• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

نیب ہوا ناکام، افسران کو سیکیورٹی کی پریشانی

شائع January 24, 2013

کامران فیصل کی لاش کو اسپتلا منتقل کیا جارہا ہے۔ فوٹو اے پی۔۔۔
کامران فیصل کی لاش کو اسپتلا منتقل کیا جارہا ہے۔ فوٹو اے پی۔۔۔

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے ہائی پروفائل کیسوں پر کام کرنے والے تفتیشی افسران کو آفیشل سیکیورٹی دینے کے حوالے سے نیب نے چاہے کتنے بھی دعوے کیے ہوں لیکن ان میں کوئی  ایک بھی ابھی تک پورا تک نہیں ہوسکا ہے۔

وہ لوگ جن کی جان کو خطرہ ہے ان میں ایک اصغر خان بھی ہیں جو رینٹل پاور کیس کے مرکزی تفتیشی افسر ہیں۔

نیب افسران نے نام بتانے سے منع کرنے کی شرط پر یہ بات بتائی کہ  اٹھارہ جنوری کو کامران فیصل کی موت کے بعد ان کے سینیئروں نے انہیں سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

نیب چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری نے پیر کے دن احتجاج کرنے والے تفتیشی افسران کو یقین دلایا تھا کہ ان کی سیکیورٹی خود فصیح بخاری کی ذمہ داری ہے۔

خیال رہے کہ فیصل بخاری رینٹل پاور کیس کے حوالے سے تفتیش کررہے تھے جس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کام نام بھی ملزمان میں شامل ہے۔

یہ تحقیقاتی افسران آرپی پی، کارکے رینٹل پاور پلانٹ، رائل پام گالف کلب، بیکری سٹی اور اوگرا کے مقدمات کی تفتیش کررہے ہیں۔

ڈان کو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اصغر خان جو رینٹل پاور کیس کے مرکزی تفتیشی افسر ہیں اور ڈپٹی ڈائریکٹر نیب کو ابھی تک تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

ایک نیب کے افسر نے ڈان کو بتایا کہ اصغر خان بھی فیڈرل لاجز میں رہائش پزیر تھے جہاں کامران فیصل کی موت ہوئی۔ لیکن فیصل کی پرسرار موت کے بعد اصغر خان اپنے ایک دوست کے گھر شفٹ ہوگئے جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

اس کے علاوہ بدھ کے روز جب اصغر سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے تو وہ اپنے ایک دوست کی گاڑی میں آئے اور ان کا کہنا تھا کہا انہوں نے اپنے ساتھ پستول رکھنی شروع کردی ہے۔

خان نے اس بات کی تصدیق کی کہ ابھی تک نہ انہیں سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے نہ ہی انہیں رہنے کی محفوظ جگہ فراہم کی گئی ہے۔ انہوں مزید بتایا کہ وہ ابھی تک فیصل کی موت کے بعد تحقیقات شروع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

علاوہ ازیں پیر کے روز اصغر خان نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ وہ سپروائزر تھے، لیکن فیصل کے پاس "حساس ثبوت اور معلومات' موجود تھی۔

اصغر خان نے بتایا کہ کامران فیصلہ محنتی اور شرمیلے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو فیصل کی موت کا پتہ لگنے کے بعد ان کے کمرے میں فوراً داخل ہوئے تھے اور ان کی موت بہت پرسرار طریقے سے ہوئی۔

دریں اثناء کچھ لوگ عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لیے فیصل کی موت کے بارے میں فیکٹ شیٹ بھی بنا رہے ہیں تاکہ وہ عدالت میں جمع کرسکیں۔

یہ فیکٹ شیٹ اس بات کو اجاگر کرے گی کہ کیوں وہ لوگ اس بات کو ماننے سے انکار کررہے ہیں کہ یہ خودکشی نہیں ہے۔ اس میں ایک نقطہ یہ بھی ڈالا گیا ہے کہ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ فیصل نے کرسی پر کھڑے ہوکر پنکھے سے لٹک کر خودکشی کی تو وہ کرسی اتنی لمبی تھی ہی نہیں کہ فیصل پنکھے تک پہنچ پاتے۔

اس علاوہ ایک دوسرا نقطہ یہ بھی ہے کہ فیصل کے کمرے کی لائٹ بند تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024