ریکوڈک گولڈ مائنز معاہدہ کالعدم قرار
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ریکوڈک گولڈ مائنز معاہدے کو کالعدم قرار دیدیا ہے۔ عدالت نے تئیس جولائی انیس سو ترانوے میں ہونے والے اس معاہدے کو ملکی قوانین سے متصادم قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریکوڈک گولڈ مائنز کیس کا سولہ صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ سناتے ہوئے بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں سونے اور دیگر معدنیا کے ذخائر کی تلاش کے معاہدے کو کالعدم قرار دیدیا۔عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ ملک کے منرل رولز اور ملکیت کی منتقلی کے قوانین کے خلاف ہے۔
فیصلے کے مطابق معاہدے میں کی گئی تمام ترامیم بھی غیرقانونی اور معاہدے کے منافی تھیں۔
تئیس جولائی انیس سو ترانوے کو غیرملکی کمپنی سے ہونے والے اس معاہدے کیخلاف پانچ سال تک کیس عدالت میں زیرسماعت رہا۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس گلزار اور جسٹس اجمل سعید شیخ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس کیس کا فیصلہ سولہ دسمبر کو محفوظ کیا تھا۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے غیرملکی کمپنی ٹی سی سی کے خلاف درخواستیں بھی سماعت کیلئے منظور کرلی ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ریکوڈک معاہدے سے متعلق ٹیتھیان کمپنی کا اب کوئی حق باقی نہیں رہا۔
واضع رہے کہ بلوچستان میں افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب مشہور علاقے چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر کونکالنے کامنصوبے کانام ریکوڈک ہے۔
جولائی انیس سو ترانوے میں وزیراعلی بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ریکوڈک منصوبے کاٹھیکا آسٹریلوی کمپنی پی ایچ پی کودیا تھا۔
تینتیس لاکھ سینتالیس ہزار ایکٹر پر واقع اس منصوبے کا معاہد ہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہواتھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر مزید کام کرنے کے لیے اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کر لیا اور کوشش کی کہ گودار پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبا کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو کل آمدنی کا صرف پچیس فیصد حصہ ملنا تھا۔
بلوچستان حکومت نے پی ایچ پی کی طرف سے بے قاعدگی کے بعد معاہدہ منسوخ کردیا تھا۔
بلوچستان حکومت نے دوہزار دس میں یہ بھی فیصلہ کیا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے پرخود کام کرے گی۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ریکوڈک سے روزانہ پندرہ ہزار ٹن سونا اورتانبا نکالاجاسکتا ہے جس کے صوبے کوسالانہ اربوں ڈالر آمدنی ہوگی۔۔ ریکوڈک معاہدہ پرمختلف این جی اوز اور ماہرین کےساتھ سول سوسائٹی بھی سوال اٹھاتی رہی تھی۔ خود وزیراعلی اسلم رئیسانی نے چھ نومبردوہزار بارہ کو ایک بیان میں کہا تھا ریکوڈک کی وجہ سے مخصوص قوتیں انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہیں۔