• KHI: Fajr 4:47am Sunrise 6:06am
  • LHR: Fajr 4:04am Sunrise 5:30am
  • ISB: Fajr 4:04am Sunrise 5:33am
  • KHI: Fajr 4:47am Sunrise 6:06am
  • LHR: Fajr 4:04am Sunrise 5:30am
  • ISB: Fajr 4:04am Sunrise 5:33am

امن اور ترقی کے دشمن

شائع January 21, 2013

mumbai-670
ممبئی، انڈیا کا تاج ہوٹل جہاں نومبر دوہزار آٹھ میں حملہ آوروں نے لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

 ہندوستان کے مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے بیان دیا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ دہشت گرد ملوث پائے گئے ہیں۔ کل انہوں نے اپنے ایک بیان سے ہندوستان کے سیاسی ماحول کو گرم کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے ناصرف ایسے ٹریننگ کیمپس ہیں جہاں وہ دہشت گردی کی تربیت دیتی ہیں، بلکہ وہ مختلف ذرائع کو استعمال کرکے شدت پسندانہ سوچ کا پرچار بھی کر رہی ہیں۔

شندے کے الفاظ تھے:‘ہم ملک میں امن کوبرقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، وہیں اقلیتوں کے ساتھ ناانصافیوں اور ان کے خلاف جاری تعصب پسندی کو روکنے کے لیے بھی ممکنہ اقدامات کررہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ہمیں ایسی تحقیقاتی رپورٹس مل رہی ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ناصرف دہشت گردوں کے تربیتی کیمپس چلاتی ہے، بلکہ شدت پسندی کی سوچ کو بھی فروغ دے رہی ہے۔’

گزشتہ ماہ ہندوستانی وزارت داخلہ نے ایک رپورٹ شایع کی تھی، جس کے مطابق انڈیا کی مذہبی شدت پسند جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کئی واقعات میں ملوث پائے گئے تھے، جن میں سمجھوتہ ایکسپریس کا بم دھماکہ جس میں ستر افراد ہلاک ہوئے ، مالیگاؤں بم دھماکہ جس میں اڑتیس اور مکہ مسجد حیدرآباد دکن میں ہونے والے بم دھماکے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے تھے، ان دھماکوں کے سلسلوں میں گرفتار ہونے والے دہشت گرد قتل و غارت گری، لوٹ مار اور اس طرح کے دیگر جرائم میں بھی ملوث پائے گئے۔ دوران تفتیش وہ اپنے جرم کا اقرار کرچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مدھیہ پردیش میں جولائی 2003ء میں ایک عیساؕئی راہبہ کے قتل کے بعد سابق چیف منسٹر ڈگ وجئے سنگھ نے پہلی مرتبہ آر ایس ایس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، آر ایس ایس کے کارکن سنیل جوشی کا اس میں اہم رول تھا، وہ 2003ء سے مفرور تھا اور 2007ء میں خود آرایس ایس کے کارکنوں نے اس کا قتل کروادیا تھا۔

سشیل کمار نے کہا کہ ‘سمجھوتہ ایکسپریس کے بم دھماکے ہوں، مکہ مسجد پر ہونے والا بم دھماکہ یا پھر مالیگاؤں کے دھماکے ہوں مذکورہ جماعتوں کے شدت پسندوں نے وہاں جاکر بم رکھے اور پھر کہا کہ مسلم شدت پسند جماعتوں نے یہ دھماکے کیے ہیں۔’ شندے نے یہ بات  کانگریس ورکنگ کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، اس اجلاس میں وزیراعظم من موہن سنگھ، حکمران جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی بھی موجود تھے۔

یاد رہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین دہلی اور لاہور کے درمیان ہندوستان اور پاکستان کے غریب و مڈل کلاس باشندوں کو آپس میں ملانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اب اس واقعہ کو چھ سال کا عرصہ پورا ہونے والا ہے۔ چھ سال قبل یہ ٹرین جب انڈین ریاست ہریانہ کے شہر پانی پت کے قریب پہنچی تو اس میں دو دھماکے ہوئے، جس سے ہلاک ہونے والوں میں پاکستانی شہریوں کی اکثریت تھی۔ ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں ان دھماکوں کا ذمہ دار مسلمان  مذہبی شدت پسند تنظیموں کو قرار دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں یکسر بدلاؤ اس وقت آیا جبکہ مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں میں ہوئے بم دھماکوں کی تفتیش کے دائرے  میں ہندوؤں کی شدت پسند مذہبی تنظیم ابھینو بھارت کو لیا گیا۔ چنانچہ اس طرز کے دیگر واقعات کو بھی اس دوسرے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی، جن کی تفتیش کا اب تک  کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔

سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے اور آتشزدگی کا دلخراش واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جبکہ اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اگلے ہی دن ہندوستانی  حکام سے ملاقات کے لیے دہلی پہنچنے والے تھے، تاکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کیا جاسکے۔

کیا ایسا نہیں لگتا کہ سرحد کے دونوں اطراف مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینے والی جماعتیں اور پریشر گروپس نہیں چاہتے کہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع مل سکے؟۔ جنوبی ایشیاء کے ان ممالک میں بہت سی چیزیں مشترکہ ہیں، مثلاًدونوں کی بولی ایک ہے، سرحد کے اس جانب اس بولی کو لکھتے وقت فارسی اور عربی سے مرصع و مسجع کرکے ناصرف  عام لوگوں کے لیے مشکل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ سرحد پار کے لوگوں کی بولی سے اپنی زبان کو الگ ثابت کرنے کا مقصد بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے یہی حرکت سرحد کے دوسری جانب سنسکرت کے مشکل الفاظ تحریری زبان میں داخل کرکے اس کو سرحد پار کے لوگوں کی بولی سے الگ کرنے کی کوشش جاری ہے۔ جبکہ بولی ایک ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ پچھلی چھ دہائیوں سے آل انڈیا ریڈیو یہاں سنا جاتا رہا ہے اور ہندی فلمیں پابندی کے باوجود دیکھی جاتی ہیں۔ اسی طرح سرحد کے اُس جانب پاکستانی ڈراموں کی مانگ موجود ہے، ہمارے گلوکاروں اور اداکاروں کو وہاں پذیرائی ملتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ کلچر کے بنیادی عناصر ایک جیسے ہیں۔ کھانا پینا اور پہننا اوڑھنا یکساں ہے۔

لیکن دونوں اطراف کچھ قوتیں ایسی موجود ہیں جو آزادی کے بعد سے اپنے عوام کو اس بات کی آزادی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ملکوں میں آسانی کے ساتھ آجا سکیں اور ایک دوسرے کو ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے میں مدد دے سکیں۔

samjhauta-express-670
دھماکے سے متاثر ہونے والی سمجھوتہ ایکسپریس کی بوگیاں۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

جب جب بھی پاکستانی حکومتیں انڈیا کے ساتھ متنازعہ معاملات کے کسی متفقہ اور پُرامن حل تک پہنچنے والی تھیں کہ سرحد کے اِس جانب سے یا پھر اُس جانب سے کچھ ایسا کردیا جاتا کہ امن کی باتیں کرنے والی زبانیں بھی تلخ بیانی پر اُتر آتیں۔ مثال کے طور پر ممبئی حملہ عین اُس وقت ہوا جب کہ پاکستان کی نوزائیدہ جمہوری حکومت ہندوستان کے ساتھ امن معاہدے کی خواہشمند تھی اور اس حملے کے نتیجے میں وہ سارا معاملہ تلخیوں کی وجہ سے پس پردہ چلا گیا۔ حال ہی میں دیکھیے کہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین ویزا پالیسی میں کس حد تک نرمی کی گئی اور یہی نہیں بلکہ اس ماہ کی ابتداء میں  پاکستانی افواج نے پہلی مرتبہ اپنی فوجی کاروائیوں کی ترجیحات میں تبد یلی لاتے ہوئے گزشتہ گیارہ برسوں سے جاری دہشت گردی کے باعث ملک کو لاحق اندرونی خطرات کو انڈیا سے بڑا دشمن قرار دیا ۔

ڈان اخبار کے مطابق گرین بک میں نئی فوجی حکمت عملی کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ پاک، افغان مشترکہ سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں مسلح مخالفین کی جاری کاروائیوں اور پاکستانی شہریوں نیز سیکورٹی تنصیبات پر مسلح گروہوں کے حملوں کو پاکستان کی  سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ گرین بک، پاکستانی عوام میں بھی تقسیم کی جائیگی، اور ایک مناسب وقت میں آرمی ویب سائٹ پر بھی رکھی جائے گی۔

لیکن ابھی اس بات کو زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ سرحد پر اچانک شروع ہونے والی جھڑپوں نے ان ساری چیزوں کو پس پشت ڈال دیا اور تلخ نوائی اس قدر بڑھ گئی کہ پاکستان کے دورے کے خواہشمند من موہن سنگھ نے بی بی سی کے مطابق یہ بیان دیا ہے کہ لائن آ‌ف کنٹرول پر دو بھارتی فوجیوں کے قتل سے بھارت میں شدید غم و غصہ ہے اور اسلام آباد کو چاہیے کہ اب وہ اپنے عمل سے ثابت کرے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتا ہے۔ اس حوالے سے مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان نے جوابی تلخ بیانی سے حتی الامکان گریز کیا ہے۔

سرحدی جھڑپوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی تلخیوں کا پاکستان کے ان لوگوں پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے بعض ثقافتی وفود کو ہندوستان چھوڑنا پڑا اور ویزا کی نرم پالیسی کے عملدرآمد میں بھی تعطل پیدا ہوگیا ہے۔

شندے کے بیان کے ساتھ ہی سمجھوتہ ایکسپریس میں بم رکھنے اور دھماکے کرنے کے ملزم کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس مین اس نے اعتراف کیا ہے کہ ہندو مذہبی انتہا پسند جسٹس راجندر سچر کو ہلاک کرنا چاہتے تھے۔ واضح رہے کہ جسٹس سچر کی سربراہی میں ایک کمیشن نے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی، سیاسی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت بہت پسماندہ ہے اور وہ خصوصاً تعلیم کے معاملے میں انڈیا کے نچلی ذات کے لوگوں سے بھی پیچھے ہیں۔

انڈیا میں شدت پسند جماعتوں نے سشیل کمار شندے کے مذکورہ بیان پر شدید ردّعمل ظاہر کیا ہے، ان جماعتوں کے رہنما چراغ پا ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ شندے کے اس بیان پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی قوم سے معافی مانگیں۔ جبکہ یہاں پاکستان کی شدت پسند مذہبی جماعتوں کو گویا ایک سنہری موقع ہاتھ لگ گیا ہے کہ وہ ہندو اور ہندوستان کو جی بھر کے لعن طعن کرسکیں۔ حالانکہ یہ دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے گروہ ہیں جو اس خطے کے دونوں بڑے مذاہب میں موجود ہیں۔ ان کا کام شروع سے ہی یہی رہا ہے کہ آپسی اختلافات کو ہوا دی جائے اور خطے میں تناؤ کی  صورتحال کو قائم رکھا جائےکہ اس سے ہی ان کی دال روٹی چلتی ہے اور پیٹ پوجا کا سامان ہوتا ہے۔ جہاں امن کی باتیں شروع ہوئیں اور تنازعات کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے مذاکرات کی اہمیت کو تسلیم کیا جانے لگا تو عین اسی وقت پر ایسا کچھ ہوجاتا ہے کہ اس ضمن میں ہونے والی تمام کوششوں پر پانی پھر جاتا ہے، اور پھر آئندہ جب بھی یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پھر بالکل نئے سرے سے سب کچھ شروع کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان دونوں ممالک کے مابین امن سے ہی خطے کا امن وابستہ ہے، جہاں  اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ان دونوں ممالک میں انسانوں کی اکثریت ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر ہلاک ہورہی ہے، جو قابل علاج ہیں۔

ہم آخر میں اتنا عرض کرنا چاہیں گے کہ دونوں ممالک کے ایسے لوگ جو خطے سے غربت، بھوک اور جہالت کا خاتمہ چاہتے ہیں، انہیں اس حوالے سے مشترکہ طور پر عملی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا، ورنہ دونوں ممالک میں شدت پسند گروہ لوگوں کو اپنا ذہنی غلام بنا کر امن اور ترقی کی راہ میں یونہی رکاوٹیں کھڑی کرتے رہیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 19 اپریل 2025
کارٹون : 18 اپریل 2025