اقوالِ مس زرّیں
مس زرّیں کی عمر دیکھنے میں پچاس، سننے میں پچپن اور خود مِس زرّیں کے خیال میں بچپن کی ہے۔
عمر دریافت کرنے پر دیگر معروف خواتین کی طرح تاریخ پیدائش کے بجائے اپنی عمر ہی بتاتی ہیں، لیکن گزشتہ پچیس سالوں سے اُن کی عمر پچیس کے ہندسے پر آکر اٹک گئی ہے۔
پرانے وقتوں کی بڑی بوڑھیاں اسے سائنس کی ترقی خیال کرتی ہیں۔ مس زرّیں ابتدائی عمر ہی سے نیک پروین ٹائپ کے خیالات کی حامل تھیں۔ امورِ خانہ داری مثلاً لگائی بجھائی میں طاق ہونے کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی رجحان بھی موجود تھا۔ عصمت چغتائی کے ناول لحاف اوڑھ کر یوں پڑھا کرتیں جیسے ہم سرد راتوں میں کافی کی چسکیاں لیتے ہیں۔
پھر ایک روز ابامیاں نے اُنہیں ناول پڑھتے دیکھ لیا تو پابندی لگ گئی کہ یہ خرافات تمہارے پڑھنے کی نہیں۔ اس کے بعد سے موصوفہ نے بہشتی زیور سنبھال لی اور عصمت چغتائی کے ناول ابّامیاں نے۔
گھر میں ریڈیو آیا تو دادا جی معترض ہوئے کہ غیر شرعی آلات کا گھر میں لانا نحوست ثابت ہوگا، لیکن جب انہیں ریڈیو سے نشر ہونے والی تلاوت سنائی گئی تو دادا جی نے ریڈیو کو باشرع قرار دے دیا۔
اُن دنوں قیلولہ کی سنت کو فرض سے زیادہ اہم سمجھ کر ادا کیا جاتا تھا، چنانچہ جب گھر کے بڑے بوڑھے قیلولہ فرماتے تو موصوفہ ہاتھوں میں بہشتی زیور لیے ریڈیو سے کان لگائے دھیمی آواز میں آل انڈیا ریڈیو پر سہگل اور خورشید کو سنا کرتیں۔
نور جہاں کی آواز میں جب یہ گیت نشر ہوا۔
آواز دے کہاں ہے ۔۔۔۔۔ دنیا مری جواں ہے
تو انہیں نبّن میاں سے خواہ مخوا اُلفت سی ہوگئی۔
آڑا پائجامہ، ریشم کا کمربند، آنکھوں میں سُرمہ، دوپلی ٹوپی، انگرکھے کا کرتہ اور اگربتی ٹائپ کا عطر لگائے نبّن میاں اس گھر میں آنے والے واحد نوجوان تھے۔
ان کا ہی دم غنیمت تھا ورنہ تو موصوفہ کے گھر میں بڑے بوڑھوں کی کھنکارتی آوازوں کے سوا کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔
شاید یہ نبّن میاں کی عاجزی اور انکساری تھی کہ انہوں نے کبھی اِن پر توجہ نہ دی یا شاید بڑے بوڑھوں میں اُٹھنے بیٹھنے سے اُن کی روح بھی بوڑھی ہوگئی تھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی شخصیت کا عرفان رکھتے ہوں جس میں آنکھیں بیلنس نہ تھیں، پولیو کے اثر کی وجہ سے ایک پیر گھسیٹ کر چلتے تھے، چہرہ چیچک کے داغوں سے بھرا پُرا تھا اور کسی شہابِ ثاقب کی مانند لگتا تھا۔
پھر ہندوستان تقسیم ہوگیا اور نبّن میاں تقسیم کے غدر میں نجانے کہاں کھوگئے۔
مس زرّیں لکھنؤ سے کراچی آگئیں اور اُن کے دن رات یہ گیت سنتے ہوئے گزرنے لگے۔
تم نجانے کس جہاں میں کھوگئے ۔۔۔۔۔۔ ہم بھری دنیا میں تنہا رہ گئے
لیکن ساری زندگی تو یوں نہیں گزر سکتی تھی لہٰذا زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے درس و تدریس کا شعبہ اختیار کیا۔ اس لیے کہ یہ کوئی خاص مشکل کام بھی نہ تھا، اسکول میں سارا دن سوئٹر ہی تو بُننی تھی اور جب انگلیاں تھک جاتیں تو فلمی میگزین کا مطالعہ کرلیا جاتا۔ ہاں بچوں کا شور جب مطالعے میں خلل ڈالنے لگتا تو تمام طلبہ و طالبات کو سو سو مرتبہ اپنا اپنا نام لکھنے کی سزا دے دی جاتی۔
ایسا نہیں تھا کہ پڑھائی بالکل نہیں ہوتی تھی، مہینے میں ایک آدھ مرتبہ جب ہیڈمسٹریس صاحبہ نئی بنارسی یا کامدانی ساڑھی باندھ کر اسکول آتیں اور ٹیچروں پر ساڑھی کا رُعب جھاڑنے کے لیے وزٹ پر نکلا کرتیں تو کچھ دیر کو پڑھائی بھی ہوجاتی، لیکن بُرا ہو اُس نگوڑ مارے اسکول انسپکٹر کا جو ایک روز بغیر اطلاع دیے ان کے اسکول کی طرف آنکلا۔
اسکول کا وزٹ ہی کرنا تھا تو کیا اُن کی ہی کلاس کا معائنہ انتہائی ضروری تھا؟
اُس انسپکٹر نے موصوفہ کی کلاس میں بلیک بورڈ پر انگریزی لفظ Nature لکھا اور ایک لڑکے کو کھڑا کر کے کہا کہ پڑھو اور معنی بھی بتاؤ۔
اُس نے نہایت اعتماد کے ساتھ پڑھا: نٹورے۔
اس سے قبل کہ وہ معنی بھی بتاتا، انسپکٹر اُچھل کر کھڑا ہوگیا:کیا کہا.... پھر سے کہو۔
نٹورے۔ طالبعلم نے پھر پُراعتماد لہجے میں کہا۔
انسپکٹر نے اُسے بلیک بورڈ کے پاس بلالیا: اب غور سے دیکھ کر پڑھو۔
اُس طالبعلم نے کہا :این اے ٹی یو آر ای، نٹورے۔
انسپکٹر آپے سے باہر ہوگیا اور ہیڈمسٹریس کی طرف دیکھ کر بولا:اس لڑکے کو ابھی اور اسی وقت اسکول سے خارج کریں۔
مس زرّیں خاصی رقیق القلب واقع ہوئی تھیں، اپنے اسٹوڈنٹ کے ساتھ یہ ظلم نہ دیکھ سکیں اور اپنی عینک درست کرتے ہوئے انسپکٹر کو نہایت سخت لہجے میں مخاطب کرکے کہا :سر! آپ اس نٹورے Nature کے چکر میں میرے اسٹوڈنٹ کا فٹورے Future برباد کررہے ہیں۔
اس کے بعد کی داستان نہایت المناک ہے۔
طالب علم کو معاف کردیا گیا اور موصوفہ کو معطل۔
لیکن مس زرّیں بڑی ہمت والی خاتون تھیں، سرکاری اسکول کی ملازمت پر دو حرف بھیجے اور اپنا ذاتی اسکول کھول لیا اور اب تو شہر میں اُن کے کئی اسکول ہیں۔
ریڈیو سے ناطہ اب بھی برقرار ہے۔
ایف ایم کے ایک ریڈیو چینل پر کمپیئرنگ کرتی ہیں، اس کے لیے انہیں کوئی زیادہ کوشش بھی نہیں کرنی پڑی۔
ہمارے دوست نون کا کہنا ہے کہ ایف ایم والوں کو ایک مرد کمپیئر درکار تھا اور ان کی آواز تو مردوں سے بھی زیادہ مردانہ ہے۔ مزید یہ کہ انگلش تو انگلش اردو بھی ان سے زیادہ غلط کوئی نہیں بول سکتا۔
تبصرے (1) بند ہیں