• KHI: Fajr 4:43am Sunrise 6:03am
  • LHR: Fajr 3:59am Sunrise 5:25am
  • ISB: Fajr 3:58am Sunrise 5:28am
  • KHI: Fajr 4:43am Sunrise 6:03am
  • LHR: Fajr 3:59am Sunrise 5:25am
  • ISB: Fajr 3:58am Sunrise 5:28am

خوش رہنے پر بھی پابندی لگا دی جائے؟

شائع February 14, 2013

valentine 670
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ہندوستان کے بہت سے ہندو شدت پسند مذہبی گروہوں کے رہنماؤں کی توپوں کا رُخ ہمیشہ پاکستان کے مذہبی گروہوں کی جانب رہتا ہے اور پاکستان کے مذہبی گروہ بھی ہندوستان کو اپنا ازلی دشمن قرار دینے پر تُلے رہتے ہیں، یعنی کہ دونوں کا معاملہ گویا آگ اور پانی کا ہے، لیکن بہت سارے معاملات ایسے ہیں جن پر دونوں جانب کے مذہبی شدت پسندوں کا مؤقف ناصرف ملتا جلتا ہے بلکہ بعض چیزوں پر تو ان کے ردّعمل بالکل یکساں ہوتے ہیں۔
السٹریشن — جمیل خان –.

پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے ٹیلی ویژن چینلز اور ریڈیو اسٹیشن کی انتظامیہ کو یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنے پروگراموں میں ویلینٹائن ڈے کے ذکر سے گریز کریں، اس لیے کہ یہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور نوجوانوں کو بے راہ رو بنانے کا باعث بن رہا ہے۔

پیمرا کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک لیٹر میں کہا گیا ہے کہ “یہ تہوار پیمرا کے ضابطہ اخلاق کے مطابق بے حیائی، بے راہ روی اور پاکستان کی نوجوان نسل کی اخلاقی قدروں کو برباد کرنے کا باعث بن رہا ہے۔”

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پیمرا کو یہ شکایات موصول ہوئی تھیں کہ یہ دن چونکہ ہماری مذہبی اور ثقافتی اقدار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا چنانچہ اس دن کی ٹی وی اور ریڈیو پر تشہیر پر پابندی عائد کی جائے۔ پیمرا نے رات گئے ایک لیٹر الیکٹرانک میڈیا کے تمام اداروں کو جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے نشر کیے جانے والے پروگرامز سے کسی کے جذبات مجروح نہیں ہونے چاہئیں۔

مذکورہ لیٹرمیں کہا گیا ہے کہ“تمام سیٹیلائٹ ٹی وی چینلز، ایف ایم اسٹیشنز سے درخواست ہے کہ وہ اپنے ناظرین کے جذبات اور رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنے کسی پروگرام کا مرکزی خیال یا کسی پروگرام میں ویلنٹائن ڈے کے ذکر سے گریز کریں۔ ”

شکر ہے کہ پیمرا نے صرف گریز کرنے کی درخواست ہی کی ہے، اگر بالفرض مکمل پابندی ہی عائد کردی جاتی تو ٹی وی چینلز سے منسلک پروگرامز پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز اور میزبان خواتین وحضرات بیان کرسکیں گے کہ پھر اس صورت میں ان کی گزشتہ ایک ماہ سے کی جانے والی تیاریوں پر راتوں رات کس طرح پانی پھر گیا ہوتا، خاص طور پر ٹی وی چینلز کے مالکان کے دلوں پر کیا گزرتی، جنہیں اس دن سے کروڑوں یا شاید اس سے بھی کہیں زیادہ آمدنی کی توقع ہے۔

پیمرا کے حکام کا کہنا تھا کہ وہ ویلنٹائن ڈے پر نشر کیے جانے والے پروگراموں پر پابندی نہیں لگا رہے ہیں محض ٹی وی چینلز کو  لوگوں کی طرف سے موصول ہونے والی شکایات سے آگاہ کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر منورحسن اور سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے پیمرا کے اس اقدام کی بھرپور حمایت کی ہے۔

   عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ہندو مذہبی گروہوں کو بھی ویلنٹائن ڈے منانے والوں سے اسی طرز کی پریشانیاں لاحق رہتی ہیں، جس طرز کی پریشانی کا اظہار ہمارے ہاں کی مذہبی جماعتیں کرتی آئی ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس مغربی تہوار کے خلاف مظاہرے کیے جاتے  ہیں، لیکن نوجوان نسل کی اکثریت نا صرف اس تہوار کو پورے جوش و خروش سے مناتی ہے بلکہ اس تہوار پر سرخ گلاب، تہنیتی کارڈز اور سرخ رنگ کی دیگر خوبصورت اشیاء فروخت کرنے والوں کی تو گویا چاندی ہی ہوجاتی ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ہندو مذہبی گروہوں کو بھی ویلنٹائن ڈے منانے والوں سے اسی طرز کی پریشانیاں لاحق رہتی ہیں، جس طرز کی پریشانی کا اظہار ہمارے ہاں کی مذہبی جماعتیں کرتی آئی ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس مغربی تہوار کے خلاف مظاہرے کیے جاتے  ہیں، لیکن نوجوان نسل کی اکثریت نا صرف اس تہوار کو پورے جوش و خروش سے مناتی ہے بلکہ اس تہوار پر سرخ گلاب، تہنیتی کارڈز اور سرخ رنگ کی دیگر خوبصورت اشیاء فروخت کرنے والوں کی تو گویا چاندی ہی ہوجاتی ہے۔

یہی حال یہاں بھی ہے۔ آج کراچی میں صبح کے وقت جبکہ فجر کی اذانیں بھی نہیں ہوئی تھیں، پھولوں کی دکانیں سرخ گلاب کے گلدستوں سے سج چکی تھیں۔ یاد رہے پھولوں کی دکانیں شام کے وقت ہی کھلتی ہیں، لیکن چونکہ آج ویلنٹائن ڈے ہے اور آج دس روپے کا پھول سو روپے کا بھی باآسانی فروخت ہوجائے گا اور ڈیمانڈ اس قدر زیادہ ہوگی کہ پورا کرنا دشوار ہوگا، اسی لیے پھولوں کی دکانیں علی الصبح کھل چکی تھیں۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ہندوستان کے بہت سے ہندو شدت پسند مذہبی گروہوں کے رہنماؤں کی توپوں کا رُخ ہمیشہ پاکستان  کے مذہبی گروہوں کی جانب رہتا ہے اور پاکستان کے مذہبی گروہ بھی ہندوستان کو اپنا ازلی دشمن قرار دینے پر تُلے رہتے ہیں، یعنی کہ دونوں کا معاملہ گویا آگ اور پانی کا ہے، لیکن بہت سارے معاملات ایسے ہیں جن پر دونوں جانب کے مذہبی شدت پسندوں کا مؤقف ناصرف ملتا جلتا ہے بلکہ بعض چیزوں پر تو ان کے ردّعمل بالکل یکساں ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ ویلنٹائن ڈے کو ہی لے لیں تو اس حوالے سے یہاں پاکستان میں مذہبی رہنما یہ بیان دیتے آئے ہیں کہ یہ تہوار ہماری مذہبی اور ثقافتی قدروں کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ جیسا کہ یہاں کل پشاور میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم شباب ملی نے پشاور پریس کلب کے سامنے ویلنٹائن ڈے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران یہ مطالبہ کیا تھا کہ حکومت ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو روکے ورنہ دوسری صورت میں ہم خود انہیں بالجبر روک دیں گے۔ شباب ملی پشاور کے صدر شہزاد احمد نے اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مغربی تہوار نوجوانوں کوبے حیائی پر اُکساتا ہے۔

اب آجائیں سرحد کی دوسری جانب، کل امرتسر میں شیوسینا نے ویلنٹائن ڈے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں ویلنٹائن ڈے کے پوسٹرز کو نذرِ آتش کیا گیا۔ شیوسینا کے رہنماؤں کے بھی وہی الفاظ تھے کہ حکومت ویلنٹائن ڈے منانے سے لوگوں کو روکے ورنہ ہم از خود کارروائی کریں گے۔

جیسا کہ یہاں ہرسال اس دن کے خلاف شدید مظاہرے ہوتے ہیں، بعض جگہ توڑ پھوڑ اور مار پیٹ کے واقعات بھی سننے میں آتے ہیں، اور اُدھر انڈیا میں ہر سال شدت پسند تنظیمیں ویلنٹائن ڈے منانے والوں کے خلاف ازخود کارروائی کا اعلان کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہ مغربی تہوار نہایت اہتمام سے مناتی ہے، جس طرح ہمارے ہاں بڑے چھوٹے شہروں کی دکانوں میں گلاب کے پھول، ویلنٹائن ڈے کے تحائف، چاکلیٹس، کارڈز اور دیگر لوازمات بہت بڑی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔

پاکستان کے حوالے سے تو اعداد و شمار ہمیں دستیاب نہیں ہوسکے لیکن اُدھر انڈیا میں زی نیوز کے مطابق ایسوسی ایٹس چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری آف انڈیا کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان بھر میں ویلنٹائن ڈے پر  پندرہ ارب روپے کا کاروبار ہوگا۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق انڈیا میں کال سینٹرز، آئی ٹی کمپنیز اور بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے نوجوان اس دن ایک ہزار  روپے سے لے کر پچاس ہزار  روپے تک خرچ کرتے ہیں، جبکہ طلباء پانچ سو روپے سے دس ہزار روپے کے درمیان خرچ کرتے ہیں۔

اس سال انڈیا میں ویلنٹائن ڈے پر گزشتہ سال کے مقابلے میں بیس فیصد زیادہ خرچ کی امید ہے۔ جیسے جیسے اس تہوار کی مخالفت میں اضافہ ہورہا ہے، اسی رفتار سے اس تہوار پر لوگوں کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقم کی مجموعی مقدار میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

یہ تو خیر دنیا بھر کی روایت رہی ہے کہ تہوار معیشت کی رفتار کو معمول سے بہت زیادہ تیز کردیتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد جب ایک دن کے لیے سال بھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ خرچ کرتی ہے تو پھر معیشت کا پہیہ جو ایک ایک قدم چل رہا تھا اچانک بھاگنے لگتا ہے۔ چنانچہ کاروباری ادارے اور بڑے سرمایہ دار اس طرح کے ایونٹ سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کے لیے اُکساتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں قربانی کا تہوار بھی اب کارپوریٹ کلچر کا رنگ ڈھنگ اختیار کرچکا ہے، جس میں آپ کو سب کچھ ملے گا لیکن قربانی یعنی ایثار شاید نہ مل سکے۔

ویلنٹائن ڈے پر اعتراض کرنے والوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ محبت کے لیے ایک دن ہی کیوں مخصوص کیا جائے۔ لیکن کسی چیز کے اظہار کے لیے کوئی نہ کوئی وقت مخصوص کردیا جائے تو کوئی بُرائی بھی نہیں۔ اب آجائیں اس دن کو بے حیائی کے فروغ کا ذریعہ کہنے والوں کے نکتہ نظر کی جانب تو ہر دور میں بے حیائی کے پیمانے مختلف رہے ہیں، اسی طرح مختلف خطوں میں بھی یہ پیمانے مختلف  ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ جب  ثقافتی قدریں خطوں، ملکوں اور شہروں کوتو چھوڑیئے قصبوں تک میں یکسر مختلف ہوا کرتی تھیں۔ یہ وہ زمانے تھے جبکہ ذرائع آمدورفت اور کمیونیکیشن کے ذرائع یا تو موجود ہی نہیں تھے یا پھر آج کے مقابلے میں ان کی رفتار نہایت سُست تھی۔ آج دنیا محض لفظی طور پر ہی نہیں حقیقی معنوں میں ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ جس طرح آج کی تھری جی استعمال کرنے والی نئی نسل کو اندازہ نہیں کہ پُرانی نسل کو خط کے جواب کا انتظار کرنا بھی ایک لطف دیا کرتا تھا، اسی طرح پُرانی نسل کے وہ لوگ جو ماضی کی رومانیت میں مبتلا ہیں اور روایت پرستی پر ڈٹے رہنا چاہتے ہیں، وہ آج کی نسلوں کے ذہنوں کی رفتار کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ شاید انہیں اندازہ نہیں ہے یا پھر وہ اس کیفیت کو محسوس نہیں کر پائے ہیں کہ آج کے دور میں ہم خیال لوگوں کی بیٹھک فیس بک پر جمتی ہے، جس میں کوئی کینیڈا سے تو کوئی آسٹریلیا سے اور کوئی صاحب لندن سے کراچی میں بیٹھے اپنے دوست سے تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔

   اب تک ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ روایات پرستوں نے جس چیز کی جتنی شدت سے مخالفت کی، لوگ اتنی ہی شدت سے اُسے اپناتے چلے گئے۔ چنانچہ منفی اور مثبت اثرات دونوں ہی سامنے آئے، بعض معاملات میں منفی اس لیے زیادہ محسوس ہوئے کہ پُرانی نسل نے اگلی نسل کے لیے جدید چیزوں کے حوالے سے کوئی ضابطۂ اخلاق ترتیب نہیں دیا تھا اور وہ یہ کام کرتے بھی تو کیسے کہ انہیں تو اس کی مخالفت سے ہی فرصت نہیں تھی

اب تک ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ روایات پرستوں نے جس چیز کی جتنی شدت سے مخالفت کی، لوگ اتنی ہی شدت سے اُسے اپناتے چلے گئے۔ چنانچہ منفی اور مثبت اثرات دونوں ہی سامنے آئے، بعض معاملات میں منفی اس لیے زیادہ محسوس ہوئے کہ پُرانی نسل نے اگلی نسل کے لیے جدید چیزوں کے حوالے سے کوئی ضابطۂ اخلاق ترتیب نہیں دیا تھا اور وہ یہ کام کرتے بھی تو کیسے کہ انہیں تو اس کی مخالفت سے ہی فرصت نہیں تھی، وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہے کہ کل یہ چیز ہمارے معاشرے کا حصہ بن جائے گی۔ مثال کے طور پر سرسید کے زمانے میں کسی مسجد کے مولوی نے اپنی تقریر کے دوران بے دھیانی میں انگریزی زبان کا کوئی لفظ استعمال کرلیا تو اسے لوگوں نے مار مار کر ادھ موا کردیا تھا۔

آج بھی ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل فون کو معاشرے میں خرابیوں کا ذمہ دار بتایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ چیزیں موجود نہیں تھیں تو کیا معاشرے میں صرف اچھائیاں ہی اچھائیاں تھیں؟

نوجوان نسل میں جوش اور ولولہ بھرا ہوتا ہے، جبکہ عمر زیادہ ہوجائے تو مزاج میں ٹھہراؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ نوجوانوں کے جوش کو لگام دینے کی ہردور میں ہی کوشش کی جاتی رہی ہیں اور یہ کوششیں ناکامی سے بھی دوچار ہوتی رہی ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ نوجوانوں کے جوش کو لگام سےباندھ کر انہیں روکنے کے بجائے انہیں سرپٹ دوڑنے کے لیے صاف ستھرا راستہ فراہم کردیا جائے، ایسا راستہ جہاں پر ان کے ٹھوکر لگ کر گرنے اور چوٹ کھانے کے امکانات بھی نہ ہوں اور ان کی جذباتی توانائی کا مثبت استعمال بھی ہوسکے۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

تبصرے (10) بند ہیں

شانزے Feb 14, 2013 09:06pm
Mullah and the torch-bearer, both from the same flock Guiding others, themselves in the dark (Bulleh Shah)
Muhammad Waqas Feb 15, 2013 04:28pm
Khan Sb, agar ap kabotar ki terha apni ankhien band ker lein to aur baat hai lakin yeh haqeqat hai k Valentine day aisay sookha bht kam manaya jata hai app samaj to gaye hoon gay na..... yahan app nay sirf apni mashori k liye yeh sb likha hai agar app apnay irad gird nazar doraien to app k samnay sari haqeqat ajai gi, lehaza mer ap ko mashwara hai k ap wo likha kerien jo sach hai na k apni wah wah k liye
زوہیب مغل Feb 16, 2013 10:47am
اوے نادان ملاں۔ اگر تو اور تیری جہالت ہمیں " سسی پنوں ، سمی راول، سوہنی مہیوال، ہیر رانجھا" کے میلے لگانے دیتی، صوفیاء کے گیت گانے دیتی، ہمیں ہماری اپنی دھرتی کے عاشقوں کے دن منانے دیتی تو آج یورپ کی فیشن اینڈ کاسمیٹکس انڈسٹری تیسری دنیا کے غربت زدہ آبادی کے جنگل میں "ویلنٹائن ڈے" کا بزنس نہ کرتی۔ ملاں تیری جہالت نسلوں کو برباد کرگئ ہے۔ جس کا کوئ ازالہ نہیں۔
Read All Comments

کارٹون

کارٹون : 23 اپریل 2025
کارٹون : 22 اپریل 2025