سال 2012ء : کتنے ستارے ڈوب گئے
دیکھتے ہی دیکھتے 2012ء کا سال بھی بیت گیا، جس کے حوالے سے بہت سے اندیشے، خدشات اور پیش گوئیاں کی گئی تھی، خاص طور پر اکیس دسمبر 2012ء کی تاریخ جس پر مایا کیلنڈر کا اختتام ہورہا تھا، کو تو دنیا کا آخری دن سمجھ لیا گیا تھا، یعنی دنیا بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد یہ یقین کیے بیٹھی تھی کہ اس دن قیامت آ ہی جائے گی۔
لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور اکیس دسمبر کا دن خیر و عافیت کے ساتھ گزر گیا، البتہ اُن گھروں پر ضرور قیامت گزری ہوگی جس کا کوئی فرد دنیا بھر میں جاری مختلف مسلح تصادم، دہشت گردی کے حملوں اور خانہ جنگیوں میں ہلاک ہوا تھا۔
ایسے افراد جن کا انتقال 2012ء کے دوران ہوا، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا یا دنیا میں اپنی سوچ کے مثبت یا منفی نقوش چھوڑے، یہاں ہم ان کے انتقال کی تاریخ کے ساتھ ان کا نام اور ان کا حوالہ پیش کررہے ہیں۔
جنوری
04 : ایو آرنلڈ، امریکا کے بین الاقوامی شہرت یافتہ فوٹوگرافر اور سیاح۔
05 : بوب ہولنیس، برطانیہ کے ایک معروف کوئز شو کے میزبان۔
08 : ایلیکس ویزنبرگ، بلغاروی نژاد فرانسیسی مصور۔
10 : پیر پگارا، سندھ میں حُروں کے روحانی پیشوا، پاکستان کے سینئیر سیاست دان، مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا کا انتقال تراسی سال کی عمر میں ہوا۔
ان کا پورا نام حضرت پیر سید مردان شاہ دوم تھا اور وہ بائیس نومبر 1928ء کو ضلع خیرپور کے ایک گاؤں پیر جو گوٹھ میں پیدا ہوئے، جو حروں کے روحانی سلسلے کا مرکز ہے۔
ابتدائی تعلیم پیر جو گوٹھ میں حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ میں بھی زیرِ تعلیم رہے۔
پیر صاحب پگارا کے والد پیر سید صبغت اللہ شاہ پگارو کو انگریز حکومت نے بیس مارچ 1943ء کو بغاوت کے الزام میں پھانسی دے دی تھی۔
اس کے بعد پیرپگارا کو ان کے اہلِ خانہ کے ہمراہ نظر بند کردیا گیا، پھر 1946ء میں انہیں برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں وہ 1952ء تک برٹش گورنمنٹ کی نگرانی میں لیورپول کے علاقے میں قائم ‘میجر ڈیوس اسکول’ میں زیرِ تعلیم رہے اور گریجویشن کیا۔
اسی دوران 1949ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے دورہ برطانیہ کے دوران پیر پگارا سے ملاقات کی اور ان کی ‘گدی’ کی بحالی اور جائیدادوں کی واپسی کی یقین دہانی کرائی۔
پھر 1952ء میں ان کی وطن واپسی کے بعد چار فروری کو ان کی دستار بندی کی گئی اور ‘پیر پگارا’ کا عہدہ باقاعدہ طور پر بحال کردیا گیا۔
پیر پگارا نے پاکستان کی سیاست میں بھی کئی دہائیوں تک سرگرم کردار ادا کیا اور ان کے ایک مرید محمد خان جونیجو پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے۔
پیر صاحب کے تین بیٹے بھی مختلف حکومتوں میں وفاقی و صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔ پیر صاحب کی ایک وجہ شہرت ان کی سیاسی پیش گوئیاں بھی تھیں، ان کے بیانات بھی بہت دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔
وہ مسلم لیگ فنکشل کے سربراہ تھے، لیکن انہیں پاکستانی سیاست میں سرگرم تمام اہم جماعتوں اور گروہوں کا اعتماد اور احترام حاصل تھا۔
وہ مذہبی وضع قطع رکھنے اور روحانی سلسلے کے سربراہ ہونے کے باوجود لبرل خیالات رکھتے تھے، وہ مذہبی تبلیغ نہیں کرتے تھے اورخواتین کی تعلیم پر زور دیتے تھے۔
انہیں پاکستانی فوج کی ہائی کمان سے قریب سمجھا جاتا تھا، جس کا وہ بلاجھجک اظہار بھی کرتے۔
13: رؤف دینکتاش، قبرص کے ترک رہنما جنہوں نے چھ دہائیوں پر مشتمل اپنے سیاسی کیریئر کے دوران قبرص کی ترکی کمیونٹی کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔
14: ارفع کریم، دنیا کی کم عمر پاکستانی آئی ٹی پروفیشنل، جس نے محض نو برس کی عمر میں مائیکروسوفٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل امتحان پاس کر کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔
اس کامیابی کے بعد 2006ء میں مائیکرو سافٹ کمپنی کے سربراہ بل گیٹس نے ارفع کریم کو خصوصی طور پر امریکہ مدعو کیا اور اس سے ملاقات بھی کی۔
سولہ سال کی عمر میں ارفع کریم مرگی کے شدید دورے کے باعث کومے میں چلی گئی اور جانبر نہ ہونے کے سبب انتقال کرگئی۔
ارفع کریم کو بہت سے اعزازت ملے، جن میں نمایاں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی تھا۔
16 : شہزادہ حذیفہ محی الدین، داؤدی بوہرہ جماعت کے روحانی پیشوا سیدنا برہان الدین کے صاحبزادے۔
20 : سلمیٰ ممتاز، پاکستانی فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ۔
24 : تھیوڈوروس اینگلو پولس، کئی بڑے ایوارڈ یافتہ یونانی فلمساز، اسکرین رائٹر اور ڈائریکٹر، جن کا شمار دنیا کے چند بڑے فلمسازوں میں کیا جاتا تھا، ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہونے کے سبب جانبر نہ ہوسکے اور 76 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔
فروری
01 : اینگلو ڈیونڈی، معروف باکسر محمد علی کے ٹرینر، جنہوں نے محمدعلی کو ان کی عظیم فتح کے لیے تیار کیا۔
03 : بین گزّارا، ہالی وڈ اداکار۔
04 : فلورنس گرین، پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے والی ایک سو دس سالہ خاتون، جنہوں نے ویمنز رائل فورس میں ستمبر 1918ء کو شمولیت اختیار کی اور پہلی جنگ عظیم کے دوران مختلف جنگی محاذ پر آفیسرز میس میں اسٹیورڈ کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔
08 : ذاکرعلی خان، معروف ادیب، سرسید یورنیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق وائس چانسلر، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے بانی رکن اور سابق ایم ڈی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، 85 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔
انہوں نے متعدد کتابیں لکھیں جن میں میاں کی اٹریا تلے، قلم رو، روایاتِ علیگڑھ، حدیث حرم،رخت سفر، برائے نام، یادوں کا دستر خوان، مرحبا الحاج، دیوان عام اور مائی باپ شامل ہیں۔
ان میں میاں کی اٹریا تلے اور روایات علی گڑھ کے نو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد کتابوں اور مضامین کے تراجم بھی کیے۔
ذاکر علی خان نے تعلیم کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ٹینس کے کھیل کی ترقی میں نمایاں خدمات انجام دیں اور ایشین گیمز و ڈیوس کپ جیسے مقابلوں میں متعدد بار پاکستانی ٹیم کی نمائندگی کی اور منیجر کے فرائض انجام دیے۔
آپ کا شمار کے ایم سی فٹ بال اسٹیڈیم، کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس کشمیر روڈ کے بانی و معماروں میں ہوتا ہے۔
11 : وٹنی ایلزبتھ ہوسٹن، امریکی گلوکارہ، اداکارہ، پروڈیوسر اور ماڈل جن کے میوزک البمز کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
14 : اظہر جاوید، اردو اور پنجابی زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور ادبی جریدے تخلیق کے ایڈیٹر۔
18 : مراد شنواری، پشتو غزل کے لےجنڈ شاعر امیر حمزہ خان شنواری کے اکلوتے بیٹے جو پشتو زبان کے مشہور شاعر، پشتو فلموں کے ہدایتکار، موسیقار اور افسانہ نگار بھی تھے۔
انہوں نے پشتو کے اکتالیس شعراء کی سوانح حیات اور شعری مجموعوں کو اکٹھا کرنے کا کام بھی سرانجام دیا۔
وہ انیس سو نواسی تک ریڈیو پاکستان سے منسلک رہے اور پھر ریٹائرمنٹ لے لی۔
20 : تمنا بیگم، پاکستانی فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ جنہوں نے ستر اور اسّی کی دہائیوں میں بہت سی یادگار فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھلائے۔
اپنے ساٹھ سالہ فنی سفر کا آغاز انہوں نے ریڈیو سے کیا، فلمی صنعت کے زوال کے بعد انہوں نے ٹی وی ڈراموں میں حصہ لیا اور عمر کے آخری برسوں تک ٹی وی سے وابستہ رہیں۔
مارچ
01 : مشتاق ملانو، پاکستان میں بننے والی سندھی فلموں میں چاکلیٹی ہیرو اور دلیپ کمار کا خطاب پانے والے مشتاق ملانو جو مشتاق چنگیزی کے نام سے مشہور ہوئے۔
انہوں نے کئی فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ ہدایات بھی دیں۔ اپنے انتقال سے چند برس پہلے تک وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھے۔
03 : لطف اللہ خان، پاکستان کی سب سے بڑی آڈیو لائبریری کے مالک اور ادیب، جن کی لائبریری میں پاک و ہند سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی آوازوں کے پانچ ہزار ریکارڈز موجود تھے۔
اپنی زندگی کے آخری ایام کے دوران وہ ان ریکارڈزکو ٹیپ سے ڈی وی ڈی پر منتقل کرنے کا کام کررہے تھے۔
انہیں موسیقی سے بہت لگاؤ تھا، تقسیم سے قبل وہ آل انڈیا ریڈیو کے لیے گلوکاری بھی کرتے رہے تھے۔ ان کی کئی کتابوں میں سے تین 1936ء میں شایع ہوئی تھیں۔
10 : موئبیوس، معروف فرانسیسی کامک بُک کارٹونسٹ اور ڈیزائنر جین گراڈ جو موئبیوس کے نام سے مشہور تھے۔
12 : طاہرہ واسطی، پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ جنہوں نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں میں یادگار کردار ادا کیے۔ 1968ء سے انہوں نے ٹی وی پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔
انہیں تاریخی ڈراموں کے کرداروں سے بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ طاہرہ واسطی رائٹر بھی تھیں اور انہوں نے بہت سے مقبول ڈرامے بھی تحریر کیے۔
13 : ضیاء جالندھری، شاعر، ادیب اور براڈکاسٹر جو اسّی کی دہائی کے دوران پاکستان ٹیلی ویژن کے ایم ڈی مقرر ہوئے، کا اصل نام سید ضیاء نثار احمد تھا۔
قیام پاکستان سے قبل اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی ادب کے اُستاد بھی رہے۔
17 : چالیو یُوودھیا، ریڈ بل نامی انرجی ڈرنک بنانے والی کمپنی کے شریک بانی، جنہوں نے تھائی لینڈ کے غریب چینی مہاجر خاندان میں آنکھ کھولی اور بطخ کی فارمنگ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اپنی محنت اور لگن کی بناء پر ترقی کرتے کرتے ارب پتی بن گئے۔
18 : ایس آر غوری، سابق جرنلسٹ جنہوں نے پاکستان میں ڈان، ٹائم، مارننگ نیوز اور ہیرالڈ جبکہ بیرون ملک گارجین، بی بی سی اور اکنامسٹ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔
24 : محمد اقبال باہو، صوفی گائیک، لوک فنکار، ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کے آرٹسٹ جو گزشتہ تیس سالوں سے صوفیانہ کلام گارہے تھے۔
سلطان باہو کے کلام کو اس قدر ڈوب کر گانے کی وجہ سے باہو ان کے نام کا حصہ ہی بن گیا۔
انہوں نے ٹی وی پر اداکاری بھی کی۔ صوفیاء کے کلام گاتے ہوئے وہ الفاظ کی ادائیگی کا اس قدر خیال رکھتے کہ بعض مرتبہ قدیم پنجابی یا سرائیکی کے الفاظ کو درست لہجے اور انداز کے ساتھ ادا کرنے کے لیے انہیں ماہرین لسانیات سے بھی رابطہ کرنا پڑتا۔
انہوں نے قدیم لوک موسیقی میں کئی جدتیں بھی پیدا کیں۔
28 : ارل شرگز، امریکی موسیقار جنہوں نے بینجو پلے کرنے میں ایسی جدت پیدا کی جو اب ان ہی کے نام سے منسوب ہے۔
28 : نتھو کہری، سندھ کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے مشہور کامیڈین جن کی کامیڈی وڈیوز اور آڈیوز بہت بڑی تعداد میں یوٹیوب اور دیگر ویب سائٹس پر موجود ہیں اور پسند کی جاتی ہیں۔
اپریل
02 : نیسلیشا عثمان گلو، ترک سلطنت عثمانیہ کے آخری حکمران، سلطان عبدالمجید ثانی کی پوتی، جن کی شادی مصر کے سابق شاہی گھرانے میں ہوئی اور انہیں دو مرتبہ جلاوطنی کی مصیبت جھیلنی پڑی، پہلی مرتبہ اس وقت جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور دوسری مرتبہ جب مصر میں انقلاب کے بعد شاہی حکومت ختم کی گئی۔
03 : لیلیٰ ایلسی ڈینمارک، دنیا کی سب سے پرانی فزیشن جو مئی 2001ء میں ایک سو تین سال کی عمر میں ریٹائر ہوئی تھیں، ایک سو چودہ سال تک زندہ رہیں۔
05 : فرڈیننڈ الیگزینڈر پورشے، نائن الیون نامی اسپورٹس کار کے ڈیزائنر، اس مشہور برانڈ کی پہلی ماڈل کار 1960ء میں سامنے آئی تھی۔
06 : فینگ لزہی، جو طبیعات کے چینی سائنسدان تھے لیکن ان کی شہرت چین کے باغی کی حیثیت ہوئی۔
انہوں نے گرفتاری کے خوف سے چین میں امریکی سفارت خانے میں پناہ لے لی تھی، تاہم خفیہ مذاکرات کے بعد چینی حکومت نے لزہی اور ان کے خاندان کو ترک وطن کی اجازت دے دی تھی۔
07 : بشیر قریشی، چیئرمین جیئے سندھ قومی محاذ اور سندھ میں علیحدگی پسندی کے پیروکاراچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے، بعد میں ان کی وجۂ موت متنازع بن گئی تھی۔
بشیر قریشی نے رتو ڈیرو سے 1974ء میں میٹرک اور شکارپور سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام میں داخلہ لیا۔
یہاں انہوں نے جی ایم سید کے نظریات سے متاثر ہو کر جیئے سندھ اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرلی۔
ضیاء الحق کے مارشل لاء اور اس کے بعد کے ادوار میں بشیر قریشی نے بارہا قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور کئی برس اسیری میں گزار دیے۔
اسیری کے دوران ہی انہیں 1995ء جیئے سندھ قومی محاذ کا ڈپٹی کنوینئر منتخب کیا گیا۔ 1998ء میں وہ اس تنظیم کے چیئرمین منتخب ہوئے اور آخری دم تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔
09 : مریم فاروقی، پاکستان میں تعلیمی شعبے کی بنیاد رکھنے والوں میں جن کا شمار ہوتا ہے۔
11 : احمد بن بیلا، الجیریا کے انقلابی رہنما اور آزادی کے بعد الجیریا کے پہلے صدر۔
13 : سیسل چوہدری، پینسٹھ اور اکہتر کی جنگ میں جواں مردی دکھانے والے پاکستانی ہیرو۔
لیجنڈ فائٹر پائلٹ گروپ کیپٹن سیسل چوہدری کو 65ء کی جنگ میں ان کی خدمات کے اعتراف میں ستارہ جرأت جبکہ 1971ء میں شاندار کارکردگی اور بہادری کے اعتراف میں تمغہ جرأت سے نوازا گیا۔
سپاہی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ماہر تعلیم اور انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔
وہ سینٹ انتھونی کالج کے پرنسپل اور پاکستان مائینارٹیز الائنس کے ایگزیکٹو سیکریٹری بھی رہے۔
18 : سید حسن استاد، پشتو زبان کے معروف شاعر جن کے کئی مجموعہ کلام شایع ہوئے اور ایک کتاب پشتو شاعروں کے احوال زندگی پر بھی مرتب کی۔ فرنٹیئر کانسٹیبلری میں خدمات انجام دیں۔
19 : مرتضیٰ رضوی، پاکستان کے سینیئر صحافی، ڈان اخبار میں میگزین ایڈیٹر جنہیں قتل کردیا گیا تھا۔
امریکہ سے سیاست اور تاریخ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مرتضیٰ رضوی دو کتابوں کے منصف تھے، جن میں جنرل پرویز مشرف کی سیاسی سوانح عمری اور عام پاکستانیوں کے انٹرویوز شامل ہیں۔
21 : چارلس کولسن، امریکی صدر نکسن کے خصوصی مشیر برائے عوامی رابطہ، جنہیں واٹرگیٹ اسکینڈل کے حوالے سے گرفتار کیا گیا۔
قید سے رہائی کے بعد انہوں نے قیدیوں کی فلاح وبہبود کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جو امریکہ کی اس حوالے سے سب سے بڑی تنظیم ہے۔
کولسن سیاست سے بھی وابستہ رہے اور مختلف حکومتی عہدوں پر کام کرتے رہے۔
مئی
03 : فتح الملک خان یوسف زئی، افغانستان کے معروف اسکالر، شاعر، ادیب اور سابق رکن اسمبلی۔
13 : لبنیٰ آغا، پاکستانی نژاد امریکی مصورہ، جنہوں نے جدید تجریدی آرٹ اور ماضی کے اسلامی آرٹ میں خوبصورت امتزاج پیدا کیا۔
17 : ڈونا سمر، پانچ گریمی ایوارڈ حاصل کرنے والی امریکی گلوکارہ، جنہیں ستر کی دہائی میں ڈسکو میوزک سے شہرت حاصل ہوئی۔
20 : ابراہیم نفیس، پاکستانی فلم، ٹی وی، ریڈیو اور اسٹیج کے مایہ ناز اداکار۔
اپنے کيریئر کا آغاز انہوں نے ريڈيو حيدرآباد سے کيا، دوسو سے زائد فلموں اور کراچی اسٹيج کے لیے تين سو سے زائد ڈراموں ميں کام کيا۔
انہوں نے انگلینڈ سے تھیٹر کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کے آغاز پر براہ راست نشریات میں انہیں ڈرامہ میں حصہ لینے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
20 : روبن گب، برطانوی گلوکارجن کی فیملی نے ترک وطن کرکے آسٹریلیا میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
تاہم گب واپس انگلینڈ آئے، یہاں اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا اور بی گیز نامی میوزیکل گروپ میں شمولیت اختیار کرلی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے انہیں پوری دنیا میں شہرت ملتی چلی گئی۔
02 : مسز ریٹا ڈیسوزا، سینٹ لارنس گرلز اسکول کراچی کی پرنسپل جن کی خدمات صرف تعلیمی شعبے میں ہی قابل قدر نہیں تھیں بلکہ ضعیفوں اور مریضوں کی بحالی کے لیے بھی وہ متحرک رہتی تھیں۔
وہ شہر کی بہت سی فلاحی تنظیموں کی رکن تھیں اور ان کے لیے کام کرتی تھیں۔
ان کے شوہر سائرل ڈی سوزا جو پولیس میں سپرٹنڈنٹ تھے، کا کافی عرصہ پہلے انتقال ہوگیا تھا اور ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، ان کے تمام قریبی عزیز مغربی ممالک منتقل ہوچکے تھے لیکن مسز ڈی سوزا نے پاکستان سے ترک وطن کا نہیں سوچا اور یہیں پر رہ کر بانوے برس کی عمر تک فلاحی اور سماجی خدمات میں مصروف رہیں۔
جون
02 : میاں عطا ربّانی، قائداعظم محمد علی جناح کے پہلے اے ڈی سی اور سینیٹر رضا ربّانی کے والد۔
گروپ کیپٹن عطا ربّانی قائد کی وفات کے بعد رسالپور میں پاکستان ایئرفورس کے فلائٹ ٹریننگ اسکول میں فلائٹ کیڈٹ کی تربیت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
انہوں نے جبکہ وہ رائل انڈین ایئرفورس سے منسلک تھے، ساڑھے ستائیس ہزار کی رقم جو اس وقت کے لحاظ سے ایک خطیر رقم تھی چندہ کرکے قائداعظم کی خدمت میں پیش کی، حالانکہ ان کی اس سرگرمی پر ان کا کورٹ مارشل بھی ہوسکتا تھا لیکن انہوں نے غیر منقسم ہندوستان میں ہونے والے الیکشن میں مسلم لیگ کے لیے بلا جھجک یہ کام کیا۔
سات اگست 1947ء کا دن ان کی زندگی کے لیے نہایت یادگار اور ناقابل فراموش تھا کیونکہ اس روز انہوں نے قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کو جہاز کی فلائٹ سے کراچی کے ماری پور ہوائی اڈے پر پہنچایا تھا۔
انہوں نے قائد کے حوالے سے کئی کتابیں بھی تحریر کیں اور ایک انگریزی روزنامے میں کالم بھی لکھتے رہے۔
انہوں نے اپنی کتابوں میں پاکستان کے ابتدائی دنوں کی تاریخ کے بہت سے نازک پہلوؤں کو پیش کیا ہے۔
05 : رے بریڈ بری، امریکہ کے سائنس فکشن، مسٹری اور ڈراؤنی کہانیوں اور ناولوں کے تخلیق کار۔ جو کالج میں تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن دنیا بھر میں اُن کی 80 لاکھ کتابیں فروخت ہوئیں اور انہیں نیشنل میڈل آف آرٹس سے نوازا گیا۔ ان کی بہت سے ناولوں اور کہانیوں پر فلمیں اور ٹی وی سیریل بنائے گئے۔
06 : لیزلے براؤن، برطانیہ سے تعلق رکھنے والی خاتون جنہوں نے دنیا کی پہلی ٹیسٹ ٹیوب بےبی کو جنم دیا۔
وہ قدرتی طور پر ماں بننے کے قابل نہیں تھیں، انہوں نے 1976ء میں ٹیسٹ ٹیوب پر ہونے والی جدید ریسرچ کے بارے میں پڑھا تو ڈاکٹر اسٹیپ ٹوو سے رابطہ کیا اور پھر اس ریسرچ کے پہلے تجربے کے لیے تیار ہوگئیں۔
ٹیسٹ ٹیوب کے پہلے تجربے سے پیدا ہونے والی لوئزی جو اب چونتیس برس کی ہوکر ایک بیٹے کی ماں بھی بن چکی ہیں، اپنی مرحومہ والدہ کے بارے میں کہتی ہیں کہ ان کی جرأت اور ہمت نے دنیا بھر کے انسانوں کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔
13 : مہدی حسن، جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ موسیقار گھرانے میں پیدا ہونے کے سبب وہ بچپن سے میں گلوکاری کے اسرار و رموُز سے آشنا ہوچکے تھے، مگر ان کے کیریئر کا باقاعدہ آغاز 1952ء میں ریڈیو پاکستان کراچی سے ہوا، پھر اس دن کے بعد سے وہ موسیقی کی دنیا پر چھا گئے۔
انہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ فلمی غیر فلمی گیت اور غزلوں میں اپنی آواز کا جادو جگا کر انہیں امر کردیا۔
سنگیت کی دنیا میں کئی دہائیوں تک راج کرنے والے مہدی حسن اٹھارہ جولائی 1927ء کو راجستھان کے علاقے لُونا میں پیدا ہوئے۔
ان کا تعلق موسیقی کے کلاونت گھرانے کی سولہویں نسل سے تھا۔ والد استاد عظیم خان اور چچا استاد اسماعیل خان معروف دُھرپد گائک تھے۔
مہدی حسن نے سُر اور تال کے ابتدائی رموز اپنے والد اور چچا ہی سے سیکھے۔ پہلی مرتبہ بچپن میں ہی میں دھُرپد میں پرفارم کیا۔
مہدی حسن بیس برس کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ ہجرت کے بعد شدید مالی مشکلات کی وجہ سے کلاسیکی موسیقی کےاس ممتاز گھرانے کے چشم و چراغ کو سائیکل مرمت کی ایک دکان میں مزدوری کرنا پڑی۔
بعد میں کام سیکھتے سیکھتے مہدی حسن کار مکینک اور ٹریکٹر مکینک بھی بن گئے۔
اس کے باوجود مہدی حسن خان نے پہلوانی اور سنگیت کی خاندانی روایت کو نہ چھوڑا اور روزانہ موسیقی کا ریاض بھی کرتے اور اکھاڑے میں ڈنڈ بیٹھکیں بھی لگاتے۔
مہدی حسن کلاسیکی موسیقی ہی سے کل وقتی طور پر وابستہ تھے، البتہ فارغ اوقات میں غزل گائیکی کا شوق بھی پورا کرلیا کرتے لیکن جلد ہی ان کی آواز فلمی حلقوں میں کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جانے لگی۔
ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی، تمغہ امتیازاور ہلال امتیازسے نوازا۔
انڈیا میں انہیں سہگل ایوارڈ، جبکہ حکومت نیپال نے مہدی حسن کو گورکھا دکشنا بہو کا اعزاز دیا۔
طویل علالت کے بعد پچاسی برس کی عمر میں مہدی حسن کے انتقال پر جہاں سب ہی نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے تعزیت پیش کی، وہیں انڈیا کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے جو پیغام دیا وہ بے حد جامع اور مہدی حسن کے کارنامے کو واضح کرتا ہے، من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ انہوں نےاپنے نغموں کے ذریعے برصغیر کے صوفی احساسات کو لوگوں کی زندگی میں داخل کیا۔
16 : شہزادہ نائف بن عبدالعزیز، 1975ء سے لے کر وفات تک سعودی عرب کے وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز رہے۔
ولی عہد شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز کے اکتوبر 2011ء میں انتقال کے بعد انہیں ولی عہد مقرر اور ڈپٹی وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا۔
وہ نہایت سخت گیر مؤقف کے حامل سمجھے جاتے تھے اور شاہ عبداللہ کی اصلاحات کے حامی نہیں تھے۔ وہ 1952ء سے 53 تک ریاض کے نائب گورنر رہے۔
انیس سو ستر میں شاہ فیصل نے انہیں نائب وزیر داخلہ کے عہدے پر مقرر کیا۔ انہوں نے سخت سکیورٹی اقدامات سے سعودی عرب میں القاعدہ کی سرگرمیوں کو کچل دیا تھا۔
چین، فرانس اور اردن نے اعلی خدمات پر انہیں اعزازات اور تمغوں سے نوازا تھا۔
17 : فوزیہ وہاب، پاکستان پیپلز پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات اور رکنِ قومی اسمبلی۔
زمانۂ طالب علمی ہی سے سیاست اور ترقی پسند نظریات سے دلچسپی رہی۔ 1993ء میں بلدیہ عظمی کراچی کی مشاورتی کمیٹی کی رکن مقرر ہوئیں۔
پھر انہیں پیپلز پارٹی کے انسانی حقوق سیل کی کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں اور میڈیا سے ان کے رابطے مسلسل بڑھتے رہے یہاں تک کہ وہ خود انسانی حقوق کی کارکن بن گئیں۔
وہ حدود آرڈیننس اور توہین رسالت کے قانون کے خاتمے کے لیے سرگرم رہیں۔ ان کی پہلی شادی معروف صحافی وہاب صدیقی سے ہوئی، شادی کے کچھ عرصے بعد انہوں نے حسینہ معین کے ایک ڈرامہ میں بھی کام کیا۔
وہاب صدیقی کے انتقال کے بعد ان کی دوسری شادی ڈاکٹر اطہر حسین سے ہوئی۔ وہ ایک نڈر اور بے باک سیاسی کارکن تھیں اور ان کا جوشِ خطابت انہیں کئی بار مہنگا بھی پڑا، لیکن انہوں نے کبھی اس کا شکوہ نہیں کیا اور نہ ہی اپنی وفاداری تبدیل کرنے کی کوئی دھمکی دی۔
17 : پروفیسر آفاق صدیقی، ممتاز محقق، شاعر اور چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف جنہوں نے سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا۔
شاہ عبد الطیف بھٹائی اور سچل سرمست کے کلام کو اردو کا جامہ پہنانے میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان کا ایک اور کارنامہ شیخ ایاز کی نظموں کے تراجم اور ان کی اردو شاعری کا ترجمہ بھی شامل ہے۔
ان کی مادری زبان اردو تھی، لیکن انہیں سندھی زبان سے خاص محبت تھی۔ انھوں نے شاہ لطیف کے معروف رسالے شاہ جو رسالو کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کی بیشتر کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد آفاق صدیقی اپنے خاندان کے واحد فرد تھے جنہوں نے ارض پاکستان کی جانب ہجرت کی، ان کے خاندان کے باقی تمام افراد نے ہندوستان ہی میں قیام کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اپنے بل بوتے پر اپنی تعلیم مکمل کی اور شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ بتدریج ترقی کرتے ہوئے وہ پرنسپل کے عہدے تک پہنچے اور گورنمنٹ کالج میر پور خاص سے بحیثیت پرنسپل ریٹائر ہوئے۔
اس کے بعد وہ مستقل طور پر کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے اردو سندھی ادبی فاﺅنڈیشن کے نام سے ایک ادبی مجلس کی بنیاد رکھی، جس کی ملک بھر سے پذیرائی ہوئی۔
20 : امید علی شاہ، سندھ کے سابق صوبائی وزیر جو صوبائی وزیر سید علی نواز شاہ رضوی کے بڑے بھائی تھے۔
22 : عبید اللہ بیگ، معروف کمپیئر، ٹی وی پروڈیوسر، ماہر لسانیات، ادیب اور دانشور۔
پی ٹی وی کا پروگرام کسوٹی ان کی وجۂ شہرت بنا اور ان کی شخصیت کا عوام وخواص میں حوالہ بھی۔ ماضی کی ورق گردانی میں ان کی خاص دلچسپی تھی، تاریخ اور ادب پر ان کی گہری نظر تھی، ماحولیات کے بارے میں ان کی تیار کردہ لغت ان کا اہم کارنامہ تھا۔
انہوں نے ماحول کے بارے میں ایک جریدے کی ادارت کی اورماحول سے آگہی کے لیے مضامین بھی تحریر کیے۔
مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق بھی علمی و ادبی حلقوں میں ان کا حوالہ بنا، اس لیے کہ وہ بعض ایسی زبانیں بھی جانتے تھے جو اب متروک ہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں۔
انہیں حکومت پاکستان نے پرائڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ جبکہ پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔
اگرچہ وہ انٹرمیڈیٹ سے آگے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے تھے لیکن انہوں نے اپنے وسیع مطالعے، جستجو اور ذوق سے خود کو بلاشبہ علوم و فنون کا بحر بےکراں ثابت کیا۔
26 : نورا ایفرن، ہالی وڈ کی ممتاز اسکرین رائٹر جن کی وجہ شہرت مزاحیہ رومانوی فلمیں تھیں۔
انہیں آسکر ایوارڈ تو نہیں مل سکا لیکن تین مرتبہ انہیں اس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔
آخری برسوں میں انہوں نے اپنی کئی فلموں کے مسلسل فلاپ ہونے پر اسٹیج ڈرامے اور بلاگ لکھنا شروع کردیا تھا۔ ان کی مزاحیہ تحریروں کا مجموعہ بیسٹ سیلرز بُک کی فہرست میں شامل ہوا۔
30 : اسحاق شامیر، سابق اسرائیلی وزیراعظم جو یہودی ملیشیا کے عسکریت پسند بازو سے اُبھر کر منظر عام پر آئے تھے۔
اسرائیل کے دائیں بازو کے سیاست دانوں میں وہ کٹرپن مزاج رکھتے تھے، انہوں نے ہمیشہ فلسطین کے ساتھ سمجھوتوں کی مخالفت کی۔
اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن غوریون کے بعد شامیر طویل عرصے تک حکومت کرنے والے دوسرے وزیر اعظم تھے۔
جولائی
07 : ارشاد گلابانی، سندھ کے معروف صحافی اور ریڈیو پاکستان کراچی کے میزبان جو سندھی اخبار سے بائیس برس سے وابستہ تھے۔
وہ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے منسلک رہے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے مختلف تحریکوں میں حصہ لیا، اس سلسلے میں انہیں قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلنا پڑیں۔
ریڈیو پر ان کا پروگرام مہران آن لائن سامعین میں بہت مقبول تھا۔
17 : اسٹیفن کووے، امریکی ماہر تعلیم، مصنف، بزنس مین اور قومی سطح پر مقبول مقرر جن کی کتاب ’متاثر کن شخصیت کی سات عادتیں‘ کی دو کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں اور بیسٹ سیلرز بک کے کئی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
ان کی کتابوں کے 38 مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے اور ہر زبان میں ان کی کتاب کی فروخت دس لاکھ کے لگ بھگ ہوئی۔
18 : راجیش کھنّہ، بالی وڈ کے وہ پہلے سپر اسٹار، ساٹھ اور ستر کی دہائی کے دوران جن کی ہر فلم نے باکس آفس پر کامیابی حاصل کی۔
انہوں نے اپنے کیرئیر میں 180 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ تین مرتبہ بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
وہ پانچ سال تک انڈین پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہے۔ کئی دہائیوں تک فلمی اسکرین پر چھائے رہنے والے راجیش کھنّہ انیس سو بیالیس میں پاکستان کے شہر بورے والا کے ایچ بلاک میں واقع آبائی گھر میں پیدا ہوئے۔
راجیش کھنہ کے والد لالہ ہیرا نند کھنہ بوریوالا میونسپل کمیٹی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے جو مارچ 1947 میں اس سکول سے ریٹائر ہوئے اور 1948 میں تقسیم ہند کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ امرتسر چلے گئے۔
راجیش کھنہ نے اداکاری کے ساتھ پروڈکشن میں بھی بڑا نام کمایا۔ مہیش بھٹ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ راجیش کھنہ ایک کلچرل آئیکون تھے۔ فلموں کی دنیا میں ان کا کارنامہ ہندوستانی سنیما کے اس مخصوص زمانے کی نشاندہی کرتا ہے جو معصومیت اور رومانس سے جڑا ہوا ہے۔
ہندوستانی سینیما اور عام زندگی میں ان کو 'کاکا' کی عرفیت سے پکارا جاتا تھا۔ گزشتہ سال جون سے ان کو کئی امراض کی وجہ سے پیچیدگیوں کا سامنا تھا۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں خوراک انتہائی کم ہونے کی وجہ سے کمزوری بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ آخری وقت پر ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
23 : لکشمی سہگل، ہندوستان کی جنگ آزادی کی مجاہدہ اور سبھاش چندر بوس کی خواتین آزاد ہند فوج کی خواتین رجمنٹ کی رکن، جو پیشے کے لحاظ سے گائناکولوجسٹ تھیں۔
انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ میں حصہ بھی لیا تھا۔ 1971ء میں انہوں نے ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور انڈین پارلیمنٹ میں پارٹی کی نمائندگی کی۔ 2002ء میں کمیونسٹ پارٹیوں نے ہندوستان کے صدر کے انتخاب میں لکشمی کو اپنا امیدوار بنایا لیکن اے پی جے عبد الکلام نے انہیں شکست دے دی۔
23 : سیلی رائیڈ، پہلی امریکی خاتون جنہوں نے خلاء میں سفر کیا۔ وہ 1983ء میں اسپیس شٹل چیلنجر کے خلابازوں کی ٹیم کی رکن تھیں۔ اُن کے اس خلائی سفر سے صنفی تفریق کے مفروضے پر شدید ضرب پڑی۔
25 : بادشاہ زرین جان، پشتو زبان کی معروف گلوکارہ جو پچاس سال سے پشتو گیت گارہی تھیں اور ان کے گیت پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی جہاں جہاں پشتو زبان جاننے والے افراد موجود ہیں ان کے گیت بہت شوق سے سنتے تھے۔
انہوں نے سات سال کی عمر سے ریڈیو پر گانا شروع کیا، پشتو کے علاوہ ہندکو، سرائیکی، پنجابی اور اردو زبان کے گیت بھی گائے۔
ان کے مداح انہیں بی بی جان کہہ کر پکارتے تھے۔ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بھی پرفارم کیا تھا۔
31 : گور وائڈل، معروف امریکی ناول نگار، مصنف، ڈرامہ رائٹر اور سیاسی مبصر جو سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں کے سخت ناقد تھے۔
اگست
01 : شہزاد احمد، معروف شاعر اور ادیب جنہوں نے مجموعی طور پر تیس کتابیں لکھیں، جن میں سے زیادہ تر اُن کی شاعری کے مجموعے ہیں۔
ان کی کئی کتابیں نفسیات سے متعلق بھی ہیں۔ انہوں نے کئی کتابوں کے اردو زبان میں ترجمے بھی کیے، جن میں سے کچھ شاعری پر مشتمل ہیں جبکہ متعدد اہم ترین سائنسی موضوعات پر معروف کتب کے تراجم بھی کیے۔
انہیں ادبی خدمات پر نوّے کی دہائی میں اعلیٰ ترین پاکستانی اعزاز تمغہ حُسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ شہزاد احمد سولہ اپریل 1932ء میں ہندوستان کے شہرامرتسر میں پیدا ہوئے۔
تقسیم کے بعد وہ پاکستان منتقل ہوگئے۔ انہوں نے میٹرک کا امتحان امرتسر سے پاس کیا تھا۔ احمد نے 1956ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے نفسیات میں ایم ایس سی اور 1958ء میں گورنمنٹ کالج سے ہی فلسفہ میں ایم اے کیا۔
کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔
03 : اولمپین جان محمد بلوچ، معروف پاکستانی باکسر جنہوں نے 1972ء میں منعقدہ میونخ اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔
وہ انیس سوسترسے انیس سوبیاسی تک مسلسل بارہ سال قومی چیمپئین رہے۔
انہوں نے انیس سوسترمیں بنکاک میں ہونے والے ایشین گیمزمیں سلوراورانیس سوچوہتر کے تہران گیمزمیں برونز میڈل حاصل کیا۔ 1982ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پاکستانی کھلاڑیوں کی کوچنگ بھی کرتے رہے اور کئی بین الاقوامی مقابلوں میں بحیثیت کوچ ٹیم کو میڈل جیتوائے۔
10 : شمشیر الحیدری، پاکستان کے مشہور شاعر، صحافی، ڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹر۔
وہ دس سال تک سندھی ادبی بورڈ کے سیکرٹری رہے اور اس دوران ان کی نگرانی میں 175 سے زائد کتابوں کی تدوین اور ترجمہ کیا گیا۔
وہ سندھ میں ادیبوں کی سب سے بڑی تنظیم سندھی ادبی سنگت کے بانی تھے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان میں ٹیلی ویژن کے اولین سندھی اینکر اور اسکرپٹ رائٹر اور ڈرامہ نگار بھی تھے۔
وہ حیدری سندھ گریجویٹ ایسوسی ایشن کے بانی تھے۔ اس پلیٹ فارم سے انہوں نے جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک، ہر فوجی آمر کے خلاف جدو جہد کی۔
انہیں جنرل ایوب کے دورِ حکومت میں ون یونٹ کے خلاف ایک پمفلٹ شائع کرنے پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
ان کے گیت اور غزلوں کو عابدہ پروین اور استاد محمد یوسف جیسے بڑے گلوکاروں نے گایا ہے۔
21 : شمیم الرحمان، سینئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سابق صدر جو روزنامہ ڈان کے علاوہ غیرملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔
طویل عرصے پاکستان میں آزادی صحافت کے لیے ان کی جدوجہد اور صحافیوں کے لیے ویج بورڈ کے حصول کے ضمن میں ان کا کردار قابل قدر سمجھا جاتا ہے۔
25 : نیل آرمسٹرانگ، چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان اور امریکی خلا باز جب انہوں نے چاند پر قدم رکھا تو کہا تھا کہ چاند پر رکھا جانے والے 'یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کے لیے ایک عظمیم جست ہے'۔
نیل آرمسٹرونگ ، پانچ اگست انیس تینتیس میں پیدا ہوئےاور انہوں نے پہلی بار پرواز اپنے والد کے ساتھ چھ سال کی عمر میں کی اور یہ ان کا عمر بھر کا شوق بن گیا۔
پچاس کی دہائی میں انہوں نے کوریائی جنگ میں امریکی بحریہ کے پائلٹ کے طور پر شرکت کی۔
انیس سو باسٹھ میں وہ امریکی خلائی پروگرام میں شامل ہوگئے۔ اپولو گیارہ خلائی جہاز کے کمانڈر تھے۔
انہوں نے ساتھی خلا باز ایڈون آلڈرن کے ساتھ تقریباً تین گھنٹے چاند کی سطح پر گزارے۔
انہوں نے جولائی انیس سو انہتر میں اپالو مشن کے کمانڈر کی حیثیت سے چاند پر قدم رکھا اور ثابت کردکھایا کہ انسان زمین کے بندھن کو توڑ کر دیگر جہانوں تک جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
وہ ایگل نامی خلائی گاڑی کے ذریعے چاند پر اترے تھے۔ آرمسٹرانگ نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔
27 : نیوائلی الیگزینڈر، ساؤتھ افریقہ کے انقلابی رہنما جنہوں نے نیلسن منڈیلا کے ساتھ دس سال جیل میں گزارے۔
ستمبر
08 : بل موگریج، برطانوی انڈسٹریل ڈیرائنر جنہوں نے پہلی مرتبہ لیپ ٹاپ کا ڈیزائن بنایا۔
08 : احمد علی علوی، سینئر صحافی اور ممتاز دانشور جو نامور ترقی پسند دانشوروں سجاد ظہیر، ڈاکٹر عبدالحلیم اور سید سبط حسن کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔
انہوں نے صحافت کا آغاز ستر سال قبل ممبئی سے شائع ہونے والے اخبار خلافت سے کیا۔
بعد ازاں الہلال شعیب اور ملت لکھنؤ سے وابستہ ہوئے۔
مولانا عبدالحمید بھاشانی اور فیض احمد فیض کے اصرار پر وہ 1955ء میں پاکستان آئے اور یہاں مختلف اخبارات سے وابستہ رہے۔ وہ ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔
13 : لہری، جن کا اصل نام سفیراللہ صدیقی تھا، پاکستانی فلم انڈسٹری میں کامیڈین کی حیثیت سے تیس سال تک چھائے رہے۔
انھوں نے لگ بھگ سوا دو سو فلموں میں کام کیا جن میں چند ایک پنجابی فلموں کے علاوہ باقی سب اردو فلمیں تھیں۔
ستر کی دھائی میں بننے والی ہر فلم کی وہ ضرورت تھے۔ فلم کی کامیابی میں ہیرو اور ہیروئن کے بعد ان کا ہی سب سے بڑا اور اہم کردار ہوا کرتا تھا۔
وہ پاکستان، ہندوستان کی فلمی دنیا میں اپنی طرز کے منفرد اداکار تھے۔
ان کے مزاح کی خاص بات ان کے برجستہ جملے ہوتے تھے اور وہ کبھی مزاح کے لیے جسمانی حرکتوں سے کام نہیں لیتے تھے، اسکرپٹ سے ہٹ کر، سیٹ پر فی البدیہہ ڈائیلاگ کہنے والے لہری بجا طور پر فلمی دنیا میں اپنی طرز کے واحد کامیڈین تھے۔
15 : ہاجرہ مسرور، برصغیر میں حقوقِ نسواں کی علمبردار اور ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کے افسانوں اور مختصرکہانیوں کے موضوعات معاشی اور سماجی ناہمواریوں اور خواتین کے استحصال پر محیط ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی نمایاں خدمات پر 1995ء میں تمغہ حُسنِ کارکردگی دیا۔ انہیں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
ہاجرہ مسرور نے پاکستانی فلمی صنعت کے اچھے دنوں میں کئی فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے۔
ان کے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔
انہوں نے 1965ء میں بننے والی پاکستانی فلم ‘آخری اسٹیشن’ کی کہانی بھی لکھی تھی، یہ فلم معروف شاعر سرور بارہ بنکوی نے بنائی تھی۔
ان کے افسانوں کا مجموعہ 1991ء میں لاہور سے ‘میرے سب افسانے’ کے عنوان سے شائع ہوا۔
افسانوں اور مختصر کہانیوں کے علاوہ انہوں نے ڈرامے بھی لکھے تھے۔ چند سال قبل آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے بچوں کے لیے لکھی اُن کی کئی کہانیاں کتابی شکل میں شائع کی تھیں۔
ہاجرہ مسرور کی تحریریں معاشرے کی منفاقتوں کی کھل کرعکاسی کرتی تھیں، جس پر انہیں بھی منٹو اورعصمت چغتائی کی طرح سماج کے قدامت پسند حلقوں کی طرف سے بدترین تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
انہوں نے معروف صحافی احمد علی سے 1971ء میں شادی کی۔ اُس وقت وہ انگریزی روزنامہ ‘پاکستان ٹائمز’ کے ایڈیٹر تھے۔ احمد علی نے بطور ایڈیٹر روزنامہ ‘ڈان’ 1973ء میں جوائن کیا اور کراچی آگئے۔ وہ اٹھائیس برس تک ڈان کے ایڈیٹر رہے۔ ان کا انتقال ستائیس مارچ، 2007ء کو ہوا۔
17 : راجہ تری دیو رائے، پاکستان کے تاحیات وفاقی وزیر جنہوں نے سابق مشرقی پاکستان کے علاقہ چٹاگانگ کے ایک بدھ قبیلے چکما کے راجہ تھے۔ 1971ء میں بنگلہ دیش بننے کے بعد راجہ تری دیو رائے نے پاکستان منتقل ہونے کو ترجیح دی اور اسلام آباد میں رہائش پذیر ہو گئے اور اس کے بعد کبھی بنگلہ دیش نہیں گئے۔
ان کے بیٹے راجہ دیبا شیش رائے کو ان کی جگہ اپنے قبیلے کا راجہ بنا دیا گیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں ارجنٹائن میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔
وہ پاکستان میں بدھ مت کے پیروکاروں کی تنظیم آل پاکستان بدھسٹ ایسوسی ایشن کے سربراہ تھے۔
بدھ مت کمیونٹی کیلئے ان کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں سری لنکا کے صدر نے 2005ء میں انہیں سری لنکن رانجنا نیشن ایوارڈ سے نوازا۔
راجہ تری دیو رائے کو ادب سے بھی شغف تھا، انہوں نے بہت سی کتابیں بھی تحریر کیں، ان کی مشہور تصنیف ‘ دُھن کا انتقال’ یعنی ‘دی ڈیپارٹڈ میلوڈی’ ہے۔
انگریزی میں لکھی یہ کتاب چکما کی مستند تاریخ قرار دی جاتی ہے۔ انہوں نے انگریزی میں مختصر کہانیاں بھی لکھیں۔ ان کی کہانیوں کے ایک مجموعے کا اردو ترجمہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔
اُن کی ایک اور مشہور تصنیف ‘ساؤتھ امریکن ڈائری’ بھی ہے۔
22 : مقبول الہٰی، معروف محقق، شاعر، ادیب اور بیوروکریٹ۔
28 : برجیش مشرا، انڈیا کے پہلے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جنہوں نے انڈیا کی خارجہ پالیسی کی تشکیل اور امریکہ کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔
29 : آرتھر اوکس، نیویارک ٹائمز کے سابق پبلشر، انہوں نے 1963ء میں اپنے کام کا آغاز کیا، جب وہ 1997ء میں ریٹائر ہوئے تو نیویارک ٹائم ڈیجیٹلائزڈ ہونے جارہا تھا۔
اکتوبر
01 : محمد عبدالقدوس، سینئر صحافی جو خلیج ٹائم یواے ای سے گزشتہ تیس سالوں سے وابستہ تھے۔
01 : ایرک ہوبسبوم، برطانوی مؤرخ جو اپنی پوری زندگی مارکس ازم سے وابستہ رہے اور یہی ایک وجہ نے انہیں متنازعہ بنائے رکھا۔ وہ مصر کے شہر اسکندریہ کے ایک یہودی گھرانے میں 1917ء میں پیدا ہوئے تھے۔
04 : رضیہ بٹ، معروف ناول نگار جن کے ناولوں میں عام گھریلو انداز کی رومانیت نمایاں ہوتی تھی۔
اردو ادب اور خاص طور پر ناول نگاری میں جن مصنفین کا نام سر فہرست ہے ان میں رضیہ بٹ اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی تھیں۔
اُن کے سات ناولز پر فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں صاعقہ اور نائلہ بہت ہی ہٹ ہوئیں ۔ اُن کے ناول ناجیہ پر ایک ڈرامہ سیریل بھی بنایا گیا۔
ان کی دیگر معروف تصانیف میں چاہت، زندگی، آگ،سبین، آدھی کہانی اور دیگر ناول شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ریڈیو پر چلنے والی کہانیاں بھی لکھیں۔
06 : اسرار احمد، سابقہ جرنلسٹ اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے بانیوں میں سے ایک جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1946ء میں ڈان اخبار میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کیا جس کا آغاز قائداعظم محمدعلی جناح نے کیا تھا۔
11 : شیر افگن خان نیازی، سابق وفاقی وزیر اور ممتاز پارلیمنٹیرین، انہیں قانون اور آئین پر مکمل عبور حاصل تھا، وہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔
وہ کافی خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے، اکثر میانوالی میں روایتی انداز میں چادر کندھے پر رکھ کر عام لوگوں میں گھل مل جاتے تھے اور بحث و مباحثے کے بڑے شوقین تھے۔
18 : نوابزادہ محمد علی خان ہوتی، زمانہ طالب علمی میں تحریک پاکستان کے متحرک رکن رہے۔ 1943ء میں مسلم لیگ جوائن کی اور 1945ء میں مسلم لیگ کی صوبائی شاخ کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔
اس دوران انہیں گرفتار بھی کیا گیا، ساٹھ کی دہائی میں وہ مشرقی پاکستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے، جبکہ اسّی کی دہائی میں سینیٹ کے ممبر رہے اور انہیں قائد ایوان بھی منتخب کیا گیا۔
مسلم لیگ نون کے سینئر نائب صدر کے عہدے پر 2010ء میں فائز ہوئے۔ کافی عرصے سے وہ اپنی ناسازیِ صحت کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہوگئے تھے۔
21 : عظمت علی خان، سینئر سائنٹیفک جرنلسٹ اور بزم سائنسی ادب کے صدر۔ انہوں نے اُردو سائنس کالج میں شعبہ ارضیات قائم کیا۔
پی سی ایس آئی آر میں بحیثیت ڈائریکٹر پبلیکشن خدمات انجام دینے کے علاوہ مشہور سائنسی پرچے کاروان سائنس کے ایڈیٹر بھی تھے۔
21 : یش راج چوپڑا، کامیاب بالی وڈ ہدایت کار ستائیس ستمبر 1932 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے پانچ دہائیوں پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں محبت اور رومانس کی چند یادگار فلمیں دیں۔ انہوں نے امیتابھ بچن کے ساتھ بالی وڈ کی کامیاب ترین فلمیں’دیوار‘، ’کبھی کبھی‘اور ’ترشول‘ بنائیں۔
ان کی پہلی فلم ’دھول کا پھول‘ 1959 میں آئی تھی، جس کا گیت ’تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا‘ آج تک لوگوں کی یاد کا حصہ ہے۔
انہیں مختلف اعزازات سے نوزا گیا اور چھ بار نیشنل فلم ایوارڈ اور گیارہ بار فلم فیئر ایوراڈ دیے گئے جن میں چار بار بہترین ہدایت کار ایوارڈ شامل تھا۔
29 : اسد رحمان، ستر کی دہائی میں ہونے والی گوریلا جنگ میں حصہ لینے کے حوالے سے شہرت کے حامل، کچھ عرصے سے سانگی نامی ایک این جی او کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔
30 : ثمینہ راجہ، شاعرہ، ایڈیٹر، براڈکاسٹر اور ماہر تعلیم، رحیم یار خان میں 11ستمبر1961ء کو پیدا ہوئیں۔ لاہور سے ماسٹر کرنے کے بعد اسلام آباد میں مقیم ہوگئیں۔
انہوں نے غزل، نظم اور نثر میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھلائے۔
ادبی شعری سرمایہ، ہویدا، شہرِ صبا، اور وصال، خواب نائے، باغ شب، باغ دید، ہفت آسمان، پری خانہ، عدن کے رستے، دل لیلی، عشق آباد اور ہجر نامہ کے عنوان سے مجموعہ ہائے کلام شامل ہیں۔
31 : گئی آلنٹائی، نامور اطالوی آرکیٹیکٹ جنہوں نے بے پناہ مہارت سے پیرس کے ٹرین اسٹیشن کو ایک خوبصورت میوزیم میں بدل ڈالا۔
نومبر
05 : سکندر صنم، معروف کامیڈین اور اسٹیج آرٹسٹ، جنہیں فی البدیہہ جملے اور بے ساختہ اداکاری کے اپنے بے مثال فن کی بدولت ناصرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی خوب شہرت کمائی۔
اُن کو اصل شہرت ہندوستانی اداکار سلمان خان کی فلموں کا کامیڈی ری میک بنا کر حاصل کی خصوصاً تیرے نام نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
ان کی اس کاوش کو خود سلمان خان نے بھی خوب سراہا تھا۔ اُن کے والد عبدالستّار شوقین گجراتی میں شاعری کیا کرتے تھے۔
بچپن سے سکندر کا رجحان گائیکی کی طرف تھا، انہوں نے قوالیاں بھی گائیں اور اس کی ایک کیسٹ نورانی قوالیاں کے نام سے ریلیز ہوئی تھی۔
07 : امین لاکھانی، سندھ ہائیکورٹ کراچی بار کے سابق صدر۔
11 : سید اقبال حیدر، سابق وفاقی وزیر قانون۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 70 کی دہائی میں پیپلزپارٹی سے کیا۔
وہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، 2005ء میں پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے انسانی حقوق کے سلسلے میں اپنے مشن کا آغاز کیا اور ہیومن رائٹس کمشن میں فرائض انجام دینے لگے۔
وہ ہیومن رائس کمشن کے شریک چیئرمین بھی تھے۔
1981ء سے 1986ء تک متعدد بار جیل بھی گئے۔ اقبال حیدر نے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیئے۔ وہ 1991ءمیں سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔
13 : اصغر بٹ، متاز صحافی، ناول نگار اور ڈرامہ نویس سابق وزیرخزانہ و خارجہ سرتاج عزیزکےبہنوئی تھے۔
وہ اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان کراچی بھی رہے، وہ وزرات سیاحت وثقافت سےبطور جوائنٹ سیکرٹری ریٹائر ہوئے۔
انہوں نے پاکستان ٹائمز میں بطور ایڈیٹر کام کیا، جبکہ دی نیشن اخبار میں بطور ڈپٹی ایڈیٹر ایڈیٹوریل بھی خدمات سرانجام دیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے اسٹیج اور ٹی وی کے لیے ڈرامے بھی تحریر کیے، جبکہ ان کا ناول ٹوٹی کہاں کمند بھی شائع ہوا۔
16 : پروفیسر اعظم اعظم، پشتو کے نامور شاعر، ادیب۔ ڈرامہ نگار اور محقق شاور یونیورسٹی میں شعبہ پشتو اور اردو کے ساتھ ساتھ فیکلٹی آف اورینٹل لینگویجز میں ڈین کے عہدوں پر جبکہ اکیڈمی ادبیات کے ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
میری زندگی اور جیون شاعری، لشی، پشتو ادب میں کردار نگاری، پشتو ڈرامہ تحقیق اور دیگر ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ انہوں نے پی ٹی وی اور ریڈیو کے لیے بہت سے ڈرامے تحریر کیے۔
ادبی خدمات پر انہیں تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
17 : بال کشؤ ٹھاکرے، کسی زمانے میں ایک سیاسی کارٹونسٹ تھے۔ مراٹھیوں کے حقوق کے لیے اُن کی جدوجہد نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔
ٹھاکرے اپنی اسی جدوجہد کی وجہ سے ممبئی کی نوجوان نسل اور مزدور طبقے میں خاص طور پر بہت مقبول ہوئے۔
وہ انڈیا کے دائیں بازو کے شدت پسندوں میں ایک بڑا نام تھے۔
وہ اپنے پاکستان مخالف جذبات کے لیے بھی جانے جاتے تھے اور انہوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورۂ انڈیا کی شدید مخالفت کی تھی اور ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس دورے کو ناکام بنائیں۔
20 : شفقت تنویر مرزا، معروف پنجابی ادیب، روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر۔
متعدد کتابیں لکھیں جو عوام میں بے حد مقبول ہوئیں، ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی دیا۔
وہ ملک کے مشہور روزناموں جن میں تعمیر، راولپنڈی ، ہفتہ وار ہلال راولپنڈی، روزنامہ امروزاور روزنامہ مساوات سے وابستہ رہے اور آج کل ڈان اخبار سے منسلک تھے۔ پنجابی ادبی بورڈ لاہور کے چئیرمین بھی رہے۔
22 : عثمان بلوچ، فٹبال کے سابق قومی ریفری، چالیس سال سے فٹبال کے کھیل کو پورے ملک میں فروغ دینے اور فٹبال کے ٹورنامنٹ کے انعقاد میں ان کے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
26 : ارد شیر کاؤس جی، معروف کاروباری شخصیت اور بے باک کالم نگار، ابتدائی تعلیم بی وی ایس اسکول کراچی سے حاصل کی اور گریجویشن کراچی کے ڈی جے سائنس کالج سے مکمل کی جس کے بعد وہ والد کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔
1973ء میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کاؤس جی کو پاکستان ٹوارزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا منیجینگ ڈائریکٹر مقرر کیا۔ کاؤس جی ہمہ جہت شخیصیت کے مالک تھے ان کی وجہ شہرت ان کے تیکھے انداز میں لکھے گئے کالم تھے۔
کاؤس جی شہر اور ملک میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرتے ذرا بھی نہ چوکتے تھے۔
شہر قائد کیلئے انہوں نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں، وہ کئی فلاحی اداروں کے سرپرست بھی تھے۔
26 : جوزیف مری، سرجن اور سائنٹسٹ، پہلی مرتبہ 1954ء میں گردوں کا کامیاب ٹرانسپلانٹ کیا، جس پر انہیں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔
30 : منیر ملک، سابق پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر، رائٹ آرم میڈیم پیس باؤلر۔
دسمبر
06 : اللہ بچایو کھوسو، سندھ کے ممتازالغوزہ نواز، جنہیں اپنے فن کے باعث ناصرف اندرون بلکہ بیرون ملک بھی خاصی شہرت حاصل تھی۔
انہیں کئی ملکی اور غیر ملکی اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کے فن کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ بھی دیا تھا ۔
09 : پیٹرک موور، برطانوی خلانورد جنہوں نے چاند کی سطح کی نقشہ بندی کی۔
09 : نارمن جوزف، امریکی موجد جنہوں نے چھ دہائیاں قبل بارکوڈ ایجاد کیا۔
11 : روی شنکر، انڈین ستار نواز جنہوں نے برصغیر کی موسیقی کو مغرب میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہیں تین گریمی ایوارڈ بھی ملے تھے۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل موسیقی کے گروپ بیٹلز کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد انہیں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔
جارج ہیریسن نے روی شنکر کو عالمی موسیقی کا گاڈفادر قرار دیا تھا۔
20 : ایم اے ماجد، پاکستانی صحافت کے غیر معروف سپاہی، ڈان کے سابق سینیئر رکن، وہ 1955ء میں ڈان سے وابستہ ہوئے اور 2008ء کو ریٹائیر ہوئے گوکہ انہیں شہرت حاصل نہیں ہوئی لیکن انہوں نے بہت سے شہرت یافتہ لکھاریوں کو تربیت دی اور ان کی تحریروں میں نکھار پیدا کیا۔
21 : فیضان پیرزادہ، رفیع پیر تھیٹر کے روح رواں، تخلیقی ہدایت کار، پاکستان میں انٹرنیشنل فیسٹیول کا آغاز کرنے والے معروف آرٹسٹ۔
وہ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل تھے، پاکستان میں پتلی تماشے کو فروغ دینے میں ان کا اہم کردار رہا۔
22 : بشیر احمد بلور، صوبہ خیبر پختونخوا کے سینیئر صوبائی وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما جنہیں ایک خودکش حملے میں ہلاک کردیا گیا۔
انہوں نے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہ پشاور ہائیکورٹ بار کے رکن بھی رہے-
1970ء میں اے این پی جو کہ اس وقت این اے پی کے نام سے زیر قائم تھی اس میں شمولیت اختیار کی- 2008ءکے عام انتخابات میں پانچویں مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، دو مرتبہ اے این پی کے صوبائی صدر بھی رہے-
1970ءمیں انہوں نے اے این پی سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور سیاست میں اہم مقام حاصل کیا۔
2008ءکے عام انتخابات میں وہ صوبائی حلقہ پی ایف تھری پشاور سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعدازاں چوتھی مرتبہ اے این پی کے سینئر صوبائی وزیر کی حیثیت سے حلف لیا۔
وہ دو مرتبہ اے این پی کے صوبائی صدر بھی رہے۔ بشيراحمد بلور کی سياسی زندگی چاليس سال کے عرصے پر محيط رہی-
26 : پروفیسر غفور احمد، سینیئر سیاسی رہنما اور جماعت اسلامی کے نائب امیر، لکھنؤ یونیورسٹی سے کامرس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی پھر انڈسٹریل اکاؤنٹس کا کورس مکمل کیا اس کے انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینیجمنٹ اکاؤنٹس کے فیلو ہوگئے۔
تجارتی اداروں میں کام کرنے کے علاوہ آپ نے متعدد تعلیمی اداروں میں بھی پڑھایا۔
ان میں انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس پاکستان،انسٹیٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس اور اردو کالج کراچی شامل ہیں۔
تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں میں دلچسپی اور شغف کی بنا پرآپ کئی برس تک سندھ یونیورسٹی ، کراچی یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی بورڈ فار کامرس کے نصاب سے منسلک رہے۔
تیئیس برس کی عمر میں 1950ء کے دوران جماعت اسلامی کے رکن بنے۔
کئی برس تک کراچی جماعت کے امیر رہےاور آخری سانس تک مرکزی نائب امیر جماعت کے عہدے پر فائز رہے۔
تبصرے (1) بند ہیں