• KHI: Maghrib 6:58pm Isha 8:18pm
  • LHR: Maghrib 6:37pm Isha 8:04pm
  • ISB: Maghrib 6:45pm Isha 8:14pm
  • KHI: Maghrib 6:58pm Isha 8:18pm
  • LHR: Maghrib 6:37pm Isha 8:04pm
  • ISB: Maghrib 6:45pm Isha 8:14pm

شاعرِ مرحوم

شائع February 9, 2013

shair marhoom 670
السٹریشن -- جمیل خان --.

(شاعروں سے معذرت کے ساتھ. لیکن یہ معذرت جینوئن شاعروں کے لیے نہیں، کہ یہاں اُن کا ذکر خیر نہیں ہے)

ہم کراچی میں دیکھتے ہیں کہ جس کے پاس  کوئی کام نہ ہو تو وہ بی.کام  کرنے میں لگ جاتا ہے اور جس سے یہ کام بھی نہ ہوسکے تو وہ شاعری کرنے لگتا ہے، ہمارے دوست نون کا کہنا ہے کہ یہ ‘کرنا’ اُس ‘کرنے’ سے کافی حد تک مماثلت رکھتا ہے، جس سے کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔

کراچی میں شاعروں کی اس قدر بہتات ہے کہ راہ چلتے انجانے میں کسی پتھر سے ٹھوکر لگ جائے تو اُس پتھر کے نیچے سے اکثر ایک شاعر برآمد ہوجاتا ہے۔ کہیں اگر پائپ لائن ڈالنے کے لیے کھدائی ہو تو پھر اتنے شاعر نکلتے ہیں جیسے برسات میں پتنگے نکلتے ہیں۔

کبھی کبھی کراچی میں ٹماٹروں کی اتنی افراط ہوجاتی ہے تو ان کی قیمت دس روپے کلو تک گر جاتی ہے، لیکن شاعروں کی یہاں اس قدر اور بےاندازہ افراط ہے کہ اب وہ بے قیمت ہوچکے ہیں، البتہ ان کی شاعری کی قدروقیمت قائم ہے اور چار سے چھ روپے کلو میں فروخت ہو جاتی ہے۔

بہت سے یہاں ایسے بھی ہیں جو اپنی ساری زندگی تو ‘اِدھر اُدھر’ منہ مارتے رہے، لیکن جب عاقبت کا خوف لاحق ہوا تو شاعری پر منہ مارنے لگ گئے۔

کچھ شاعر ایسے ہیں جو دن رات شعروں کی جگالی کرتے ہیں، کچھ شاعر شعروں کو چیونگم کی طرح چباتے رہتے ہیں، کچھ شعروں کو چکن تکّہ سمجھ کر نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں اور کچھ شاعروں کا شعروں کے ساتھ برتاؤ بھنبھوڑ کر کھا جانے والی نوع کا سا محسوس ہوتا ہے۔

کچھ شاعر ایسے ہیں جن کے اشعارسے ان کی خود لذّتی کی کیفیت آشکار اور ٹھرکی پن عیاں محسوس ہوتا ہے، لیکن جب نہ ہاتھوں میں دَم باقی رہتا ہےاور نہ آنکھوں میں تو پھر ایسے شاعروں کو بھی وہی مرض لاحق ہوجاتا ہے جس میں آج کل ہمارے ملک کے بہت سے بے سُرے گلوکار مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔

کچھ شاعر اساتذہ کا سا انداز لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں شعروادب کی درس و تدریس کا گویا جنون سا لاحق رہتا ہے۔ لیکن ان کا دائرہ تدریس عموماً صنفِ نازک کے لیے وسیع اور صنفِ کرخت کے لیے تنگ ہی دیکھا گیا ہے۔

ایسے شاعر ایک وقت میں ایک ہی پر دستِ شفقت رکھتے ہیں، اگر نوآموز شاعرہ بِدک جائے یا خود اُن کا ہی جی اُوب جائے تو پھر کسی اور کو زانوئے تلمیذ تہہ کرنے کا موقع دیتے ہیں، بعض کو تو سب کچھ ہی اُتار کر تہہ کردینے کا موقع فراہم کردیتے ہیں۔

ہم نے اپنے دیرینہ دوست نون سے سوال کیا کہ ایسے اساتذہ ٹائپ کے شاعر مرد شاعروں کو زانوئے تلمیذ تہہ کرنے کا موقع کیوں نہیں دیتے، تو نون نے برجستہ جواب دیا کہ ‘اوّل تو شرع شریف میں جائز نہیں، مزید یہ  کہ شرع شریف میں اس معاملے کے مسائل بھی مذکور نہیں۔’

یہاں ہم ایک ایسے شاعر کا تذکرہ پیش کررہے ہیں، جن کی گوناگوں صلاحیتوں سے ہماری قوم اب محروم ہوچکی ہے اور وہ خود مرحوم ہوچکے ہیں۔

شاید یہ اُردو ادب کی دیرینہ روایت رہی ہے کہ کسی شاعر کی شخصیت پر اُس کے مرنے کے بعد ہی لکھا جاتا ہے، زندگی میں تو یہ اکثر ایک دوسرے پر چار حرف بھیجنے یا قافیے تنگ کرنے میں مصروف دیکھے گئے  ہیں۔

شاعرِ مرحوم کا اصل نام تو ہمیں نہیں معلوم ہوسکا، تخلص ‘احقراعظم’ کیا کرتے تھے۔ ہمارے دوست ‘نون’ کے بقول لاہور کی زبان میں اس کا ترجمہ ‘فٹے منہ’ ہوتا ہے۔

مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ وہ شعر و سخن کی گود میں پلے بڑھے ہیں۔ یہ بات جب ہم نے نون کو بتائی تو اس نے کہا ‘آخر انہوں نے ایسا کیا غلط کہہ دیا؟ وہ نا صرف شعر و سخن کی گود میں پلے بڑھے ہیں، بلکہ شعروسخن کو گدّا بنا کر اُس کے اوپر خوب دھما دھم کُودے بھی ہیں۔ یہاں تک کہ شعر و سخن کو ‘گھوڑا’ بنا کر اُس پرسواری بھی کی ہے۔’

اکثر لوگ مرحوم پر یہ الزام دھرا کرتے تھے کہ ابتداء ہی سے وہ اپنی غریبی سے تنگ آکر اپنے اشعار فروخت کرنے لگ گئے تھے۔ بعض لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ چند نامور لوگوں نے اپنے نام سے جو کلام شائع کروایا، وہ درحقیقت اِنہی شاعرِ مرحوم کا تھا۔

ہمارا دوست نون لوگوں کی اس بات سے بالکل متفق نہیں ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ:

شاعرِ مرحوم کی تو ذاتی کوئی چیز بھی نہ تھی۔

بیوی!

مرحوم بھائی کی بیوہ تھیں۔

بچے!

آٹھ دس تو جہیز میں ملے تھے۔

ایک صدی پُرانا مکان، وہ بھی اُن کا اپنا نہ تھا، سُسر مرنے کے بعد اپنی اکلوتی بیٹی کے نام کرگئے تھے۔

اسی طرح اُن کی شاعری بھی اُسی قدیم مکان کے تہہ خانے سے دریافت ہوئی تھی اور مرحوم نے اپنے تئیں؎

کہیں کی مٹی کہیں کا روڑا ۔۔۔۔۔۔ بھان متی نے کنبہ جوڑا

کے مصداق ان غزلوں نظموں کی کھچڑی ضرور پکا دی تھی۔ یعنی ایک جیسی زمین کی کئی غزلوں کے اشعار ایک دوسرے میں یوں گڈ مڈ کردیے کہ کسی نے یہ اشعار پہلے سے پڑھ رکھے ہوں تو وہ بھی پہچان نہ سکے۔ یہ خیال کیے بغیر کہ ایک شعر تو نصیر سومرو کے قد و کاٹھ کا ہے تو دوسرا پیدائشی بچے کی مانند دو بالشت کا۔

آخر وقت تک تو اشعار کی فروخت کا سلسلہ اس قدر دراز ہوگیا تھا کہ بعض جینوئن شاعر بھی اُن سے ملنا تو درکنار کسی محفل میں اُن کا نام لینے سے بھی کترانے لگے تھے کہ مبادا اُن کا کلام بھی مشکوک نہ سمجھا جانے لگے۔

خود کو ‘ترقی پسند’ خیال کرتے تھے!

نون نے بتایا کہ اس ‘ترقی پسندی’ کی اساس ‘فکر’ کے بجائے مال و عیال پر مبنی تھی، اس سے زیادہ ترقی پسندی کاہلی و سستی میں ہوئی۔ وہ کہتے تھے اﷲ کا دیا سب کچھ تو ہے پھر فکر کاہے کی!

بعد میں عیال کی ترقی مال پر غالب آتی چلی گئی۔ بہر حال انہوں نے  ترقی پسندی سے منہ ہر گز نہ موڑا۔

شاعرِ مرحوم کا کہنا تھا کہ وہ ‘عوامی شاعر’ ہیں!

دراصل اُن کا نظریہ، یہ تھا کہ ایسی شاعری جو عوام کے سر سے گزر جائے وہی ‘عوامی شاعری’ کہلائے جانے کی حقدار ہوتی ہے۔

بہت سے اشعار اُن کے زبان زدِ عام بھی ہوئے۔ دروغ برگردنِ راوی۔ یعنی راوی کے کنارے پیدا ہونے والے ہمارے دوست نون کے بقول وہ اشعار دراصل غالبؔ، میرؔ اور اسی قبیل کے بیشتر شاعروں کے تھے، لیکن شاعر مرحوم نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اُن اشعار کو خود سے منسوب کیا کرتے۔

وہ اکثر اشعار کی شانِ نزول بھی بیان کرتے تھے اور سیاق و سباق کے ساتھ تشریح بھی کردیا کرتے۔

نون کہتا ہے کہ حقیقی شاعر نے یہ شعر جس کیفیت میں بھی کہا ہو، لیکن شاعرِ مرحوم نے؎

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا ۔۔۔۔۔۔ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا!

کو ‘لوٹے’ کے لیے نشر مکرر کہا تھا۔ ‘لوٹے’ کے ساتھ شاید اُن کا خاصا پُرانا رشتہ تھا، یہی وجہ رہی ہوگی کہ جب وہ کونسلر کی سیٹ کے لیے الیکشن میں کھڑے ہوئے تو اُن کے بعض مخالفین نے اُن کے گھر کے سامنے بیسیوں لوٹے تاروں سے لٹکا دیے۔

شاعرِ مرحوم نے بُرا مانے بغیر وہ لوٹے محلے کی مسجد کو ہدیہ کردیے تاکہ ثوابِ دارین حاصل ہو۔

نون کے بقول اُن کی سیاسی حکمتِ عملی بھی بے پیندے کے لوٹے کی مانند ہی رہی۔

مرحوم ابتداء میں خاصے فارغ البال تھے، لیکن اُن کی زندگی میں ایک موڑ ایسا آیا جب وہ بالکل ہی فارغ البال (گنجے) ہوگئے۔ یہ صورت ایک وعظ میں شرکت کے بعد سامنے آئی۔

واعظ نے ایک روایت بیان کی تھی، جس کے مطابق ایک مسلمان جب غسلِِ خاص کرتا ہے تو اُس کے بدن سے گرنے والے پانی کے ہر قطرے سے ایک فرشتہ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ تاقیامت اُس کے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہتا ہے۔

اس روایت کا سننا تھا کہ فرشتوں کی وہ افزائش شروع ہوئی کہ اُن کی بیوی نے پناہ مانگ لی۔

لہٰذا دوسری شادی کی گئی، پھر تیسری، پھر چوتھی۔ فرشتوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی آبادی میں اضافہ کرنے کا دل میں تو حوصلہ موجود تھا، جسم میں نہیں!

اس سے پہلے کہ وہ پہلی کو رُخصت کرکے پانچویں لا کر چار کا کورم پورا کرتے، حسرتِ ناتمام لیے دنیا سے ہی رخصت ہوگئے۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Feb 09, 2013 06:44pm
بہت خوب، یہ تو ایک مزاحیہ مضمون ہے اچھا ہے. لیکن حقیقت ہمارے پاکستانی معاشرے کی اب کچھ مختلف ہے. شاعروں کی بہتات کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے ایسا پچاس اور ساٹھ کی دھائیوں تک تو تھا، اب ایسا ہے نہیں. اب ایسا ہونا ہے بھی مشکل، الا اسکولوں میں شعر و شاعری سے رغبت بیدا کی جاوے؛ یا کم از کم اردئ ہی ڈھنگ کی پڑھادی جاوے. اب تو سبزی والا بھی بینگن کو ایگ پلانٹ کہتا ہے. بچے انگریزی میں کچھ اردو کے الفاظ ملا کر بولتے اور اتراتے ہیں. اگر شعر و شاعری کی ریت پڑ جائے تو ہمیں "اسپیلنگ بی" کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے. شاعری املا اور تلفظ سیکھنے اور سکھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے. اب بہت کم لوگوں کو غالب و اقبال، فیض و منیر نیازی یاد ہیں. ہماری دعائیں اس قوم کے ساتھ ہیں.
Anwar Amjad Feb 09, 2013 07:02pm
بہت خوبصورت اور دلچسپ تحریر ہے۔
With Appology to all Poets! | The Muslim Times Feb 09, 2013 08:17pm
[...] To read more clikc HERE [...]

کارٹون

کارٹون : 23 اپریل 2025
کارٹون : 22 اپریل 2025