• KHI: Maghrib 7:00pm Isha 8:22pm
  • LHR: Maghrib 6:40pm Isha 8:08pm
  • ISB: Maghrib 6:49pm Isha 8:20pm
  • KHI: Maghrib 7:00pm Isha 8:22pm
  • LHR: Maghrib 6:40pm Isha 8:08pm
  • ISB: Maghrib 6:49pm Isha 8:20pm

امریکہ کی لائبریریاں

شائع February 10, 2013

شکاگو میں واقع شومبرگ لائبریری کا ایک منظر۔ بشکریہ لائبریری ویب سائٹ
شکاگو میں واقع شومبرگ لائبریری کا ایک منظر۔ بشکریہ لائبریری ویب سائٹ

نہ نہ کرتے بھی شکاگو میں سخت سردیوں کا موسم شروع ہوچکاہے- اگرچہ بڑے انتظار کے بعد- روزانہ ہی شکایتیں بلکہ خوشامدیں ہوتیں- پلیز پلیز اب آ بھی جاؤ- تو پھر آیا تو لیکن کچھ ترسا ترسا کر- کسی دن تھوڑی سی برف پڑی، پھر بالکل غائب بلکہ یوں لگا جیسے بہار کا موسم وقت سے پہلے آدھمکا- لیکن اب لگتا ہے کہ موسم کو لوگوں پر ترس آ ہی گیا, یعنی سردی-

یہاں موسم بتانے کا طریقہ بھی انوکھا ہے- سیدھے سادھے بات نہیں ہوتی کہ بھئی آج کا ٹمپریچر یہ ہے- لوگ کہیں گے کہ ٹمپریچر تو 32 درجے فارن ہائٹ ہے لیکن لگتا ہے مائینس 10 ٹمپریچر کے ساتھ ہوا ، بارش اور برف ہوجائے تو ٹمپریچر جو بھی ہو سردی زیادہ محسوس ہوتی ہے -

سردی تو اپنی جگہ پر لیکن گھروں میں اتنا احساس نہیں ہوتا کیونکہ ہیٹنگ سسٹم ایسا ہے کہ باہر کی سردی کا پتا ہی نہیں لگتا ہے - البتہ باہر نکلنا ہو تو بڑی تیاریوں کے ساتھ - موٹی موٹی جیکٹس ، دستانے ، بند جوتے بلکہ سنو بوٹس ، اوپر سے مفلر - سڑک پر نکلو اور شہر میں جاؤ تو لوگ اپنی ناکوں تک کو مفلر سے چھپائے نظر آتے ہیں - پارک وغیرہ تو ویران ہوجاتے ہیں البتہ شاپنگ مالز میں لوگوں کی بھیڑ بھاڑ نظر آتی ہے -

یہاں سردیاں کیسے گزاری جائیں ؟ سب کے اپنے اپنے شوق ہیں لیکن اگر آپ پڑھنے پڑھانے کے شوقین ہیں تو سمجھ لیجئے یہ ملک آپ کیلئے جنت ہے - ہر علاقے کی اپنی اپنی لائبریری جس میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کتابیں بھری ہیں - بلکہ بعض لائبریریاں تو ایسی ہیں جہاں دنیا کی مختلف زبانوں کی کتابوں کے شیلف موجود ہیں - انگریزی پڑھنے والوں کیلئے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن چونکہ یہاں مختلف زبانیں بولنے والےآباد ہیں اس لئے ان کی زبانوں میں بھی کتابیں موجود ہیں - چینی، فرانسیسی ، جرمنی ، روسی ، چیک ، ہسپانوی زبانوں کی تو کتابیں موجود ہی ہیں لیکن شاید آپ کو حیرانی ہوکہ بعض لائبریریوں کے بین الالقوامی زبانوں کے سیکشن میں اردوکی کتابیں بھی موجود ہیں -

چنانچہ جب مجھے پتہ چلا کہ شامبرگ لائبریری میں اردو کی کتابیں موجود ہیں تو پھر خود کو روکنا مشکل تھا - فوراً ہی اپنے لئے وہاں کی لائبریری کا کارڈ بنوایا - جس ڈیسک پر لائبریری کا کارڈ بننا تھا اسکی انچارج خاتون بھی خاصی خوش مزاج تھیں ، ساٹھ پینسٹھ کے پیٹھے میں ہونگی لیکن توانائی سے بھرپور میرا کارڈ بنا تو ساتھ میں بریفنگ بھی دی - ایک وقت میں جتنی چاہے کتابیں لے جاؤ (تقریباً 80) - لائبریری سے میں نے لوگوں کو تھیلے بھر بھرکرکتابیں لے جاتے دیکھا - الله جانے اتنی ساری کتابیں کیسے پڑھتے ہونگے - پرانی کتابیں تین ہفتوں کیلئے اور نئی کتابیں دو ہفتوں کیلئے دی جاتی ہیں - اگر دوبارہ جاری کروانا ہو تو لائبریری جانا ضروری نہیں - فون کرلیجئے یا ای میل بھیج دیں-

واپسی کی تاریخ بڑھا دی جائیگی اورمزے کی بات تو یہ ہے کہ گھر بیٹھے کمپیوٹر سے چیک کرلیں کہ آپ کی مطلوبہ کتاب موجود ہے یا نہیں - اگرنہیں تو پھرفرمائشی پروگرام شروع کر دیجئے - کتاب اورمصنف کا نام لکھ دیں کتاب آپ کیلئے کسی دوسری شاخ سے یا پھر خرید کر منگوادی جائیگی - پھرآپ کے نام ای میل یا فون آجائیگا کہ آپکی مطلوبہ کتاب آچکی ہے آئیے اور لے جائیے اور پانچ چھ دن سے زیادہ وقت نہیں لگتا - تو پھر میں اگر یہ کہتی ہوں کہ یہ ملک کتابوں کے شوقینوں کیلئے جنت ہے تو کیا غلط ہے -

میں جس علاقے میں رہتی ہوں وہاں کی آرلنگٹن ہائیٹس لائبریری کا شمار امریکہ کی دس بڑی لائبریریوں میں ہوتا ہے - پچھلے دنوں اس کی سالانہ رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اس کا بجٹ لاکھوں میں ہوتا ہے شامبرگ لائبریری کا شمار بھی دس بڑی لائبریریوں میں ہوتا ہے جس کا ذکرمیں نےاوپرکیا تھا -

لائبریری میں اپنی اپنی زبانوں سے متعلق پروگرام بھی ہوتے رہتے ہیں - مہینے میں ایک بار اردو کے شوقین بھی لائبریری میں جمع ہوتے ہیں اور مختلف موضوعات پر محفلیں منعقد ہوتی ہیں - پچھلے مہینے کا موضوع تھا -اردو نثر کے ارتقاء میں انگریزی زبان کے مصنفین کی خدمات - اتفاق یہ ہوا کہ مجھے اسکی اطلاع بعد از وقت ہوئی اس لئے شرکت نہ ہوسکی - اگلی بار کوشش ہوگی کہ اس قسم کی محفلوں میں ضرور شرکت کروں -

شکاگو اسٹیٹ لائبریری کا تو جواب ہی نہیں - شہر کے وسط میں واقع اسکی کئی منزلہ عالیشان عمارت ---- اور اندر داخل ہونے کے بعد اسکے خوبصورت کشادہ ہالوں کو دیکھ کراس قوم کی خوش قسمتی اوراپنی بد قسمتی کا احساس ہوتا ہے - شکاگو اسٹیٹ لائبریری میں بھی اردو کا شعبہ موجود ہے - اس لائبریری پر تو ایک علیحدہ مضمون لکھا جاسکتا ہے -

شکاگو امریکہ کا میٹروپولیٹن شہر ہے جہاں ہرنسل ، قوم اور رنگ سے وابستہ لوگ آباد ہیں - ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد یہاں رہتی ہے جو ہندی-اردو بولتے ہیں - ڈیوون کا نام تو آپ نے ضرورسنا ہوگا - اس کی سڑکوں پر ہندو ، مسلمان اور یہودیوں کی دکانیں ساتھ ساتھ موجود ہیں - اس سڑک کا نام گاندھی ، جناح اورگولڈامیئر کے نام سے موسوم ہے - یہ علاقہ ہندوستانی اور پاکستانی ریسٹورانوں کا مرکز ہے - صابری کی نہاری ، حیدرآبادی بریانی ، بندو خان کے تکے کباب ، پشاوری گوشت اورگرماگرم تندوری نان اور انواع و اقسام کی مٹھائیاں - سب کچھ یہاں ملتے ہیں - ناممکن ہے کہ کوئی شکاگو آئے اور ڈیوون کی 'زیارت' نہ کرے- کئی کئی گھنٹوں کی ڈرائیو کرکے لوگ دوسرے شہروں سے یہاں صرف کھانے کیلئے آتے ہیں -

یہاں اردو سے وابستہ لوگوں کے ثقافتی پروگرام بھی ہوتے رہتے ہیں - پچھلے دنوں مجھے ایک ناول کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقع ملا - ناول کا نام ہے " عجب نصیبی " اور مصنف ہیں جناب ثروت ضحیٰ صاحب - پتہ چلاکہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں - یہ تقریب ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی جہاں ڈیڑھ سو لوگ موجود ہونگے - کتاب پاکستان کے بارے میں ہے اور یہاں کی ساٹھ سالہ تاریخ پر محیط ہے -امریکہ کی مختلف ریاستوں کے علاوہ کینیڈا سے بھی لوگ آئے تھے اور جس دلچسپی اورنظم و ضبط کے ساتھ یہ تقریب منعقد ہوئی لائق تحسین ہے - ناول سیاسی تاریخ کے بارے میں ہواوراردو میں ہو تو ناممکن ہے کہ "مہاجروں" کا ذکر نہ آئے - مقررین میں ہر فکر کے لوگ موجود تھے - ذکر متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجروں کا بھی ہوا - شناخت کا مسئلہ بھی اٹھا تو میرے ذہن میں خیال آیا بھائی اب تو یہ پارٹی متحدہ قومی موومنٹ بن چکی ہے اور پاکستان کے سارے صوبوں سے اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو ایسے وقت میں "مہاجر" کا قضیہ کہاں سے آگیا - پارٹی مین اسٹریم میں آنا چاہتی ہے توآنے دو ، دروازے تو بند نہ کرو- ویسے بھی میرا خیال ہے ادبی محفلوں میں نری سیاست کے بارے میں بات کرنا کچھ مناسب نہیں -

بہرحال یہ پروگرام ساڑھے سات بجے سے شروع ہوا تو رات کو ڈیڑھ بجے اختتام کو پہنچا - ظاہر ہے کام و دہن کا بھی انتظام تھا اور بہت خوب تھا -

میں کراچی میں بھی ادبی کانفرنسوں اور ثقافتی پروگراموں میں شرکت کرتی رہی ہوں - کھانے کے وقت جو طوفان بدتمیزی مچتا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں اب تو سیاسی پارٹیوں کے جلسے میں بھی طعام بلکہ "قیام" کے بھی انتظامات ہوتے ہیں جسطرح لوگ "دیگوں" پر ٹوٹ پڑتے ہیں مختلف ٹیلی ویژن چینلز خاص طور پر دکھانے لگے ہیں جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کس قدر"بھوکی" قوم ہیں- لیکن تعلیم کے ساتھ ماحول اور اقدار بھی بدل جاتے ہیں - تو یہاں سامعین معزز لوگوں پر مشتمل تھے اور بڑے ہی نظم و ضبط کے ساتھ یہ مرحلہ بھی نمٹا -

افتتاحی پروگرام کے بعد ایک ہلکا پھلکا سا موسیقی کا پروگرام بھی ہوا جس میں مہدی حسن کے بیٹے کو سننے کا اتفاق ہوا اور بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ تقریب اختتام کو پہنچی - تقریب کے دوران کسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے اعلان کیا کہ وہ کتاب کی پچاس جلدیں خرید کر شہر کی مختلف لائبریریوں کو بطور تحفہ بھجوائیں گے - مجھے یہ بات پسند آئی - بہرحال جیسا کہ آپ بھی جانتے ہیں ملک سے باہر بھی لوگ اردو کی خدمت میں مصروف ہیں -

کتاب پر تبصرہ کسی اگلے کالم میں کرونگی - فی الحال اس جملے پر اپنا مضمون ختم کرونگی کہ اگر آپ نے یہاں کی لائبریریاں نہیں دیکھیں تو سمجھئے آپ نے کچھ بھی نہیں دیکھا -

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

اعجاز اعوان Feb 10, 2013 04:48pm
بہت ھی عمدہ مضمون ۔ اور حسب روایت دل کڑھتا بھی رھا کہ اردو کی جو خدمت ھم پاکستانیوں نے کرنا تھی وہ بھی امریکہ کے سپرد ھے ۔ ھمارا دفاع ، ھمارا خزانہ ، ھمارا بجٹ اور اب اردو ادب بھی امریکہ ھی محفوظ کرے تو کرے ،
Saleemalam Feb 11, 2013 04:14am
It was very interesting. I felt being there. Looking forward for more details Saleem

کارٹون

کارٹون : 28 اپریل 2025
کارٹون : 27 اپریل 2025