ہمارے معاشرے میں مذہب اور دولت پرستوں نے آپسی گٹھ جوڑ سے صدیوں پرانی روایات اور جہالت کی گرد سے اٹے ہوئے ماحول کو تشکیل دیا ہے، اس ماحول نے عام لوگوں کے اندر فہم و ادراک کے چشمے کو ہی خشک کردیا ہے۔
چنانچہ ہمارے ہاں اگر کوئی اندھوں میں کانا راجہ کی مثال کے مصداق کچھ باتیں رٹ کر دانشمند بن جاتا ہے اور لوگوں کی رہنمائی کا بیڑہ اُٹھا لیتا ہے تو وہ تخلیقی ذہن رکھنے والوں کے بالکل برعکس طریقہ اختیار کرتا ہے، وہ جو کام بھی کرتا ہے اِس طرح کرتا ہے کہ اُس کی غیر موجودگی میں سارا کام رُک جائے اور سارے نظام کا پہیہ جام ہوجائے۔ اس طرح وہ سمجھتا اور لوگوں کو سمجھاتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ عقلمند ہے اور دوسرے سارے بے وقوف ہیں۔
آج جبکہ سائنسی ترقی اپنے عروج کی جانب گامزن ہے اور انسانی معاشروں اور رویوں نے نئی نئی جہات اپنانا شروع کردی ہیں، وہیں ترقی کی گاڑی اپنا سفر طے کرتے کرتے کاغذ، قلم اور فوٹو کاپی کے دور سے نکل کر کمپیوٹر، ای میل، ایس ایم ایس، پیپر فری کمیونیکیشن اور سوشل میڈیا کی منزلوں تک پہنچ گئی ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان ٹیکنالوجی کو تو اپنا رہے ہیں لیکن اس ترقی یافتہ دور میں بھی مسلمانوں کی اکثریت کے جہل کا یہ عالم ہے کہ ای میل، میسج باکسز اور سوشل میڈیا کے صفحات پر مذہبی توہمات اور قیاسات پر مباحثے جاری رہتے ہیں اور اپنی اپنی مذہبی شخصیات کی مقدس کہانیاں پوری مذہبی عقیدت اور فرضِ شرعی کے اصولوں کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ شئیر ہوکر جنت بانٹتی پھر رہی ہیں۔ ان مذہبی شخصیات کی بُت پرستوں سے بڑھ کر پوجا کی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں بنظر غائر دیکھا جائے تو اکثریت کی عقل کا اندھا پن ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے، چنانچہ امید کی جاسکتی ہے کہ جب دنیا ترقی کے اس مقام سے کہیں زیادہ بلندی پر جاپہنچے گی ہم جہل کے مزید پست ترین درجوں پر کھڑے ہوں گے۔
مفکرین کے بقول لوگوں کی تین اقسام ہوتی ہیں:
اوّل۔ وہ لوگ جو واقعات کو جنم دیتے ہیں،
دوئم۔ وہ لوگ جو واقعات کو رونما ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں،
اور سوئم۔ وہ لوگ جو واقعات پر صرف حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔
لیکن ہمارے خیال میں ایک چوتھی قسم بھی ہے جو مسلمانوں میں بہ افراط پائی جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو جاری واقعات ، ایجادات اور ترقی کی دیگر شکلوں کو اپنی قدیم روایات سے جوڑ کر اپنے خشک اور بنجر قسم کے کبر اور گھمنڈ میں مزید اضافہ کرلیتے ہیں۔
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (17) بند ہیں