• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 4:41pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 4:48pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 4:41pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 4:48pm

عقل کے دشمن

شائع February 11, 2013

haram 670
کوئی غیر ملکی ادارہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہے تو مذہب کے کچھ ٹھیکے دار حرام حلال کے فتووں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں، پھرکچھ دنوں کے وقفے کے بعد کسی مذہبی مدرسے کے حمایتی بیانات کے ہمراہ ایسے اداروں کے اشتہارات شایع ہوتے ہیں اور وہی چیز حلال ہوجاتی ہے، جس کے حرام ہونے کا اس قدر شور مچایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں کتب و رسائل کی پبلشنگ کے حوالے سے اسی طبقے کی جس طرح آج کل اجارہ داری قائم ہوچکی ہے، شاید ضیاءالحق کے دور میں بھی نہ رہی ہو۔ آج مذہبی کتابوں کی اشاعت اتنی زیادہ ہے کہ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اردو زبان مذہبی طبقے کی نشرواشاعت کے لیے مخصوص ہوچکی ہے۔ اس طبقے کا دباؤ اس قدر زیادہ ہے کہ عقل و خرد اور فکر و آگہی کا درس دینے والوں نے انگریزی کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے۔
السٹریشن — جمیل خان –.

اس بات سے ہر فرد ہی اتفاق کرے گا کہ انسان کےلیے خوراک، لباس، گھر اور دیگر بنیادی ضروریات سے کہیں زیادہ امن و سلامتی کی ضمانت اہمیت رکھتی ہے۔  اس لیے کہ امن و سلامتی اور پُرسکون ماحول میں ہی انسان اپنی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے قابل ہوسکتا ہے۔

ظلم و جبر سے آزاد ماحول، جہاں ہر فرد دوسرے فرد کے لیے سلامتی اور خیر کا باعث ہو، انسانوں میں زندہ رہنے کی اُمنگ پیدا کرتا ہے، یہی اُمنگ اس کی خداداد صلاحیتیوں کو مہمیز دیتی ہے۔ یوں ایسے معاشرے میں فکری، علمی، فنّی اور معاشی ترقی کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔

اس کے برعکس جہاں بدامنی اور فساد کا دور دورہ ہو، افرادِمعاشرہ پر ہروقت جور و ستم کی تلوار لٹکتی رہے، ہمہ اقسام کے خوف ذہنوں پر حاوی ہوں تو ناصرف جذبات و ذہن بےکیف اور منجمد ہوجاتے ہیں بلکہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسے معاشروں میں انسانوں کی مثبت اور تعمیری صلاحیتیں بھی مفلوج ہوکر رہ جاتی ہیں۔

بد امنی اور فساد کی انتہا قتل و غارت گری ہے!

قتل کا ارادہ ایسے بیمار ذہنوں کے اندر پرورش پاتا ہے جو انسانیت کی قدر اور اس کی محبت پر مبنی جذبات اور احساسات سے عاری ہوچکے ہوں۔ انسانیت کی خدمت کرنے والا فرد جانتا ہے کہ کائناتی ارکان بلا کسی غرض اور تعصب کے تمام مخلوقات کو مستفید کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر چاند کی مسحور کن چاندنی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت کسی خاص قوم یا ملت کے لیے مختص نہیں۔ سورج کی روشنی سے مغرب و مشرق اور شمال و جنوب میں بسنے والے تمام انسان یکساں طور پر استفادہ کرسکتے ہیں۔ بارش برستی ہے تو اچھے، بُرے، نیک و بد، تابع فرمان و نافرمانی کرنے والے ہر ایک کو ہی سیراب کرتی ہے۔ ہوا بھی سب کے لیے زندگی کا باعث ہے۔

فساد کی ابتداء اُس وقت ہوتی ہے جب کوئی فرد یا قوم خود کو دوسروں سے برتر تصور کرنے لگے اور تکبر و غُلو کے راستے پر چلتے چلتے اس مقام تک جاپہنچے جہاں وہ دوسروں کی سوچ اور طرزِفکر پر مسلّط ہونے کی کوشش شروع کردے۔ کبر و غرور ہی جبر کی پیدائش کا باعث بنتا ہے، جب آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ وہ دوسروں سے افضل ہے۔

اس طرز کی منفی سوچ کے حامل کرداروں کی بھیانک مثالیں یورپ کے تاریک دور میں جابجا ملتی ہیں، جب مغرب میں کلیسا کو اقتدار اور قوت حاصل تھی تو مغرب کے باشندوں کے لیے علم اور عقل کے راستے بند تھے۔

مغربی مؤرخ قرونِ وسطیٰ کو عہد تاریک سے تعبیر کرتے ہیں، اُن کے نزدیک معاشرتی اور تہذیبی سرگرمیوں کے لحاظ سے انتہائی پستی کا زمانہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دوران تعصب، تنگ نظری اور توہم پرستی کا اندھیرا چھایا رہا۔ کلیسا نے عقل و خرد پر پہرے بٹھا رکھے تھے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ کلیسائی عقائد سے سرِ مو بھی اختلاف کرسکے۔

ہر شہر میں کلیسا کی عدالتیں قائم تھیں، جن کے فیصلوں کے سامنے کوئی فریاد کرنے کی جرأت بھی نہ کرسکتا تھا۔ لاکھوں بے گناہ افراد کو گرفتار کرکے بے دینی کے جرم میں پہلے ٹکٹکی پر باندھ کر کوڑے مارے جاتے پھر اُن کی ہڈیاں توڑی جاتیں، اس کے بعد سڑکوں پر گھسیٹا جاتا اور آخر میں اُنہیں جلادیا جاتا، ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگادی جاتی اور اُن کا تمام مال و متاع ضبط کرلیا جاتا۔

اُس بھیانک دور میں یورپ کا ہروہ فرد جسے حکمران طبقے کی سرپرستی حاصل نہ تھی کلیسائی عدالتوں کے خوف سے ہمہ وقت لرزہ براندام رہا کرتا تھا۔

آپ خود سوچئے! ایسے خوف کے ماحول میں علوم و فنون کیا خاک ترقی کرتے اور مزید ستم یہ کہ تعلیمی شعبے پر بھی کلیسا کی اجارہ داری تھی، درس گاہوں میں جو کچھ درس و تدریس ہوتی اُس کا مقصد بھی کلیسا کے اقتدار اور اُس کے کبر و غرور کو تقویت پہنچانا تھا۔

معقولات کی جگہ منقولات، درایت کی جگہ روایت اور اجتہاد کی جگہ تقلید نصاب کی بنیاد تھی۔ کسی استاد یا شاگرد کو کلیسائی احکام پر شک کرنے کی اجازت بھی نہ تھی، چنانچہ خرد دشمنی کے اس ماحول میں ذہن مفلوج ہوچکے تھے اور کوئی شخص سکون و اطمینان سے سوچ بھی نہ سکتا تھا۔

اس گھناؤنے دور میں کلیسا نے علم و شعور کی روشنی کو کسی صورت پھیلنے نہ دیا، کسی شخص کے بارے میں شبہ بھی ہوجاتا کہ وہ روایات سے ہٹ کر علمی و عقلی بات کرتا ہے تو اُسے فی الفور گرفتار کرلیا جاتا اور اُسے سر عام ایسی عبرتناک سزا دی جاتی کہ برسوں کوئی اپنے ذہن میں ایسی سوچ کو جگہ نہ دے سکے۔

کلیسا نے تفکر کرنے والوں پر ایسے ظلم ڈھائے کہ انسانیت کی پیشانی شرم و حیا سے عرق آلود ہوجاتی ہے۔

علم کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل کردینے کی خواہش کے تحت یورپی کلیسا نے مجالس تفتیش و احتساب Inquisition قائم کی، جس نے 1481ء سے 1808ء تک تین لاکھ چالیس ہزار افراد کو مختلف نوعیت کی سزائیں دیں۔ ان میں سے 32 ہزار افراد ایسے تھے جنہیں زندہ جلا دیا گیا تھا۔

اسپین کی انکوئیزیشن نے جب اپنی پہلی سالگرہ منائی تو بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا کہ گزشتہ بارہ مہینوں میں دو ہزار انسان زندہ نذر آتش کیے جاچکے ہیں اور سترہ ہزار کو بھاری جرمانے اور حبس دوام کی سزائیں دی گئیں۔

کلیسا کی اس بربریت کے باوجود بھی کہیں کہیں علم کی کرنیں نمو دار ہوئیں تو انہیں روکنے کے لیے یہ حکم جاری کیا گیا کہ کلیسا کی منظوری کے بغیر کوئی کتاب چھاپی نہیں جاسکتی۔ جو کوئی شخص غیرمنظور شدہ کتاب چھاپے گا، فروخت کرے گا یا پڑھے گا اُس کو سزائے موت دی جائے گی۔

سترھویں صدی عیسوی کے آغاز میں فلورنس کے ایک ریسرچر گلیلیو نے دوربین بنائی اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر زمین کے گول ہونے کا اعلان کیا تو کلیسا نے اُسے گرفتار کرنے کا حکم جاری کردیا۔

گلیلیو اپنے متوقع انجام سے خوفزدہ ہوگیا اور اُس نے اپنے اِس ‘کفر’ سے توبہ کرکے گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ لیکن گوشۂ عافیت میں بھی اس کا دل مضطرب اور طبیعت پریشان رہتی تھی، آخر کار اس پریشانی اور اضطراب کا علاج اُس نے سولہ سال کی خاموشی کے بعد اپنی کتاب کی اشاعت میں پایا، اِس کتاب میں اُس نے زمین کے گول ہونے پر دلائل دیے تھے۔

گلیلیو کی اِس ‘گستاخی’ پر کلیسا کے کارندوں نے اسے گرفتار کرلیا، لیکن اس مرتبہ کسی قسم کی سزائیں اُسے تائب ہونے پر مجبور نہ کرسکیں اور وہ قید خانے میں سسک سسک کر مرگیا۔

اٹلی کا ایک مفکر برونو کو اس جرم میں گرفتار کیا گیا کہ وہ متعدد عالمین کا قائل تھا، جبکہ کلیسا کے اجارہ دار زمین کو ہی تمام کائنات کا مرکز تصور کرتے تھے۔

انکوئیزیشن نے اس کے متعلق یہ حکم صادر کیا کہ اُس کو بھڑکتی ہوئی آگ میں زندہ جھونک دیا جائے اور بالآخر اُسے 16 فروری 1600ء میں نذر آتش کردیا گیا۔

کلیسا کے اجارہ داروں نے لوگوں کو یہ باور کرایا تھا کہ ان کا نہ تو کوئی فیصلہ غلط ہوسکتا ہے، نہ اُن کے کسی حکم پر تنقید کی جاسکتی ہے اور وہ لوگوں کے گناہوں کو معاف کروانے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ آگے چل کر اس عقیدے کو معافی نامے INDULGENCES کی صورت دے دی گئی۔ پوپ لیو دہم LEO X کے دور میں معافی نامے فروخت کرنے کی ایجنسیاں قائم ہوئیں۔

مختلف گناہوں کی قیمتیں مختلف تھیں، ہر ایک ایجنٹ کے پاس ان کی فہرست موجود ہوتی تھی۔ یہ معافی نامے صرف اپنے گناہوں کی میل دھونے کے لیے ہی نہ تھے بلکہ لوگ اپنے مرحوم عزیزوں کے لیے بھی بطور کفّارہ خرید سکتے تھے۔ اس دور میں یورپ کے مختلف ممالک میں سڑکوں پر کلیسا کے ایجنٹ آوازیں لگاکر یہ معافی نامے فروخت کیا کرتے تھے۔

ہم نے اُس تاریک دور کی ایک جھلک پیش کی، جبکہ جبر اور خوف نے علم و شعور کا راستہ بند کردیا تھا۔

اس جمود زدہ ماحول میں لوگوں کی حالت مردوں سے بدتر ہوچکی تھی۔

وہ کیا؟ کیوں؟ اور کیسے؟ کی طرز کے سوالات کو اپنے ذہنوں کے کسی خفیہ گوشے میں بھی جگہ دینے سے قاصر تھے۔

یورپ کے تاریک دور میں مذہبی اجارہ دار رقم کے عوض لوگوں کو گناہوں کی معافی کے پروانے دیا کرتے تھے، کیا آج مسلم معاشروں میں یہی روش کچھ مختلف انداز کے ساتھ جاری نہیں ہے؟

آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اچھائی اور برائی کے معیارات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں، اس طرح نہیں رہے جس طرح کہ فطری طور پر یہ معیارات ازل سے چلے آرہے ہیں۔ اس لیے کہ اب کسی کے اچھے یا بُرے ہونے کا میعار اللہ کی مخلوق کے لیے کارآمد ہونا نہیں رہا۔

آج ہمارے معاشرے میں کسی کا محض ظاہری حلیہ ہی اسے متّقی کے درجے پر فائز کروا سکتا ہے، صرف  بڑے بھائی کا کُرتہ اور چھوٹے بھائی کی شلوار زیب تن کرنا اور ریش دراز کرنا ہی کافی ہے۔

چنانچہ ملک کے بعض علاقوں میں بہت سے لوگ اغوا برائے تاوان کو بطور پیشہ اپنا ئے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھوں کی انگلیاں تسبیح کے دانوں پر مسلسل متحرک رہتی ہیں، دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے وہ نماز قضا نہیں کرتے اور تاوان کے مقررہ ریٹ میں بھی ایک پیسے کی کمی نہیں کرتے۔

ملاوٹ، غبن، رشوت، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی، دوگنا بلکہ بعض چیزوں پر پچاس گنا سے بھی زیادہ دام وصول کرنا، ڈاکہ، رہزنی، قتل یہاں تک کہ کسی انسان کو ذبح کرنے میں اُنہیں کوئی عار نہیں لیکن کوئی بے نمازی اُن سے برداشت نہیں ہوتا۔

بے ریش اور پینٹ شرٹ پہنے کسی فرد کو دیکھ کر ان کے اعصاب چٹخنے لگتے ہیں کہ ان کے خیال میں ایسا شخص کافروں سے مشابہہ ہوتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اپنی اس ‘شریعت’ کا نفاذ جس اسلحے کے زور پر کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی تو کافروں کا ہی ایجاد کردہ بلکہ تیار کردہ بھی ہے۔

منافقت کا عالم یہ ہے کہ اب یہودیوں کی ملٹی نیشنل کمپنیز کے فرنچائز اداروں نے بھی نے اپنی برانچز پر کلمہ طیبہ کے دیوہیکل سائز کے نیون سائنز نصب کروا رکھے ہیں، جنہیں سالانہ ایک بڑی رقم اُسی ملٹی نیشنل کمپنی کو ادا کرنی ہوتی ہے، اور ان اداروں کے ایگزیکٹیوز عہدوں پر باریش، متدیّن اور متشرع ٹائپ کے سوٹڈ بوٹڈ افراد براجمان ہوچکے ہیں۔

کوئی غیر ملکی ادارہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہے تو مذہب کے کچھ ٹھیکے دار حرام حلال کے فتووں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں، پھرکچھ دنوں کے وقفے کے بعد کسی مذہبی مدرسے کے حمایتی بیانات کے ہمراہ ایسے اداروں کے اشتہارات شایع ہوتے ہیں اور وہی چیز حلال ہوجاتی ہے، جس کے حرام ہونے کا اس قدر شور مچایا گیا تھا۔

عام خیال یہی ہے کہ حمایت  کرنے والے اور مخالفت کا طوفان کھڑا کرنے والے دونوں ہی بھاری رقم بطور ‘ہدیہ، شکرانہ’ وصول کرتے ہیں۔

ہمیں شدیدحیرت ہوتی ہے کہ کبھی فتووں کی توپ کا رُخ ایسے بہت سے مقامی مینوفیکچررز کی جانب نہیں ہوتا، جو غذائی اشیاء میں ایسی چیزوں کی ملاوٹ کررہے ہیں جنہیں انسانی جسم کے لیے زہر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہی غذائی اشیاء کا استعمال کرکے بیمار ہو رہی ہے اور بہت سے تو اپنی جانوں سے ہی ہاتھ دھورہے ہیں۔

شاید ایسے صریح  ‘قتل عام ’ کے خلاف تو کہیں سے ہلکا پھلکا سا بھی کوئی فتویٰ بھی صادر نہیں ہوا  اور بالفرض ہوا بھی تھا تو اس کا وزن اس قدر کم تھا کہ ہمارے علم میں نہیں آسکا۔

بہت سے لوگ جواز پیش کریں گے کہ ہمارے ہاں مذہبی ٹھیکے داروں نے اقتدار پر ابھی اُس طرح سے قبضہ نہیں کیا ہے، جیسا کہ یورپ کے تاریک دور میں عیسائی کلیسا نے کر رکھا تھا، لیکن کیا اس طبقے کو آج یہ سہولت حاصل نہیں ہوچکی ہے کہ وہ جب چاہیں حکومت و ریاست اور عام لوگوں کو بلیک میل کرکے اپنی من مانی کرسکتے ہیں؟

اس کے علاوہ اردو زبان میں کتب و رسائل کی پبلشنگ کے حوالے سے اسی طبقے  کی جس طرح آج کل اجارہ داری قائم ہوچکی ہے، شاید ضیاءالحق کے دور میں بھی نہ رہی ہو۔ آج مذہبی کتابوں کی اشاعت اتنی زیادہ ہے کہ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اردو زبان مذہبی طبقے کی نشرواشاعت کے لیے مخصوص ہوچکی ہے۔

اس طبقے کا دباؤ اس قدر زیادہ ہے کہ عقل و خرد اور فکر و آگہی کا درس دینے والوں نے انگریزی کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے۔ چنانچہ انگریزی سے نابلد معاشرے کی اکثریت پر شعور و آگہی کے روزن بند ہوچکے ہیں اور ان کے ذہن روایات اور ماضی پرست طبقے کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (7) بند ہیں

شانزے Feb 11, 2013 12:34pm
بہت عرصے بعد ایک لاجواب تحریر اردو میں پڑھنے کو ملی ھے آپ نے موجودھ اور کئی برسوں سے جاری صورت حال کا بہت عمدھ تجزہ پیش کیا ھے آپ نے بالکل درست فرمایا ھے کہ عقل و خرد اور فکر و آگہی کا درس دینے والوں نے انگریزی کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے اس کی ایک مثال این ایف پراچہ صاحب ہیں (ان کی تحریریں کم کم ہی اردو میں پڑھنے کو ملتی ہیں) بے ریش اور پینٹ شرٹ پہنے کسی فرد کو دیکھ کر نہ صرف ان کے اعصاب چٹخنے لگتے ہیں کہ ان کے خیال میں ایسا شخص کافروں سے مشابہہ ہوتا ہے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ داڑھی رکھ کے انہوں نے اپنی جنت پکی کر لی ھے اب حساب کتاب تو بس بے ریش اور پینٹ شرٹ والوں کا ھی ھو گا حال یہ ھے کہ زیادھ تر نے داڑھی کے پیچھے خود کو چھپا رکھا ھے یا داڑھی کے اندر کچھ چھپا رکھا ھے  
Mansour Haidar Raja Feb 12, 2013 11:01am
جناب جمیل صاحب کا یہ نقطہ نظر انتہایی فکر انگیز اور زمینی حقایق پر مبنی ہے ، مگر کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ان حالات میں اس تنگ نظری سے کس طرح نکلا جاے ، عام آدمی کے ذہن پر مذہب کی چھاپ اتنی گہری ہو چکی ہے کہ منطقی طرز فکر کے لیے کویی راستہ ہی نہیں بچا ، قیام پاکستان سے پہلے ہی اردو پر مذہبی طرذ فکر کے افراد اپنی گرفت مظبوط کر چکے تھے مگر قیام پاکستان کے بعد اس معاملے کو مزید پیچیدہ کدیا گیا کیوںکہ اس میں ’’اسلام ‘‘ بھی شامل ہو گیا اور یوں ٓسلام اور اردئ نے مل جل کر انسنی فکر پر ایک بے نور سا جالا سا تن لیا ہے
شانزے Feb 12, 2013 01:04pm
اس مسئلے سے نکلنے کا حل: تعلیم اور صرف تعلیم، مصلحت سے آزاد، سب کے لیے یکساں نصاب، مدرسہ سسٹم اور سعودی مداخلت کا مکمل خاتمہ، ملا مسجد تک محدود 
Read All Comments

کارٹون

کارٹون : 19 اپریل 2025
کارٹون : 18 اپریل 2025