• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:43pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:51pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:43pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:51pm

جدید مذہبی اجارہ دار

شائع January 28, 2013

molvi 670
آج جہاں وطن عزیز میں ارباب اختیار کے ظالمانہ اقدامات اور اشرافیہ طبقے کی بڑھتی ہوئی ہوس نے بے شمار لوگوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا ہے اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران حکومت نے عوامی ضروریات سے سبسڈی کا بتدریج خاتمہ کرکے کروڑوں افراد کو غربت کی نچلی سطح سے بھی نیچے پہنچادیا ہے، کروڑوں کی امیدوں کا خون ہوگیا ہے۔ ان سب باتوں سے بے نیاز نرالی سج دھج کے ساتھ ٹی وی پر جلوہ افروز ہونے والے بعض جدید اور ماڈرن مذہبی اجارہ داروں کی گفتگو مذکورہ سوال کی سطح سے بلند نہیں ہوپاتی، اور وہ گڑگڑا گڑگڑا کر رونے کی عجیب و غریب اداکاری کرتے ہوئے دعائیں مانگ کر اپنے ہم ذہن اور بے عمل ناظرین کو مزید بے عملی کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللسٹریشن کے لیے صابر نذر کا شکریہ

خدا کا شکر ہوا کہ بارہ ربیع الاوال کو جشن میلادالنبی کا تہوار ساتھ خیریت کے گزر گیا۔ آج بہت عجیب سی بات لگتی ہے، لیکن کبھی وہ وقت بھی گزرا ہےکہ اسی ملک کے شہروں میں تہوار رونقیں لے کر آیا کرتے تھے اور خوشیوں و برکتوں کے حصول کا ذریعہ ہوا کرتے تھے، جو آج خوف اور دکھاوے بازی کا مظہر بن چکے ہیں۔

ماضی میں ہم دیکھتے تھے کہ ہماری امی یا خالہ بی بی فاطمہ کی کہانی سن رہی ہیں تو گھر کے پڑھے لکھے اور اِن روایتوں کو نہ ماننے والے لوگوں نے اُنہیں کبھی روکنے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی ملحد تھا تو اپنی سوچ میں تھا، کوئی موحد تھا تو اپنی فکر میں تھا۔ دونوں کے پاس اپنے اپنے افکار و نظریات تھے، تلواریں نہیں تھیں کہ ایک دوسرے کو اپنے اپنے نظریات کی پیروی پر مجبور کریں۔ کچھ لوگ نماز اور شرع کی پابندی کا اہتمام کرتے تھے لیکن یہ اہتمام ان کی اپنی ذات و کردار تک ہوتا تھا۔ ایسا نہیں تھا، جیسا کہ آج کل کا چلن ہے کہ گھر میں کوئی ایک مرد، والد یا بھائی مذہبی شعار کی پیروی کرنے لگ گیا ہے، تو وہ گویا گھر کے تمام لوگوں کے لیے نعوذباللہ پیغمبر یا خدا بننے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ بلکہ ہمارا تو یہ خیال ہے کہ شاید ایسے لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ اپنے نومولود بچوں کو بھی داڑھیاں رکھوادیں۔ لڑکیوں کی حد تک تو وہ قریب قریب ایسا ہی کر گزرتے ہیں، کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو اسکارف بندھوا دیتے ہیں۔

پہلے میلاد اور دیگر مذہبی محافل میں بتاشے، ریوڑیاں یا روپے کے سینکڑہ کے حساب سے ملنے والے چھوٹے چھوٹے بسکٹ بھی بانٹے جاتے تھے اور میلاد یا مجلس کے شرکاء خوشی خوشی عقیدت اور محبت کے ساتھ یہ ہدیہ قبول کرتے تھے۔ آج کی طرح نہیں تھا کہ چکن بریانی سے کم پر تو میلاد کی محفلوں کا کوئی رُخ ہی نہیں کرتا ہے اور اگر محفل میلاد بڑے پیمانے پر منعقد کی جارہی ہو تو پھر لازمی ہے کہ قرعہ اندازی  کے ذریعے عمرے کے ٹکٹ کے انعام کا لالچ دیا جائے۔ چنانچہ مذہب کی وہ رسومات جو ہماری ثقافت کا حصہ تھیں اور جن سے معاشرے میں باہمی میل جول، برداشت اور ہم آہنگی جیسے مثبت رجحانات کو فروغ ملا کرتا تھا، آج کارپوریٹ کلچر کے رنگ میں رنگ چکی ہیں۔

اس مرتبہ عید میلادالنبی کے بارہ روزہ جشن پر کراچی گویا روشنی میں نہا گیا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ اس ملک کا شہر ہے جہاں سولہ سولہ گھنٹے کے لیے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور اسی لوڈشیڈنگ نے ملکی معیشت کا ستون سمجھی جانے والی صنعتوں کو ملک سے ہجرت پر مجبور کردیا ہے۔ مسلسل بارہ دن تک کےای ایس سی نے بھی رات کی لوڈشیڈنگ ختم کردی تھی۔ شاید اس ڈر سے کہ کہیں اُس کے گلے میں بھی توہین رسالت کا طوق نہ ڈال دیا جائے۔

رنگ و نور کی اس برسات کا جب بغور جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے بھی اپنے گھروں کو سبز روشنیوں سے سجا رکھا تھا، جو برسوں سے اس ملک کے غریبوں کے گھروں میں اندھیروں کے ذمہ دار ہیں۔

عجیب سماں تھا کہ اوپر رنگ برنگی روشنیاں آنکھیں خیرہ کررہی تھیں، نیچے کھلے گٹروں اور ان میں سے نکل کر سڑک پر جمع متعفن پانی سے بچ کر چلنا مشکل ہورہا تھا۔

کچھ اسی طرز کا ماحول ٹی وی پر بھی نظر آیا۔

ٹی وی کویوں تو ضیاءالحق کے دور میں ہی مشرف بہ اسلام کیا گیا تھا، لیکن مشرف کے دورِ حکومت میں اس نے جدید انداز اپنایا اور اب اس کی مذہبی سوچ بھی جدید اور نرالی ہوچکی ہے۔ جنرل مشرف نے جہاں اور بہت سے  کارنامے انجام دیے وہیں ٹی وی چینلز کا گویا جمعہ بازار سا لگا دیا، جن میں سے بعض  چینلز کی مہربانی سے جدید مذہبی اجارہ داروں کو ظاہرپرستی، روایات پرستی اور فرقہ وارانہ شدت پسندی، کے فروغ کا خوب موقع ملا ہے۔ چنانچہ اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں ہمارے معاشرے کے اندر  دیگر بہت سی جہالتوں اور خرابات کے ہمراہ اِس طرز کی ‘‘جہالت’’ بھی ‘‘آن لائن’’ ہوچکی ہے۔ ربیع الاوّل اور رمضان میں آن لائن جہالتوں کے علمبرداروں کی خوب چاندی ہوجاتی ہے۔

اس نوعیت کے پروگرامز میں کیے جانے والے اکثر سوالات کی نوعیت ‘‘مچھر کا خون اگر کپڑے پر لگ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟’’، کی سطح سے بلند نہیں ہوتی۔

کس قدر شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ آج جہاں وطن عزیز میں ارباب اختیار کے ظالمانہ اقدامات اور اشرافیہ طبقے کی بڑھتی ہوئی ہوس نے بے شمار لوگوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا ہے اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران حکومت نے عوامی ضروریات سے سبسڈی کا بتدریج خاتمہ کرکے کروڑوں افراد کو غربت کی نچلی سطح سے بھی نیچے پہنچادیا ہے، کروڑوں کی امیدوں کا خون ہوگیا ہے۔ ان سب باتوں سے بے نیاز نرالی سج دھج کے ساتھ ٹی وی پر جلوہ افروز ہونے والے بعض جدید اور ماڈرن مذہبی اجارہ داروں کی گفتگو مذکورہ سوال کی سطح سے بلند نہیں ہوپاتی، اور وہ گڑگڑا گڑگڑا کر رونے کی عجیب و غریب اداکاری کرتے ہوئے دعائیں مانگ کر اپنے ہم ذہن اور بے عمل ناظرین کو مزید بے عملی کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔

ان کی دعائیں بھی کسی دُور افتادہ دیہات کی سنکی اور بوڑھی عورت کے کوسنوں کی مانند ہوتی ہیں۔ ایسی بوڑھی عورتوں کے کوسنے اپنی پڑوسن، ساس، نند یا سوکن کے لیے ہوتے ہیں جبکہ ان مذہبی ماڈل بوائز کی کوسنے نما دعاؤں کا ہدف کافر، یہودی اور ہندو بنتے ہیں۔

ان جدید مذہبی اجارہ داروں نے اپنے لیے تو نہایت لگژری لائف حاصل کر رکھی ہے اور یہ سب کچھ محض ان کی دعاؤں کی برکت سے نہیں بلکہ چالاکیوں، سازشوں اور مختلف مثبت و منفی حربوں کے ذریعے ممکن ہو سکا ہے، لیکن یہی لوگ اپنے پیروکاروں کو فرقہ وارانہ انتہاپسندی پر اُکساتے ہیں، صبر کا عنوان دے کر جمود کوفروغ دیتے ہیں، عوام کے معاملات سے اُن کی لاتعلقی کا عالم یہ ہے کہ انہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذرا بھی احساس نہیں، اس لیے کہ انہیں تو عزت، دولت  اور شہرت سب ہی کچھ مذہب کے نام پر میسر ہے ۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد یہ ہے کہ کوئی شخص یہ جاننے کے باوجود کہ کسی آدمی کے پاس چوری کا مال ہے، اس سے کچھ مال کسی غرض سے لے تو وہ بھی اس چوری میں شریک ہے۔(بحوالہ : طبرانی الکبیر)

سب جانتے ہیں کہ ہماری مسجدیں اور مدرسے چندوں سے چلتی ہیں۔

غریبوں کے چندوں سے نہیں !!

اس لیے کہ وہ تو زیادہ سے زیادہ 100روپے مہینہ ہی دے سکتے ہیں بلکہ ان ساہوکاروں، سیٹھوں، دلالوں، سود خوروں، دھوکہ دہی اور غبن کے ذریعے راتوں رات کروڑپتی سے ارب پتی بن جانے والوں کی خیرات، صدقات اور زکوٰۃ سے جو اپنے صارفین کو گھٹیا مال دے کر معیاری مال کے پیسے لیتے ہیں۔  اپنے ملازمین کو جائز معاوضہ دینے میں ان کا دم نکلتا ہے، جھوٹے کاغذات بنواکر لاکھوں کا ٹیکس بچاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر غذائی اشیاء میں ملاوٹ کے ذریعے قوم کو زہر دے رہے ہیں۔ غبن ، کرپشن اور ذخیرہ اندوزی کرکے لاکھوں، کروڑوں اور اربوں روپے کماتے ہیں اور یہ اربوں کھربوں کی رقم بینکوں میں فکس کرادیتے ہیں، مثال کے طور پر ایک ارب روپے پر ملنے والا سالانہ سات فیصد سود سات کروڑ روپے بنتا ہے، اس میں سے ڈھائی کروڑ روپے ڈھائی فیصد زکوٰۃ کے نام پر ایسے مذہبی اجارہ داروں کے حوالے کردیتے ہیں، جو ترازو ہاتھ میں لے کرغریبوں کے ایمان کو تولتے اور ان کی جنت دوزخ کا فیصلہ کرتے پھرتے ہیں، جبکہ معاشرہ جہنم کا نمونہ بن چکا ہے اور اسے اس حال تک پہنچانے میں مذہبی طبقے کا بھی بڑا ہاتھ ہے اس لیے کہ ان لوگوں نے عام لوگوں کے ذہنوں کے اندر سماجی بیداری کے تمام راستوں کو بند کرنے کے سلسلے میں مراعات یافتہ استحصالی طبقے کی ہر ممکن مدد کی ہے۔

چنانچہ اب تو ایک زمانہ گزر گیا کہ ہمارے ملک میں مذہب خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ ایک ایسا منافع بخش شعبہ بن چکا ہے جس پر نہ تو کوئی ٹیکس لگتا ہے ، نہ ہی آمدنی کے ذرائع کے بارے میں کچھ دریافت کیا جاتا ہے۔حرام حلال ،جائز ناجائز  کا  تذکرہ ہی کیا بیرونی قوتوں سے بھی سرمایہ حاصل کرنے کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی خطیر سے خطیر سرمائے کے کسی بھی قسم کے اصرا ف و فضول خرچیوں پر انگلیاں اُٹھتی ہیں۔ جب بات ملکی سطح کے مذہبی رہنماؤں، مفتیان عظام ، علمائے دین ، مشائخ کرام ، پیران طریقت کی ہو تو پھر لش پش پجارو  اور دیگر تام جھام معمول کی بات ہے، اچھنبے کی نہیں۔ دائیں بائیں مسلح باڈی گارڈز کے علاوہ نعلین شریف سنبھالنے والے خدمت گاروں کی معقول تعداد،  چھینک بھی آ جائے تو عقیدت مند ڈاکٹروں کاپینل چیک اپ کے لیے حاضر، یاد رہے یہ وہ ڈاکٹرز ہوتے ہیں کہ جن کی غیر معمولی فیس سن ہی کر درمیانے طبقے کے کچھ افراد شاید صدمے سے فوت ہوجا ئیں۔

ملک کے عام افراد کو تو چھوڑئیے خود مذہب کے ان ٹھیکے داروں کی پرستش کی حد تک پیروی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد آلودہ پانی پی پی کر لا علاج امراض میں مبتلا ہوتی ہے تو ہوا کرے، ان کی بلا سے، انہیں تو منرل واٹر باآسانی میسر ہے کہ کسی مالدار عقیدت مند نے منرل واٹر کا ماہانہ کوٹہ فراہم کرنے سعادت جو حاصل کر رکھی ہے۔ اندرون وبیرون ملک سفر کے ہوش ربا اخراجات کی ذرا بھی فکر نہیں کہ ان کے دولت مند پیروکار (جنہیں ‘‘پجاری’’ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا) جہاں ان کے دیگر ناز نخرے اٹھاتے ہیں، وہیں ان کی تمام بھاگ دوڑ اور کود پھاند کا خرچ بھی برداشت کرتے ہیں۔

مذہبی زعماء کے تمام قسم کے ‘‘شوق’’ کی تکمیل میں نہ تو وسائل رکاوٹ بنتے ہیں اور نہ ہی ملکی قانون۔ جہاں دل چاہا ، وہاں مسجد بنادی ۔ جس میدان پر ان کی نگاہِ بصیرت پڑ گئی، وہاں مدرسہ کی بنیاد رکھ دی۔ اوّل تو کوئی جرأت کرے گا ہی نہیں اور اگر کسی ناہنجار اور گستاخ نے اعتراض کرنے کی جرأ ت کی اور کہا کہ حضرت یہ زمین تو کھیل کود کے گراؤنڈ کی ہے، پارکنگ لاٹ کی ہے، کمیونٹی سینٹر کی ہے،  غریبوں کے بچوں کے اسکول کے لیے مختص کی گئی ہے، یہاں تو سروس روڈ بننی تھی، یہ محلہ ہے، یہاں اتنے گھروں کے بیچوں بیچ مسجد، مدرسہ، مزار یا آستانے کی تعمیر سے لوگوں کی پرائیویسی متاثر ہوگی۔ تو اس کم بخت پر داغنے کے لیے ‘‘کفر’’ کے فتوے کا میزائل موجود ہے۔ پھر بھی وہ احمق باز نہیں آیا تو ‘‘توہین رسالت’’ کا طوق اس کے گلے میں ڈال کر وحشی ہجوم کے حوالے بھی کیا جاسکتاہے، جو محض ڈنڈوں، جوتوں اور چپّلوں سے ہی اتنا مارے گا کہ پٹنے والا بے چارا کسی صورت جانبر نہیں ہوسکے گا۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (19) بند ہیں

hsoherwardy Jan 28, 2013 09:56am
I loved The article. very very wel written. These Online so called alims just ruining the mind of our people. Its a joke with Islam and in my opinion these people are the blasphamors....
muhammad younis Jan 28, 2013 05:33pm
i agree with your efforts
انور امجد Jan 29, 2013 12:49am
جمیل خان صاحب پاکستانی گھروں میں ربیع الاول میں میلاد کی محفلیں ہمیشہ سجتی رہی ہیں اب چونکہ ٹی وی آ گیا ہے اسلئے اس پر بھی سجنے لگی ہیں۔ عید میلاد پر مسجدیں اور بلڈنگیں سجنا کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے موم بتیاں اور دئے جلاتے تھے اب ہر جگہ بجلی آگئی ہے تو روشنیاں کی جاتی ہیں۔ اگر کچھ لوگ اپنی خوشی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں تو اس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ اپنے گھر میں بیٹھے رہیں آپ کو کوئی مجبور نہیں کرتا کہ جا کر اس کا معائنہ کریں۔ رہا ٹی وی پر عالموں کے پروگرامز کا تو جو لوگ اپنی مذہبی رسومات اور فرائض ادا کرتے ہیں ان کو بعض مسائل کے بارے میں معلومات چاہیے ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو کوئی پروگرام یا عالم پسند نہیں آتا تو ریموٹ آپ کے ھاتھ میں ہوتا ہے آپ چینل بدل دیجئے۔ مگر دوسروں پر اپنی مرضی مسلّت کرنے کی کوشش نہ کریں۔ میرا تھوڑا بہت مینجمنٹ کا مشاہدہ ہے کہ جن لوگوں کو دوسروں میں بہت خامیاں نظر آتی ہیں وہ خود سب سے بڑے نکمّے اور ناکامیاب لوگ ہوتے ہیں۔ پاکستانیوں کے گناہوں کی اتنی مکمّل لسٹ بنانے پر داد دیتا ہوں۔ اس میں کسی اور گناہ کی گنجائش نہیں لگتی۔
Read All Comments

کارٹون

کارٹون : 26 اپریل 2025
کارٹون : 25 اپریل 2025