غذا سب کیلئے
پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے۔ ملک میں سیاسی انتشار ختم ہونے کو نہیں آرہا تو دوسری جانب افراطِ زر، خراب معاشی صورتحال، قدرتی آفات اور بُری گورننس کا سامنا ہے اور عوام کی اکثریت اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ وہ اگلے کھانے کا انتظام کیسے کریں گے۔
پاکستان اور اس جیسے کئی ممالک میں خوراک کی کمی ایک خطرہ بنی ہوئی ہے اور یہاں کے والدین کیلئے غذائی عدم تحفظ ایک مستقل مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان کی آدھی سے زائد آبادی خوراک کے عدم تحفظ، خون کی کمی، اور ناکافی غذائیت کی شکار ہے۔ یہاں تک اُن کیلئے بھی جو روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں اورجن کی کھانا صرف ایک نان یا چپاتی اور چائے پر مشتمل ہوتا ہے اور یا وہ مرچ اور پیاز پر گزارہ کرتے ہیں۔
یہاں تک مڈل کلاس طبقہ بھی روزانہ گوشت نہیں کھاسکتا، جبکہ خواتین انتہائی کم بجٹ میں غذائیت سے بھرپور کھانے کی منصوبہ بندی بھی نہیں کرسکتیں۔
پاکسان میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں خوراک کی کمی سب سے ذیادہ ہے ۔ وہاں 67.7 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کی شکار ہے۔ اس کے بعد صوبہ بلوچستان ہے جہاں یہ شرح 61.2 فیصد ( جبکہ ڈیرہ بگٹی میں سب سے ذیادہ بلند ہے اور وہاں 81.2 فیصد آبادی کو خوراک کے معاملے میں تحفظ حاصل نہیں) ہے۔ خیبر پختونخواہ میں یہ شرح 56.2 فیصد ہے جبکہ سندھ ااور پنجاب میں صورتحال کچھ بہتر ہے ( بحوالہ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ، SDPI)
پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے تحت ملینیئم ڈیولپمنٹ گولز ( ایم ڈی جی) کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کی رو سے وہ بھوک ختم کرنے کا پابند ہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان ایم جی ڈی ون کا ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا ۔ ملک میں بھوک بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔اقوام متحدہ کے تحت فوڈ سیکیورٹی یا غذائی تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ ' تمام لوگوں کی ہر وقت بنیادی خوراک تک معاشی اور فزیکل طور پر رسائی ہو'، لیکن آج دنیا میں ایک ارب افراد اس کیفیت سے دور ہیں اور غذائی عدم تحفظ میں مبتلا ہیں۔
غذائی تحفظ نہ ہونے کا معاملہ پیچیدہ ہے اور اس کی کئی وجوہ ہیں۔ اس کی وجوہ میں آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج)، شہری غربت، زرعی پیداوار پر غیر ضروری دباؤ، شہری پھیلاؤ، آبادی میں اضافہ، تیل کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ، سیاسی صورتحال، لوگوں کی اندرونی اور بیرونی طور پر نقل مکانی اور دیگر کئی چیزیں شامل ہیں۔ موسموں کے تبدیل ہوتے ہوئے مزاج سے بھی فصلوں کی پیداوار میں پر فرق پڑتا ہے۔ اس طرح غذائی اشیا کی قیمتوں میں کمی ہونے سے مزید کروڑوں لوگوں تک خوراک کی رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔
ماحولیاتی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی یا کلائمٹ چینج کے مقابلے میں قدرتی آفات کے معاشی اور انسانی نقصانات کہیں ذیادہ ہوتے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر وقار احمد نے کہا ،' اگر اب سے اگلے پانچ سال تک کیلئے بھی تمام چیزیں مثلاً کلائمٹ چینج کی رفتار، آبادی میں اضافہ اور سیاسی صورتحال اسی طرح چلتی رہیں تو آج غذائی عدمِ تحفظ کی جو شرح پاکستان میں 58 فیصد ہے وہ 63 سے 65 فیصد تک جاپہنچے گی۔'
اور یہ ایک خوفناک تصور ہوگا ، انہوں نے کہا۔' سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاشی نمو بہت سست ہے جس کی وجہ سے ملازمت کے مواقع پیدا نہیں ہورہے۔'
ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے جاری کردہ سالانہ گلوبل رسک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بُری معاشی حالت کی وجہ سے کئی ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں اورایک گھمبیر صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے تحت ملینیئم ڈیولپمنٹ گولز ( ایم ڈی جی) کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کی رو سے وہ بھوک ختم کرنے کا پابند ہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان ایم جی ڈی ون کا ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا ۔ ملک میں بھوک بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے غذائی پیداوار میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں بھوک بڑھ رہی ہے، غربت اور غذائیت میں کمی کی شرح بلند ہوری ہے۔ اس سے نہ صرف بچوں کی نشوونما پر فرق پڑتا ہے بلکہ ان کی بیماریوں سے لڑنے کی قوت بھی کم ہوجاتی ہےاور ہمارے ملک کے بچوں میں مختلف انفیکشنز اس کی عام وجہ ہیں۔
پاکستان میں غذائیت کی کمی یا ' پوشیدہ بھوک' بھی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ ہماری چوپیس فیصد آبادی کو غذائیت میں کمی کا سامنا ہے ۔ اقوام ِ متحدہ کے تحت فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں 37.5 ملین افراد غذائیت میں کمی کے شکار ہیں۔ آبادی میں کئی طرح کے غذائی اجزا کی کمی ہیں جن میں پروٹین س لیکر آیوڈین اور فولاد وغیرہ کی کمی شامل ہے۔ یہاں بھی غربت اس کی اہم وجہ ٹھہری کیونکہ آبادی کو یا تو خوراک میسر ہیں نہیں اور اگر ہے بھی تو اس میں ضروری غذائیت نہیں۔ پھر کھانے پینے کی اشیا کی بلند قیمتوں سے بھی غریب افراد شدید متاثر ہورہے ہیں۔
دنیا میں خوراک کی کمی نہیں ، یہاں ہر ایک کا پیٹ بھرنے کیلئے کھانا موجود ہے۔ اگر قومی غذائی تحفظ کو ہر لحاظ سے مقدم رکھا بھی جائے تب بھی ہر ملک اسے وہ اہمیت نہیں دیتا جو اس کی ضرورت ہے۔ ترقی پذیر ممالک کئی ایک مسائل کا شکار ہیں، ان میں بُری طرزِ حکومت ، زرعی تحقیق میں کم سرمایہ کاری اور تحقیق کا نہ ہونا شامل ہے۔ پھر کارپوریٹ سیکٹر کی دخل اندازی اپنی جگہ ہے۔ درمیان کے لوگ ذیادہ منافع لے جاتے ہیں، زرعی اراضی میں اصلاحات نہ ہونے کے برابر ہے اور مزدوروں کی جنس کی بنیاد پر تقسیم بھی انہی مسائل میں شامل ہے۔
خوراک کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود گھرسے لے کر عالمی سطح تک غذا کی غیر منصفانہ تقسیم ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کہیں تو کھانے کو بہت ہے اور کہیں بہت ہی تھوڑا ہے۔ خوراک اور غذائیت میں کمی سے غریب اپنی غربت کے چُنگل سے باہر نہیں نکل پاتا۔ کام، تعیلیم، اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال جیسے اہم کام سب متاثرہ ہوتےہیں اور وہ بھی صرف غربت اور خوراک میں کمی کی وجہ سے۔پاکسان میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں خوراک کی کمی سب سے ذیادہ ہے ۔ وہاں 67.7 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کی شکار ہے۔
عالمی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سات ارب کی آبادی میں سے 20 فیصد غربت اور بھوک سے متاثر ہے۔ کم پیداوار، بڑھتی ہوئی آبادی اور ذیادہ ڈیمانڈ کی وجہ سے اب سستی خوراک ایک خواب بن چکی ہے۔ ایشیا میں ایک اہم بحران ہے جس کے تحت عام غذاؤں مثلاً چاول کی قیمت دوگنی ہوچکی ہے۔
دوسری جانب خواتین ہیں کہ وہ اولاد اورخوراک، دونوں کی پیدائش کے درمیان کھڑی ہیں۔ وہ معاشی لحاظ سے بھی تفریق کی شکار ہیں اور معاشرے میں بھی ان کا کردار کچھ ایسا ہی ہے۔ آج کی دنیا میں یہ ضروری ہے کہ جنس کی بنیاد پر مسائل کو دیکھا جائے، فرق کو دور کیا جائے۔ قانونی اور سماجی انصاف کے لحاظ سے پائیدار ترقی میں خواتین کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔خواتین کو زرعی زمین کا مالک بنانے یا انہیں کنٹرول فراہم کرنے کیلئے اکثر زرعی اراضی کی اصلاحات پر زور دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ زمین خواتین کے نام پر تو کردی جاتی ہیں لیکن پھر بھی مرد کے پاس تمام اختیارات ہوتےہیں مثلاً وہ پیداوار، وسائل اور لیبر پر اپنا اثرورسوخ رکھتا ہے۔ اگر عورت کی زندگی میں تبدیلی لانی ہے تو اسے زمین اور وسائل دونوں کا ملکیت دینا ہوگا۔
اسی طرح کھیتی باڑی کرنے والے مزدوروں میں عورت پانی دینے، فصل بونے، گھاس صاف کرنے اور پانی دینے جیسے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے کھیتوں میں دوسروں سے زائد وقت صرف کرتی ہے، جبکہ مرد زمین کی صفائی اور اناج کی فروخت وغیرہ میں مصروف رہتا ہے۔
ایک گھر میں خوراک میں جنس کا پہلو بھی نمایاں رہتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ خاص طور پر غریب دیہی علاقوں میں وہ عورت ہی ہوتی ہے جسے سب سے آخر میں کھانا ملتا ہے۔
پاکستان میں آبادی کی بڑتی تعداد کو غذائیت اور خوراک میں کمی کا سامنا ہے اور یہ مسئلہ اب ہنگامی صورتحال اختیار کرگیا ہے۔ اس سلسلے میں مزید کوئی تاخیر اور ذیادہ تباہ کن ثابت ہوگی۔