پنجاب میں سیاسی واویلا

ہم میں سے ان لوگوں کو جن کی یادداشت کمزور ہے یاد بھی نہیں ہوگا کہ پنجاب کسی زمانے میں ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ نہیں تھا-
پاکستان کے قیام کے بعد کی پہلی ربع صدی میں پنجاب محض ایک ایسے تخت کا جھوٹا دعوےدار تھا جس پر، کم از کم اصولاً، مشرقی بازو میں بنگالی بولنے والوں کی اکثریت تھی- چنانچہ اگر کوئی آبادی کی اکثریت اور اقلیت کا ذکر بھی چھیڑ دیتا تو ایسے شریف النفس شہری کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی-
اب اس بات کو چار دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے کہ پاکستان کی اسوقت کی بنگالی اکثریت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا راستہ خود منتخب کرینگے- اسوقت سے لیکر ابتک وہ دانشور اور سیاستدان جو حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتے ہیں پاکستان کی آبادی کے غیر متغیر حقائق کے تعلق سے بیزارکن حد تک ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں-
یقینا 1971 سے بہت پہلے بر صغیر ہندوستان میں پنجاب کو اہم ترین حیثیت حاصل تھی- نوآبادیاتی ریاست کے کسی بھی دیگرانتظامی علاقے کے مقابلے میں پنجاب حقیقی معنوں میں ایک جدید علاقہ تھا جسکی سابقہ حالت بنیادی طورپرمختلف تھی-
پختونوں اور پنجابیوں کی ایک بڑی اکثریت کو شائد اس بات کا علم بھی نہ ہو کہ آج کا خیبر پختونخوا 1901 تک پنجاب کا حصہ تھا- رجائیت پسند نوآبادیاتی منتظمین کی اکثریت کی نظر میں پنجاب ایک موثر حکومت کا مثالی نمونہ تھا جہاں ملکیت کے قوانین نافذ العمل تھے اور لوگ آزادی کے ساتھ مل جل کرزندگی گزارتے تھے- مقامی آبادی کومذہبی اور نسلی-لسانی بنیادوں پر اکٹھا کیا جاسکتا تھا اور نوآبادیاتی حکومت کے قوانین پر خوشی خوشی عمل ہوتا تھا-
لیکن جب آبادی کا ایک غیر معمولی تبادلہ وقوع پذیرہوا تو پنجاب برصغیر کا وہ علاقہ بن گیا جہاں سب سے زیادہ خونریزی ہوئی- جس کے نتیجے میں اس کے سیکولر آئین کی جا ن بوجھ کر دھجیاں اڑائی گئیں-
اس وقت سے (پنجابی-اکثریت) پاکستانی اسٹیبلشمنٹ تقسیم کی ہولناک یادوں سے کھیلتی آئی ہے تاکہ اس مخصوص اسٹیٹ-سوسائٹی کے نظریہ کو گہرا کیا جائے جواتفاق رائےسے پنجاب میں نوآبادیاتی دور حکومت میں پیدا کیا گیا تھا- پنجابی معاشرے کے اندر اہم حصّے طویل عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کی جمہور دشمن سازشوں سے منسلک رہے ہیں-
تاہم، اس بات کے برعکس کہ نفرت کے بیوپاری چاہتے ہیں کہ ہم یقین کر لیں، پنجاب کو بمشکل ہی یک نسلی علاقہ کہا جا سکتا ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ میں بعض اہم ترین اسٹیبلشمنٹ-مخالف تحریکوں کا مرکز رہا ہے- مثال کے طور پر، 1960 کے اواخر میں رونما ہونے والی تاریخی تحریکوں میں پنجاب میں محنت کش طبقہ کا رول کسی سے کم نہیں تھا-
ان سارے حقائق کے باوجود موجودہ پاکستان میں پنجاب بڑی حدتک درندوں کی مرغوب غذا رہا ہے-
جب بھی اسٹیبلشمنٹ (پنجابی-تسلط) ہم پراتنی مہربان ہوجاتی ہے کہ انتخابی مقابلوں میں ہمیں اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق دے، تووہ اپنا زیادہ تر وقت اور وسائل پنجاب میں دھاندلی کے ذریعہ نتائج حاصل کرنے پرصرف کر دیتی ہے- اس بار بھی ایسا ہی ہوگا-
ان سب کے نتیجے میں ایک بارپھرمردم شماری کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کون اکثریت میں ہے- سیدھےسادے حقائق یہی بتاتے ہیں کہ اس ملک میں انتخابی مقابلے --قومی اسمبلی میں نمائندگی کے حوالے سے-- پنجاب کے نتائج پر مبنی ہوتے ہیں-
اسوقت صورت حال یہ ہے کہ تمام کھلاڑی جو پنجاب کی سیاسی ہانڈی میں اپنا حصہ لینے پر تلے ہوئے ہیں غضبناک حد تک آگے جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور اپنے رقیبوں پر سبقت لیجانے کیلئے تمام ضروری وسائل استعمال کرنے کے درپے ہیں- امیدواروں کا زور اس بات پر ہے کہ ووٹروں کے اس مطالبے کو پورا کرنے کیلئے کہ انھیں خدمات فراہم کی جائیں (اہم شہری مراکز کے درمیان سڑکوں کی تعمیر) وہ تمام حاصل وسائل کو استعمال کرنا چاہتے ہیں-
جو لوگ اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں وہ اس قا بل نہیں کہ کچھ کر سکیں سوائے اس کے کہ احتجاج کریں کہ اس سرپرستی کے دروازے ہر کس و ناکس کیلئے نہیں کھلے ہیں اور یہ امید رکھیں کہ اسٹیبلشمنٹ بالآخر انکی پشت پناہی کریگی-
حقیقت تو یہ ہے کہ ٹی وی دیکھنے والے عوام کو بد عنوانیوں کو روکنے اور قوم کو بچانے سے متعلق خانوں اور دنیا بھر کے قادریوں کی تقریریں سنوائی جاتی ہیں- دریں اثناء، پنجاب میں اگلے سیاسی نظام کے بارے میں مذاکرات ملک بھرمیں بکھرے ہوئے بیشمار تاریک، دھندلے کمروں میں ہو رہے ہیں-
دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے ساتھ دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں جو اتنی ڈھکی چھپی بھی نہیں- اور یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ آبادی کے اکثریتی حصے کو نمائندگی کا حق ملے-
لیکن مضطرب کردینے والے مسئلوں میں سے کٹھن ترین مسئلہ کیا ہے؟
کیا پنجاب کو اس کی موجودہ شکل میں برقرار رکھا بھی جائے؟
آبادی کی اکثریت کا مقبول عام نظریہ حقیقت ہے یا واہمہ؟
ناقدین کا دعویٰ ہے کہ پی پی پی نے بدنیتی سے کام لیتے ہوئے "سرائیکی کارڈ" کھیلا ہے تاکہ اقتدار کے کھیل میں اس سے طاقت حاصل کی جا سکے، جیسا کہ اس نے ماضی میں "سندھ کارڈ" کے استعمال سے کیا تھا-
ہو سکتا ہے یہ بات صحیح ہو لیکن جو لوگ اس ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کے خواہشمند ہیں انھیں چاہئے کہ اس مسئلہ پر خود اپنا سیاسی موقف تشکیل دیں جو اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہونا چاہئے خواہ پی پی پی اس سے اتفاق کرے یا نہیں-
جیساکہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں وہ انتظامی اکائی جسے پنجاب کہا جاتا ہے تاریخی لحاظ سے نسبتاً حال قریب کی پیداوار ہے- نوآبادیاتی دور کے اواخر میں یہ برطانوی اقتدار کا ایک اہم خطہ تھا (راج نے جو انتخابی حکومت کا سلسلہ شروع کیا تھا وہ بڑی حد تک ریاست-دوست سماجی قوتوں کی نمائندگی کرتا تھا نہ کہ بجائے خود جمہوریت کی)- نوآبادیاتی نظام حکومت کے خاتمے کے بعد کی ریاست نے بھی 1971 سے پہلے اور اس کے بعد بھی پنجاب کو اپنا قلعہ سمجھا-
یقینآ بہت سے ترقی پسند اس بات پر اتفاق کرینگے کہ موجودہ پنجاب کو توڑنے کا مطلب ہے ملک کے اندر وسیع پیمانے پر قوتوں کے توازن میں اہم تبدیلی- بلاشبہ قلیل مدت میں اس قسم کی تشکیل نو نہ تو بےلاگ ہو سکتی ہے اور نہ ہی غیر مبہم طور پر اچھے نتائج پیدا کر سکتی ہے اور اسکی وجہ ہے گزشتہ چند دہائیوں میں سیاسی ڈھانچے میں سرائیت کر جانے والے علاقائی رجحانات -
لیکن ایک ایسے مرکزیت کے حامل ڈھانچے کو قائم رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا جس میں خرابی پیدا ہوچکی ہے اور جو عدم مساوات کا شکار ہے محض اس جواز کی بنا پر کہ کوئی متبادل دکھائی نہیں دیتا اور جو ممکنہ طور پر غیر منظم ہے- بلکہ دراصل یہی وہ دلیل ہے جسے ہمارے جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظوں نے ہمیشہ پیش کیا ہے-
اب وقت آگیا ہے کہ ہم سنجیدگی سے اس قسم کے امکانات پر غور کریں کیونکہ اب بالاخر ہمیں یہ موقع حاصل ہو گیا ہے- سرائیکی صوبہ کی بحث کو زمینداروں کی سازش قرار دیکر مسترد کر دینا درست نہیں- اس مسئلہ کا تعلق زمینداروں سے ہو یا نہ ہو ترقی پسند عناصر کو چاہئے کہ وہ اس بات پر اتفاق رائے پیدا کریں کہ نوآبادیاتی نظام کی اہم ترین باقیات سے کس طرح حتمی طور پر چھٹکارا حاصل کیا جائے-
آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ"پنجاب" محض اپنے حصوں کا مجموعہ نہیں ہے- بہت سے غیر پنجابی اس نام کو وقتا فوقتا اپنا آلہ کار بناتے ہوئے اسے دنیا کی ہر خرابی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں- اب ضروری ہوگیا ہے کہ "پنجاب" کی یک نسلیت کو ختم کردیا جائے اور اس مخالفت اور مخاصمت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جس کا اظہا راس کے تعلق سے کیا جاتا ہے-
دریں اثناء ہمیں اس بات کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ قومی سیاسی دھارے سے منسلک تمام امیدواروں کے اقتدار کے کھیل میں اسے کس قدر مرکزی اہمیت حاصل ہے، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ووٹ بینک اس صوبہ میں نسبتا کم ہے- اگر یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی قیمت اور کسی بھی طور پر اس مال غنیمت میں سے اپنا حصہ بٹور لیں تو پھر ہماری بھی حتیٰ الامکان یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اس دولت کو دور دور تک بکھیر دیں.
مصنف قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں.
ترجمہ: سیدہ صالحہ
تبصرے (2) بند ہیں