بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے

اب سے ایک سو چار برس قبل 13 فروری 1911ء کو سیالکوٹ شہر میں جنم لینے والے فیض احمد فیض نے اپنی تہتّر برس کی عمر میں زندگی کے بہت سے نشیب وفراز اور حالات کے بہت سے اُتار چڑھاؤ دیکھے، ان پر بہت سے ایسے الزامات بھی عائد کیے گئے، جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ رہے ہوں گے، گویا کہ
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
چنانچہ انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں۔
فیض نے تاریخ، فلسفہ اور ادب کے شعبوں میں تعلیم حاصل کی، عربی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1936ء میں ترقی پسند تحریک کے ساتھ منسلک ہوئے تو گویا اس کے اندر زندگی کی روح پھونک دی۔ اُن کو اردو اور پنجابی کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی اور روسی زبان پر بھی بھرپور دسترس حاصل تھی۔ ایک عرصہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے اور اس شعبے سے یکسر متضاد شعبے یعنی فوج میں بھی خدمات انجام دیتے رہے، پھر لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر پہنچ کر فوج کو خیرباد کہہ دیا۔ انہوں نے کئی ادبی جرائد کی ادارت بھی کی اور پاکستان ٹائمز سے بحیثیت ایڈیٹر وابستہ رہے۔
انسان دوستی پر مبنی ان کی شاعری کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ بلاشبہ اردو زبان میں عہد جدید کے سب سے بڑے اور عہد ساز شاعر فیض احمد فیض ہیں۔ یہ فیض کا انقلابی فکر کے ساتھ عشق تھا جس کی جھلک ہم ان کی انقلابی شاعری میں دیکھتے ہیں۔
فیض کی سوچ یہ تھی کہ فطرت کے تمام عناصر کی سوچ عصبیت اور جانبداری سے پاک ہوتی ہے، چنانچہ انسان صرف اسی صورت میں فطرت سے ہم رشتہ ہوسکتا ہے، جبکہ اس کے اندر فطرت کی سوچ پیدا ہوجائے، یعنی اس کے اندر غیر جانبدارانہ ذہن کام کرنے لگے، وہ ہواؤں، پرندوں،بارشوں، سورج کی کرنوں اور افلاک سے آنے والی ان دیکھی اور غیر محسوس شعاعوں کی مانند تمام انسانوں کو فیضیاب کرنے کے لیے تہہ دل سے آمادہ ہو۔
فیض کی شاعری انسانیت کے کرب اور کمزور انسانوں پر ہونے والے ظلم وستم کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اُمید اور رجائیت کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔ ان کے اشعار گواہ ہیں کہ ان کا دل کبھی مایوسی کے سمندر میں نہیں اُترا کہ ان کے پاس امیدوں کا پتوار تھا اور مہیب طوفانوں اور خوفناک بھنور کا شکار ہوکر اس سمندر کی گہرائی میں کہیں گم ہوکر نہیں رہ گئے۔ ان کا یہی جذبۂ آفاقیت ان کی شاعری کو دیگر شعراء سے منفرد بناتا ہے اور اِسی بناء پر وہ ایک عہد ساز شاعر اور مفکر قرار دیئے جاتے ہیں۔ فیض اُمید کی یہ جوت جگاتے ہوئے 29برس قبل اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے کہ
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
لیکن فیض کا یہ شعر ہمیں آج بھی اپنی تعبیر کا منتظر محسوس ہوتا ہے اور آج حالات نے جو رُخ اختیار کرلیا ہے، ایسا شاید فیض کی زندگی میں نہ تو خود انہوں نے سوچا ہوگا اور نہ ہی کسی اور نے، اس لیے کہ اس دور میں گوکہ روایت پسندی اور ماضی پرستی اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود تھی، لیکن ایسا نہیں تھا کہ کسی کی بات، نظریہ یا طرز زندگی پسند نہ آئے تو اس سے جینے کا حق ہی چھین لیا جاتا ہو۔ اب تو معمولی باتوں پر قتل ہوجاتے ہیں، اقلیتی مذاہب و مسالک کے لوگوں کی گویا نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ فیض کے زمانے میں خودکش حملوں کا تو کوئی تصور تک موجود نہ تھا اور نہ ہی اسلحے کی اس قدر افراط تھی۔
آج ہمیں فیض بہت شدت سے یاد آرہے ہیں، کاش وہ زندہ ہوتے تو ان کی رجائیت اور اُن کے امید بھرے ذہن کے سامنے یہ سوال رکھتے کہ آخر ہماری اس بربادی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
کیا ہم قحط الرجال کے عذاب میں مبتلا ہیں؟
آج فیض کے نام پر مختلف تقریبات میں اکھٹا ہونے والے انٹلکچوئلز سے بھی میرا یہی سوال ہے۔ بالفرض اگر میرے سوالوں کے جواب ان کے پاس نہ ہوں تو کم ازکم فیض کے اشعار میں سے ڈھونڈ سکیں تو ضرور ڈھونڈیں، کہ ظلمت کی سیاہ رات کب ڈھلے گی اور فروغ گلشن کا موسم کیوں کر شروع ہوسکے گا؟
فیض نے تو اپنی تمام ذمہ داریاں نبھائیں اور گویا یہ کہتے کہتے رخصت ہوئے کہ
یہ دیس مفلس و نادار کج کلاہوں کا
یہ دیس بے زر و دینار بادشاہوں کا
کہ جس کی خاک میں قدرت ہے کیمیائی کی
یہ نائبانِ خداوندِ ارض کا مسکن
یہ نیک پاک بزرگوں کی روح کا مدفن
جہاں پہ چاند ستاروں نے جبّہ سائی کی
نہ جانے کتنے زمانوں سے اس کا ہر رستہ
مثالِ خانۂ بے خانماں تھا در بستہ
خوشا کہ آج بفضلِ خدا وہ دن آیا
کہ دستِ غیب نے اس گھر کی در کشائی کی
چنے گئے ہیں سبھی خار اس کی راہوں سے
سنی گئی ہے بالآخر برہنہ پائی کی
لیکن پچھلے تین چار عشروں کے دوران ناصرف کانٹوں کی افزائش و نشونما کے لیے بھرپور ماحول فراہم کیا گیا، بلکہ برہنہ پا لوگوں کی بھی افراط ہوتی چلی گئی۔ اب تو شاید ہر پیر زخمی ہیں اور ہر ایک کا دامن تار تار ہوچکا ہے۔