ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش
اسلام آباد: پاکستان کے جوڈیشل کمیشن نے اسامہ بن لادن کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات کی معلومات وزیر اعظم کو جمع کرا دی ہیں۔
ان تحقیقات کا مقصد یہ معلوم کرنا کس طرح اسامہ بن لادن امریکہ کے ہاتھوں مارے جانے سے پہلے تک کس طرح پاکستان میں کسی کی نظروں میں آئے بغیر رہائش پذیر رہے، مذکورہ رپورٹ کو منظر عام پر نہ لائے جانے کا امکان ہے۔
کمیشن کا قیام 18 ماہ قیام میں آیا تھا جس کا مقصد پاکستان کی تاریخ کے سب سے شرمناک واقعے کی تہہ تک جانا تھا تاہم اس حوالے سے تمام تر معلومات خفیہ رکھے جانے کا امکان ہے۔
دو مئی 2011 گیارہ کو امریکی فوج نے حکومت پاکستان کو بتائے بغیر ایبٹ آباد کے ایک کمپاؤنڈ پر خفیہ چھاپہ مارا تھا جس میں اسامہ بن لادن ہلاک ہو گئے تھے، حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کیلیے پانچ رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔
پارلیمنٹ نے حکومت سے آزاد تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا کرتے ہوئے تھا کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کیسے چھپے رہے اور کہیں یہ حکومت یا فوج کی ملی بھگت سے تو نہیں ہوا۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جج جاوید اقبال نے جمعرات کو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو رپورٹ جمع کرادی ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ رپورٹ کو خفیہ رکھنے یا منظرعام پر لانے کے حوالے سے فیصلہ وزیر اعظم کریں گے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ رپورٹ کو منظر عام پر لائے جانے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
کمیشن نے حکومت اور فوج کے سینئرعہدیداروں کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال اپریل میں اسامہ بن لادن کی تینوں بیواؤں کو بھی سعودی عرب واپس بھیجے جانے سے پہلے ان کے انٹرویو کیے تھے۔
اسامہ بن لادن کیخلاف کی گئی اس ریڈ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات انتہائی متاثر ہوئے تھے جبکہ اس سے فوج کی اہلیت پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔
نومبر 2011 میں امریکی فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاک امریکہ تعلقات بحرانی کیفیت کا شکار ہو گئے تھے تاہم سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے سات ماہ کے تعطل کے بعد کھولی جانے والی نیٹو سپلائی کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آ گئی تھی۔