ڈاکٹر محمدعلی صدیقی بھی رخصت ہوئے
کل بروز بدھ کراچی میں ڈاکٹر محمدعلی صدیقی 74 برس کی عمر میں انتقال کرگئے، انہیں دو ہفتہ قبل بلڈپریشر بہت زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ان کے گردے اور برین متاثر ہوئے تھے۔
ڈاکٹر محمدعلی صدیقی کا نام اردو ادب کا درخشاں ستارہ ہے اور ان کا کام ہمیشہ اردو زبان کے ماتھے کا جھومر بنا رہے گا۔
اُن کا نام پاکستان میں اردو ادب کی تنقید کے حوالے سے بے حد احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ان کو بلاشبہ ملک کے مصنفوں، شاعروں اور صحافیوں کی ایک نسل کا رہنما اور سرپرست کہا جاسکتا ہے۔
جمہوری قدروں کے ساتھ ان کی مضبوط وابستگی اور زندگی میں عقل و شعور کی اہمیت کے حوالے سے ان کا غیر متزلزل یقین ہی تھا کہ بہت سے لوگوں کے دل میں ان کے لیے تعظیم اور احترام کے گہرے جذبات موجود تھے۔
صحافت، تدریس اور علم و ادب کےشعبوں میں ڈاکٹر صدیقی نے چالیس سال تک گراں قدر خدمات انجام دیں۔
وہ کراچی یونیورسٹی میں بھی طویل عرصے تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ قائداعظم اکیڈمی، کراچی، میں بطور ڈائریکٹر انہوں نے چھ سال تک کام کیا اور ہمدرد یونیورسٹی، کراچی میں ہیومینیٹیز اور سماجی علوم کے ڈین فیکلٹی بھی رہے۔
وہ انتقال کے وقت تک انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ ٹیکنالوجی (بزٹیک) میں ڈین فیلکٹی رہے۔
ڈاکٹر صدیقی انیس سو اڑتیس میں ہندوستان کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے اور یہاں عیسائی مشن اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ یاد رہے کہ اس اسکول میں قائداعظم محمد علی جناح بھی زیرتعلیم رہے تھے۔
ڈی جے سائنس کالج سے انیس سو تریپن میں انٹرمیڈیٹ پاس کیا اور اس کے بعد انگریزی ادب میں ماسٹر اور مطالعہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں کراچی یونیورسٹی سے حاصل کیں۔
انہوں نے انیس سو بانوے میں مطالعہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد دوبارہ 2003ء میں اسی موضوع پر ڈی لیٹ کی ڈگری حاصل کی۔
وہ پہلے فرد تھے جنہیں اس موضوع پر پی ایچ ڈی اور ڈی لیٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی کو انگریزی، فرانسیسی، فارسی، پنجابی، سندھی، سرائیکی اور اردو سمیت کئی زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔
وہ پاکستان کی نامور اور بیرون پاکستان کی بین الاقوامی علمی اور ادبی تنظیموں کے رکن تھے۔
مثال کے طور پر پاکستان رائٹرز گلڈ، ایسوسی ایشن ڈی لٹریئر کریٹکس انٹرنیشنل ،پیرس، فرانس، یورپی یونین کی انجمن برائے رائٹرز اینڈ سائنٹسٹس ، روم، انٹر نیشنل ایسو سی ایشن آف لٹریری کرٹکس اسٹائنجر، ناروے اور مجلس فروغ اردو ادب، دوحہ قطر کے رکن تھے۔ انہیں برطانیہ، کینیڈا اور ناروے کی مختلف یونیورسٹیز میں لیکچرز کے لیے بھی مدعو کیا جاتا رہا۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے سو سے زیادہ ریسرچ آرٹیکلز تحریر کیے۔
روزنامہ ڈان میں ‘ایریل’ کے زیرعنوان وہ دو دہائیوں کے طویل عرصے سے ایک کالم بھی لکھ رہے تھے۔
انہوں نے سولہ کتابیں تحریرکیں۔ ان کی دو کتابوں توازن، اور کروچے کی سرگزشت کو بالترتیب انیس سو چھہتر اور انیس سو انیاسی میں سال کی بہترین کتاب کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب کی علمی اور ادبی خدمات پر انہیں 2003ء میں صدارتی ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔ کینیڈین ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز نے انہیں 1984ء کا بہترین اسکالر کا اعزاز سے نوازا، وہ دوسرے پاکستانی تھے جنہیں یہ اعزاز ملا تھا۔
بہت سی قدآور علمی وادبی شخصیات نے فیض احمد فیض کی طرح ڈاکٹر محمدعلی صدیقی کی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا تھا۔
فیض کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک ہی نقاد ہیں اور وہ ہیں ڈاکٹر محمدعلی صدیقی۔
وہ ابتدائی دور سے ہی ترقی پسند فکر اور تحریک کے ساتھ جُڑ گئے تھے۔ جبکہ تنقیدی مضامین تحریر کرنے کا سلسلہ انہوں نے انیس سو اٹھاون میں اپنے زمانہ طالبعلمی سے ہی شروع کردیا تھا۔
نہایت مختصر وقت میں ہی ڈاکٹر صدیقی نے بحیثیت نقاد اپنا مقام بنا لیا تھا۔ اسی طرح بہت ہی کم عرصے میں ان کا شمار ترقی پسند تحریک کے اہم ناقدین میں ہونے لگا۔
ڈاکٹر صدیقی ایک وسیع المطالعہ، وسیع المشرب اور کھلے ذہن کے ناقد تھے، جنہوں نے ترقی پسند فکر کے ساتھ اپنی اٹوٹ وابستگی کے باوجود اپنے سے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے ادیبوں اور ناقدین کو بھی احترام کی نظر سے دیکھا ہے۔
ان کی ایک ایسی خوبی جو انہیں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے، وہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے پیشرو ترقی پسند ناقدین کے تنقیدی نظریات سے تو یقیناً بہت کچھ سیکھا اور اخذ کیا لیکن انہوں نے اپنے پیشرو ناقدین کی غلطیوں کو نہیں دُہرایا۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے انگریزی ، فارسی اور اُردو ادب پر وسیع تر مطالعے اور گرفت نے ان کی تنقید کو ہمہ جہت بنا دیا تھا۔
اُن کا خیال تھا کہ ہر عہد کے کچھ مخصوص تقاضے ہوتے ہیں، جنہیں پیش نظر رکھنا ہر شاعر و ادیب کا فرض بنتا ہے۔
ادب تخلیق کرنے والا اپنے عہد کی حقیقتوں کو بیان کرتا ہے اور جب وقت گزرجاتا ہے اور نیا عہد شروع ہوتا ہے تو ماضی کے ادب کا مطالعہ دراصل اُس عہد کے حقائق کا مطالعہ ہوتا ہے۔
انہوں نے بطور خاص ترقی پسندی اور جدیدیت کی امتیازی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے مایوسی اور مابعدالطبیعات کے تعلق پر بھی منطقی گفتگو کی ہے۔
اُن کا خیال تھا کہ ترقی پسندی کو ہی اصل معنوں میں جدیدیت کہا جاسکتا ہے اور مابعد الطبیعات (میٹا فزکس) کے فروغ کے لیے جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ ادب کے عصری تقاضوں کے منافی ہے۔
وہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ موجودہ عہد میں عظیم الشان ترقی کے باوجود انسانوں کے بہت سے مصائب ختم نہیں کیے جاسکے ہیں، لیکن ان کا حل مزید تحقیق اور اس تحقیق کے نتیجے میں نئے راستوں کی دریافت ہے، نہ کہ مابعدالطبیعات(میٹا فزکس) کا فروغ، جس نے انسانوں کے ذہنوں سے امید اور ترقی کے خواب چھین کر اسے یاسیت کے در پر ایک بھکاری کی صورت چھوڑ دینا ہے۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا نظریہ تھا کہ رجعت پسندی اور یاسیت پرستی بالآخر انسان کو بے عمل بنا دیتی ہے یہاں تک کہ وہ زندگی کی محبت سے بھی دستبردار ہو جاتا ہے اور زندگی کی محبت سے دستبرداری انسان ہونے کے عمل سے ہی انکار ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں