کٹی پتنگ
لاہوریوں کو پتنگ اڑانے کا جنون ہے ۔۔ اور ایک ایسا جنون جو دہائیوں تک مذہبی حلقوں کی جانب سے سخت مخالفت کے باوجود بھی جاری رہا لیکن اب ' کاروباری اجارہ داری اور مالی سرپرستی ' کی وجہ سے یہ کھیل مزید نہیں چل سکے گا۔
پتنگ بازی سے والی اموات کے بعد موسمِ بہار کی آمد پر بسنت منانے اور پتنگ بازی پر پابندی کو چھ سال سے زائد کا عرصہ ہونے والا ہے۔ اب بھی لوگ شہری انتظامیہ کی جانب امید کی ڈور سے بندھے اس معمولی اشارے کے منتظر رہتے ہیں کہ شاید اس سال اس تہوار کا دبارہ اغاز ہوسکے گا جو کبھی ان کی زندگی کا تجربہ ہوا کرتا تھا۔
'چونکہ حکومت اپنے شہریوں کو خوشی منانے کے حق کا تحفظ دینے میں ناکام ہوچکی تھی تو اسی کے راستے کٹر مذہبی حلقوں نے بسنت تہوار کو غیر اسلامی اور دیگر مذاہب کی رسم قراردے کراس پر پابندی کا فیصلہ عائد کیا۔' مزنگ کے ایک تاجر، احسان الحق نے کہا۔
انسانی زندگی کو لاحق خطرات کم کرنے کیلئے پتنگ بازی سے وابستہ کاروبار کیلئے قانون بنانے اور اسے نافذ کرنے کی بجائے پولیس اور بیوروکریسی نے سیاستدانوں کو اس بات پر قائل کرلیا کہ وہ اس کھیل پر پابندی ہی عائد کردیں۔
ہمارے حکمرانوں کی جانب سے زبردستی لاگو کئے جانے کی اس قسم کی سوچ سے کبھی تو موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی جاتی ہے اور کبھی دہشتگردی کے نام پر موبائل فون بند کردئیے جاتے ہیں ۔ پیچیدہ مسائل کے سطحی حل سے ہمارے وہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔' انہوں نے کہا۔
خوشی میں ہوائی فائرنگ، چھتوں سے گرنے، سڑک کے حادثات اور کرنٹ لگنے جیسے واقعات سے اموات کو ہمیشہ ہی اس بسنت کے قابلِ قبول پہلوؤں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن سن دو ہزار میں بچوں اور موٹر سائیکل سواروں کے شیشے یا کمیکل پر مبنی تیزدھار ڈوروں سے کٹی ہوئی گردن اور گولی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تصاویر ٹی وی پر دکھانے سے عوام میں اس ' خونی' کھیل کے مخالف جذبات نے جنم لیا۔
اگرچہ صرف تین ماہ کیلئے تھی لیکن پتنگ بازی پر پہلی پابندی اس وقت عائد کی گئی جب لاہور کے سابق ناظم میاں عامر محمود نے یہ قدم اُٹھایا تھا۔ واضح رہے کہ میاں عامر جماعتِ اسلامی کے سابق کارکن رہ چکے ہیں اور ان کے جنرلوں سے قریبی روابط ہیں۔
پھر یوں ہوا کہ اس کھیل میں ملٹی نیشنل کمپنیاں، بڑے بینک، جنرلز، بیوروکریٹس، میڈیا گروپس، فلم اور اسپورٹس اسٹارز اور یہاں تک کہ بسنت کے انتظامات کرنے والے ادارے شامل ہوگئے اور یوں مخالفین کا سر جھکانے اور ان کی پتنگ کاٹنے کیلئے ممنوعہ مٹیریلز، قاتل ڈوروں اور دیگر اشیا کا بے تحاشہ استعمال شروع ہوگیا۔
ہلاکتوں میں اضافے کے بعد سپریم کورٹ نے بسنت بنانے اور پتنگ اڑانے پر اس وقت تک پابندی عائد کردی جب تک اس کھیل اور اس سے وابستہ کاروبار کیلئے ضابطہ اخلاق نہ بنایا جائے۔ حکومت نے قوانین بنانے کیلئے بہت کام کیا، دھاتی تاروں اور کیمیائی ڈوروں پر پابندی کے علاوہ خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سزائیں اور جُرمانے عائد کئے گئے اور دوہزار چھ میں جشنِ بہاراں کیلئے عدلیہ نے پندرہ دن کے لئے پابندی میں نرمی کردی ۔
لیکن نرمی کا یہ عرصہ اور بھی کم کردیا گیا کیونکہ اموات ہوئیں اور ادارے ذمے داروں کو پکڑنے میں ناکام رہے۔ پھر ہرقسم کی پتنگ اور ہر قسم کے مٹیریلز پر غیر معینہ مدت کیلئے پابندی عائد کردی گئی۔
تب سے اب تک کئی حلقوں نے ہر سال کورٹ سے رجوع کیا تاکہ کم ازکم پندرہ روز تک کیلئے پتنگ بازی پر سے پابندی ختم کردی جائے جوکہ پنجاب کائٹ فلائنگ آرڈیننس میں شامل ہے تاکہ اس کاروبار سے وابستہ ہزاروں خاندانوں کو فاقہ کشی سے بچایا جاسکے۔
' یہ حیرت انگیز بات ہے کہ (پابندی اُٹھانے کی ) درخواست کرنے والوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ بسنت کی اہمیت کیا ہے اور یہ تہوار کئی صدیوں سے شہر کی ثقافتی زندگی کا ایک حصہ رہا ہے۔،' ایک معاشی ماہر، مبشر بشیر نے کہا۔ ' اگرچہ ان کی اہمیت ہے لیکن مجھے ( اس کام سے وابستہ) روزگار کی ذیادہ پرواہ نہیں بلکہ اس روایت کی دوبارہ شروع ہونے کی فکر ہے جو مذہبی ، معاشی، اور معاشرتی فرق کو بھی ختم کرتی ہے ۔ '
احسان نے کہا کہ بسنت جسطرح لاہور میں منائی جاتی ہے وہ ایک انوکھا عمل ہے ۔ ' فروری میں نیلے آسمان تلے ٹھنڈی ہوا چلتی ہے اور سردی رخصت ہورہی ہوتی ہے اور شہر کی تعمیرات اس کھیل کیلئے نہایت عمدہ موقع فراہم کرتی ہیں۔
یہ اس شہر کا کلچر ہی جس کے ذریعے اس کے شہریوں نے بسنت کیخلاف مذہبی شدت پسندوں کے احکامات کو شکست دی ہے۔ تو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ دنیا بھر سے پتنگ اُڑانے والے افراد کے لئے پورے برصغیر میں کوئی شہر لاہور جیسا نہیں۔ یہاں تک کہ خود ہندوستان میں بسنت تہواروں کی وجہ سے مشہور شہروں مثلاً جے پور بھی دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ '
اب جبکہ فروری کا مہینہ آگیا ہے اور لاہوری پھر سے یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا اس بسنت کو ان کا آسمان پتنگوں سے دوبارہ بھرسکے گا اور چھتوں سے بوکاٹا کی گونج سنائی دے گی؟ اور سب سے بڑھکر کے کیا ان کے بچے وہ تجربہ حاصل کرسکیں گے جو خود انہوں نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا؟
ان سوالات کے جوابات اتنے آسان نہیں کیونکہ کوئی بھی صرف تفریح کی خاطر مزید معصوم زندگی کا زیاں نہیں چاہتا۔ اب بھی بیتے دن لوٹ کر آسکتے ہیں بشرطیکہ کہ انتظامیہ، پولیس اور عوام اس کے ضابطے بنانے پر آمادہ ہوجائیں کیونکہ دوسری صورت میں کسی استرے جیسی تیز ڈور سے ہمارے کسی دوست اور عزیز کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
لکھاری: ناصر جمال
تبصرے (2) بند ہیں