مدظلّہ العالی
اصل نام تو اُن کا اوّل و آخر القابات کے لاحقوں میں کہیں گم ہو چکا ہے، اسی لیے اس طویل قطار کے آخری سرے پر موجود یہ چند الفاظ ہی ہمیں یاد رہ گئے اور یہی وجہ ہے کہ ہم موصوف کو صرف مدظلّہ ٗالعالی ہی کہا کرتے تھے۔ بہت سے لوگ (جن میں بڑی تعداد ان پڑھ افراد کی تھی، اور اُن سے کہیں زیادہ پڑے لکھے جاہل بھی پائے جاتے تھے) اِنہیں بحر طریقت کے مشاق شناور کہتے۔
ان کے چہرے سے مترشّح ہونے والے غبی پن اور ٹپکتی ہوئی وحشت کو استغراق کی کوئی قسم خیال کرتے۔
نیم باز آنکھیں اور ان میں پائی جانے والی سرخی و مستی عبادت وریاضت کی مرہون منت سمجھی جاتی، جبکہ ہمارے دوست نون کا کہنا ہے
میر اُن کی نیم باز آنکھوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساری مستی چرس کی سی ہے
مدظلّہ ٗ العالی کی عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا کہ ساری رات اللہ ہُو کاذکر جہر کرتے، لیکن پڑوسیوں کو صرف “ہُوں ہُوں ہُوں” کی زوردار آوازیں تکرار کے ساتھ سنائی دیتیں۔ ہمارے دوست نون کا خیال تھا کہ یہ اسّی، اسّی منٹ کی تین آڈیو کیسٹس ہیں، جنہیں مدظلّہ ٗالعالی کا خادمِ خاص ٹیپ ریکارڈر پر آن کرکے خود سو جاتا ہے اور سارا محلہ بے چینی کے ساتھ کروٹیں بدل بدل کر رات بھر فیضیاب ہوتارہتا ہے۔ خود مدظلہٗ العالی بھی رات کا ایک حصہ کروٹیں بدل بدل کر گزارتے تھے، لیکن بے چینی کے ساتھ نہیں، کسی اور کے ساتھ، یہ ’’کسی اور‘‘ کون تھی، اس کا نام اب تک صیغۂ راز میں ہے۔ بعض تو دشنام طرازی میں تھی کی جگہ تھا بھی کہہ جاتے ہیں۔
نون کی بات پر یقین تو تھا، ایک روز مشاہدہ بھی ہوگیا۔ یاد رہے کہ ان دنوں سی ڈی پلیئر کا نزول نہیں ہوا تھا اور آڈیو کی دنیا پر ٹیپ ریکارڈ کی حکمرانی قائم تھی۔ ہوا یوں کہ بجلی فیل ہوجانے کی وجہ سے مدظلّہ ٗالعالی کے گھر بیٹری سیل کے ذریعے رات گئے ٹیپ ریکارڈ چلایا گیا تو شاید بیٹری سیل بھی جواب دے گئے اور آواز کی سطح یکساں نہ رہی اور پھر چُر رمرر کی آواز کے ساتھ بالآخر کیسٹ پھنس گئی۔
موجودہ نسل کے نوعمروں کو کیسٹ پھنس جانے کا ادراک کرنا مشکل ہے، اس لیے کہ وہ اس کو کسی اور رُخ پر بھی لے جاسکتے ہیں۔
بہر کیف کیسٹ پھنس جانے کے بعد صرف اتنی آواز ہمیں سنائی دے سکی “ابے بند کر....!”
پھر خاموشی چھا گئی۔
حضرت مریدوں کے تزکیہ نفس پر بطور خاص زور دیتے تھے، چنانچہ اُن کی پسندیدہ اشیاء پر حسبِ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے اپنا تصرف قائم کرلیتے، مثلاً اگر کوئی دیہاتی مرید ہوتا تو اُس کی بھینس وغیرہ پر اور شہر کے پوش علاقے کے مکین کی پجارو وغیرہ پر....اس کے علاوہ خوبصورت قلم، کپڑے، آرئشی اشیاء غرض جس چیز پر مرید کا قلب اُن کی باطنی نگاہ کو متوجہ دکھائی دے جاتا، اُس سے بلا جھجک مانگ لیا کرتے۔
یہ مدظلّہ ٗالعالی کا ہی مقولہ تھا کہ جتنی چادر ہو اتنا پیر پھیلایا جائے، لہٰذا اس کی عملی تفسیر یوں پیش کیا کرتے تھے کہ جس کی جتنی چادر دیکھتے تھے، اس میں اتنا ہی اپنا پیر پھیلا دیتے۔
مریدوں کو اپنی دست بوسی سے سختی کے ساتھ منع کیا کرتے تھے، لیکن خواتین سے اصرار کرتے۔ مردوں پر اس پابندی کی حوالے سے نون کا کہنا تھا کہ ان کے مریدین میں سے اکثر کی خاص استغراق کی بناء پر منہ سے رال بہتی رہتی تھی، جس سے مدظلّہ ٗالعالی کے دستِ مبارک کے مزید آلودہ ہونے کا احتمال ہوسکتا تھا۔
کھانے پینے کے بہت شوقین تھے اور دن کا بیشتر حصہ اِسی کام پر صرف کیا کرتے۔ اکثریہ تلقین کرتے کہ جو اچھی طرح پلیٹ صاف کرے گا وہ جنت میں جھاڑو دے گا۔
ہمیں جب ان کی اس تلقین کا علم ہوا تو ہم نے نون سے پوچھا تھا کہ جنت میں بھی کوڑا کرکٹ ہوگا ....؟
اُس نے جواب دیا تھا.... اُن کی والی میں ہوگا۔
مدظلّہ ٗالعالی کے مریدانِ باصفا میں سے ایک حضرت الحاج شیخ مختار القریشی قدس سرہٗ بھی ہوا کرتے تھے۔ جن کا برسوں سے پیشہ ٔ آباء لحم فروشی تھا، یہ تو بعض بد ذوق تھے جو رقابت میں انہیں قصائی کہتے تھے۔
گوشت کی جگہ چربی بیچنا اور چرب زبانی کرنا اُن کا دیرینہ مشغلہ تھا۔
مختار القریشی اکثر مدظلہٗ العالی کے فضائل و درجات بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے کہ “حضرت مدظلّہٗ العالی کاجو درجہ و مقام ہے اُس درجے تک تو بڑے بڑے بزرگوں کی رسائی نہیں....”
چونکہ عموماً یہ کہتے ہوئے اُن کے ہاتھ میں بُغدہ یا چھری ہوا کرتی تھی، چنانچہ تمام لوگ ہی ان کے اس فرمان پر سر تسلیم خم کر لیا کرتے۔
سر تسلیم تو ہم نے بھی خم کیا تھا، لیکن اتنا کہے بغیر نہ رہ سکے کہ “حضور!اسفل السافلین میں بڑے بڑے بزرگوں کا کیا کام....؟”
شکر ہے مختار القریشی کو اسفل السافلین کے معنی معلوم نہیں تھے، ورنہ تو شاید وہ بھی ہمیں اپنے حضرت پر اُسی طرح قربان کرچکے ہوتے جس طرح ایک صحت مند مرغی قربان ہوگئی تھی۔
مرغی کی قربانی کا قصہ بھی عوام النّاس کے لیے عبرت انگیز اور سبق آموز ہے۔ ہوا یوں تھا کہ جب مدظلّہٗ العالی اپنے پیر صاحب کے عرس مبارک کے موقع پر رسم “جھولا جھلائی”ادا کرتے ہوئے عوام و خواص کو اپنی زیارت سے مشرف فرمارہے تھے کہ جھولے کی چوبی زنجیر ٹوٹ گئی اور مد ظلّہٗ العالی سیدھے زمین پر آرہے۔
کرشمۂ قدرت دیکھیے کہ عین اُسی وقت جھولے کے نیچے ایک مرغی نجانے کہاں سے آگئی....یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مرغی کا کیا بنا ....مریدوں نے اس کو بھی حضرت کی کرامت پر موسوم کیا اور لگے سبحان اللہ!سبحان اللہ!کرنے....مدظلّہٗ العالی لکڑی کے کھٹولے نما جھولے میں نون غنّہ بنے پھنسے ہوئے تھے اور جثّہ شریف کے وزن اور حجم کی زیادتی کی بناءپر خود اُٹھنے سے قاصر تھے ناچار صدا لگائی “گدھو! مجھے اس میں سے نکالوتو....”
اور گدھوں کے، ہمارا مطلب ہے مریدانِ خاص کے اُٹھاتے اُٹھاتے مدظلّہٗ العالی کی ٹانگوں میں اس بُری طرح بَل پڑ گئے تھے کہ ایک ہفتے کی مالش کے بعد کہیں جاکر نکل سکے۔
واضح رہے کہ اس موقع پر قربان ہونے والی مرغی کو بطور تبرک ان کا ایک مرید گلریز خان اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اب یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ گلریز خان مرغی کا سوپ فروخت کرتا ہے۔ اس مرغی کی وجہ سے اُس کے کاروبار میں بہت ترقی ہوئی۔ نون کہتا ہے کہ اس مقدس مرغی میں مدظلّہٗ العالی کی کرامت سے اتنی برکت عطا ہوئی کہ دس سال بعد آج بھی وہ اُسی مرغی کا ہی سوپ بیچ رہا ہے۔
مدظلّہٗ العالی نے اولاد نرینہ سے محرومی کی بناءپر اپنے ڈیڑھ درجن کے قریب دامادوں میں سے اپنے بڑے داماد کو چُنا اور اپنا ولی عہد مقرر فرمایا، پھر جلد ہی دستار بندی بھی کر ڈالی۔
لیکن ولی عہد نے مدظلّہٗ العالی کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ماضی میں مسلمان بادشاہوں کے ولی عہد اُن کے ساتھ کرتے آئے تھے۔
دراصل ہمارے مسلمان بادشاہوں میں خدمت خلق کا جذبہ ٹھونس ٹھونس کر بھرا ہوتا تھا، چنانچہ زیادہ عرصہ تک ولی عہد کی گدّی پر بیٹھے رہنا اُنہیں کیوں کر قبول ہوتا....لہٰذا وہ اپنے بھی باپ کو، یعنی بادشاہ حضور کو عالم بالا کے سفر پر زبردستی روانہ کرکے خود تخت شاہی سنبھال لیا کرتے تھے تاکہ قوم کی اچھی طرح “خدمت”کرسکیں۔
یقیناً ایسے “نیک سیرت ”بادشاہوں کی مثالیں بھی مدظلّہٗ العالی کے ولی عہد کے پیش نظر رہی ہوں گی، چنانچہ اُس نے مرید خاص اور ایک زہریلے جانور کے تعاون سے مدظلہٗ العالی کو سفرِ آخرت پر جلد ہی روانہ کردیا۔
یوں حواس ظاہری کو معطل کرکے دنیا ومافیہا سے بے نیاز کردینے والی اشیاء، جنہیں مدظلّہٗ العالی کے خیال میں دشمنوں نے منشیات کا نام دے رکھا ہے، کی فروخت سے حاصل ہونے والی خطیر آمدنی کا ذریعہ بطور ورثہ منتقل ہوا۔
جس وقت مدظلّہٗ العالی مصلّے پر کھڑے تھے، تو مریدِ خاص الخاص نے ایک زہریلا بچھو مصلّے پر پیچھے سے چھوڑدیا۔
بچھو نے اُن کا پیر پکڑا اور اسفل سے اعلیٰ کی طرف صعود کیا۔ مدظلّہٗ العالی ابھی یہ غور فرمارہے تھے کہ یہ رینگنے والی چیز ہے ....؟ چلنےوالی چیز ہے ....؟ یا کاٹنے والی ....؟ اور کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین بیچ اس مسئلے کے ....؟
بچھو نے اپنا کام کردیا۔
مدظلّہٗ العالی بلند بانگ چیخ کے ساتھ پٹ سے گرے اور سیکنڈوں میں چَٹ پٹ ہوگئے۔
مریدان باصفا اس واقعہ کو تجلی کا نزول قرار دیتے ہیں۔
اب تو مدظلّہٗ العالی کو رحمتہ اللہ علیہ ہوئے ایک زمانہ گزر گیا ہے، لیکن ہماری زبان پر یہ لفظ ایسا چڑھا ہے کہ آج بھی ہم انہیں مدظلّہٗ العالی کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں۔