خارجہ پالیسی -- تناؤ اور دراڑیں
اُس وقت پاکستان، افغانستان اور ترکی کے سربراہانِ مملکت کی ملاقات میں بمشکل ایک ہفتہ باقی بچا ہوگا، جب افغان انٹیلی جنس کے سربراہ اسداللہ پر خود کش قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔
ایسا بُرا وقت کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ حملے کے فوراً بعد افغان صدر حامد کرزئی نے شک کی اُنگلی پاکستان کی طرف اٹھائی تھی۔
مبینہ طور پر اس حملے کی منصوبہ بندی کوئٹہ میں کی گئی تھی اور جب تحریکِ طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تو کرزئی ایک قدم اور آگے بڑھے۔
اُن کا کہنا تھا 'حقیقت میں یہ حملہ نوعیت کے لحاظ سے نہایت پیچیدہ تھا اور خود کش حملہ آور نے جسم کے جس انتہائی پوشیدہ حصے میں بم چھپا رکھا تھا، وہ طالبان حملے کا انداز نہیں۔'
اُن کا مزید کہنا تھا کہ طالبان اس طرح کے جدید ترین انداز میں حملہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ 'حملہ نہایت پیشہ ورانہ انداز اور تکنیک سے کیا گیا تھا۔'
اگرچہ یہ کہتے ہوئے انہوں نے نہ تو کسی کا نام لیا اور نہ ہی کوئی اشارہ دیا مگر وہ یہ سب کس کے لیے کہہ رہے تھے، سب پر واضح تھا۔
پاکستان نے اُن کا الزام مسترد کرتے ہوئے ثبوت طلب کیے تھے۔ دونوں ہماسیہ ملکوں کے درمیان کمزور اور نازک تعلقات کو جو زک پہنچتی رہی ہے، یہ اس میں سے ایک کا اظہار تھا۔
اس سے صرف ایک ماہ پہلے ہی پاکستان نے افغان حکومت کی درخواست پر اپنے ہاں قید متعدد طالبان کمانڈروں کو رہا کیا تھا۔ اس کا مقصد افغانستان میں استحکام کے لیے امن کوششوں میں مدد فراہم کرنا تھا۔
افغانستان نے پاکستان کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ وہ اس طرح کے مزید اقدامات بھی کرے گا۔
معاملہ گرم تھا کہ بیچ میں پاکستانی وزیرِ داخلہ رحمان ملک کود پڑے۔ انہوں نے افغانستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین پرروپوش، پاکستان کو مطلوب اور سوات سے مفرور مولوی فضل اللہ اور باجوڑ سے تعلق رکھنے والے تحریکِ طالبان پاکستان کے رہنما مولوی فقیر محمد کو اُن کے حوالے کرے۔
لیکن ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے باوجود محسوس یہی ہوتا تھا کہ دونوں ملک افغانستان میں ممکنہ سیاسی لائحہ عمل کے لیے ایک قدم آگے بڑھنے کے خواہاں ہیں۔
اگرچہ اب تک یہ واضح نہیں کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کشیدگی کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے یا پھرجیسا کہ پہلے تھا، یہ پلٹ کر ایک بار پھر 'غیر ملکی تسلط' کے خلاف لڑنے لگیں گے۔
لیکن اس مرتبہ، محسوس یہی ہوتا ہے کہ اسلام آباد ملک میں قیامِ امن کی جستجو کی خاطر کابل کو کچھ رعایت دینے پر آمادہ ہے۔
لگتا یہی ہے کہ اب باری پاکستان کی ہے، جیسا کہ صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ محترمہ حنا ربّانی کھر نے اسے 'اسٹریٹیجک ہینگ اووَر' اور 'ہسٹاریکل لگیج' یا حکمتِ عملی کی سردردی اور تاریخی بوجھ قرار دیا تھا مگر افغانستان میں امریکی قدم کے حوالے سے یہ اب بھی محتاط ہیں۔
افغان بدستور ان کے لیے تاریخی بوجھ ہیں۔ محترمہ کھر کے لب و لہجے سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ اب اس تاریخی بوجھ کو اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تمام پتّے اس وقت تک میز پر نہیں پھینکے گا، جب تک امریکا بھی ایسا نہیں کرتا۔
اب جب کہ اس وقت سے لے کر اگست، سن دو ہزار چودہ میں، افغانستان سے امریکا کے طے شدہ انخلا میں کم وقت رہ گیا ہے تو پاکستان بھی خطّے کی بساط پر اپنی حکمت عملی کے تحت، نہایت احتیاط سے چالیں چلتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان امریکی مقاصد اور خطّے میں اس کے منصوبوں پر بھی نظریں گڑائے بیٹھا ہے۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران، دونوں اتحادیوں کے باہمی تعلقات نرم گرم، اتار چڑھاؤ اور کشیدگی سے بھرپور رہے ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کا قضیہ، القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر حملہ اور ان کی لاش اٹھا کر لے جانے کا معاملہ، سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ، پاکستان کی طرف سے نیٹو سپلائی کا بند کیے جانا اور پھر سلالہ واقعے پر امریکا سے معافی کا مطالبہ۔ یہ تمام معاملات اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان مراسم کو بے مہری کی انتہائی نچی سطح تک لے گئے تھے۔ بالآخر، کافی آنا کانی ہونے کے بعد امریکا نے معافی مانگ لی اور پاکستان نے نیٹو سپلائی بحال کردی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ملکوں کی افواج اور خفیہ ایجنسیوں کے باہمی تعلقات میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی۔
اور بہت سی دوسری چیزوں کے علاوہ، امریکا اتحادی ممالک کے طور پر کولیشن سپورٹ فنڈ کے روکے گئے چھ سو ملین ڈالرز کا فنڈ پاکستان کو جاری کرنے پر بھی آمادہ ہوگیا۔
اگرچہ ڈرون حملے بدستوردونوں ملکوں کے درمیان ایک مسئلہ کی صورت موجود رہا، تاہم پاکستان ہچکچاہٹ کے ساتھ، اس کی مکمل مخالفت سے یہ کہتا ہوا ذرا پیچھے ہٹا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کے حملے اس کی خود مختاری کے خلاف ہیں۔
اس سے اس کے دفاع پر اثر پڑتا ہے اور بات ڈرون کی نہیں مگر اس کے نتیجے میں جن بے گناہوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں، وہ غلط ہے۔
ان دونوں ملکو ں کی افواج کے درمیان بارڈر کوآرڈینیشن سطح کے اجلاس بھی ہوئے۔
پاکستانی عسکریت پسند جو سرحد پار سے پاکستانی چوکیوں اور علاقوں پر حملہ کرتے ہیں، انہوں نے اپنے حملے روک دیے۔ یہ اور بات کہ 'جنگ بندی' کا سبب سرما کا دشوار ترین موسم تھا۔
امریکا نے پاکستان کے مفرور عسکریت پسندوں سے متعلق خفیہ معلومات دینے کے لیے بھی کہا لیکن پاکستان کا جواب تھا کہ اس ضمن میں وہ اپنے امریکی ہم منصبوں کو اس قسم کی معلومات پہلے ہی دے چکا ہے بلکہ اس بارے میں ان سے رابطوں میں بھی رہا اور اب وہ دوسری طرف سے عمل کا منتظر ہے۔
امریکا نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کی ضرورت پر عوامی سطح پر دیا گیا بیان واپس لیا۔
پاکستان کے لیے نئے امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے منصب سنبھالنے کے بعد کہا کہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔
یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ موقع فراہم کرنا چاہتے تھے کہ پاکستان اپنے سیکورٹی معاملات سے متعلق از خود فیصلے کرکے عوامی حمایت حاصل کرسکے۔
اس کی ایک وجہ امریکی عوامی دباؤ کے باوجود فوجی قیادت کا شدت سے پُر قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن سے گریز کرنا بھی تھا۔ جی ایچ کیو نہیں چاہتا تھا کہ وہ امریکا کے کہنے پر اس طرح کی کارروائی کرے۔
آنے والا سال پاکستان امریکا اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے حوالے سے نہایت سنجیدگی کا حامل ہوگا۔
امکان ہے کہ طالبان کے حملوں میں تیزی آئے گی۔ تاکہ وہ امریکا اور کرزئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر اپنا قد اور وزن بڑھا سکیں۔
امریکا ہر حال میں اپنے ٹائم فریم کے مطابق افغانستان سے انخلا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اس بات سے یہ پریشانی لاحق ہے کہ وہ اپنے پیچھے ایک غیر مستحکم افغانستان چھوڑ کر جاسکتا ہے۔
صورتِ حال کو مزید پیچیدہ تر سیکورٹی کے معاملات بناتے ہیں جو صرف مغربی ہمسائے کے اندر ہی نہیں بلکہ اُن کے پچھواڑے میں واقع قبائلی علاقوں کی صورت، خود پاکستان کا مسئلہ بھی ہے۔
افغان تنازعے میں ایک کلیدی فریق ہونے کے ناطے وہ مستقبل کے کسی بھی معاہدے میں اپنے مفادات کو بھی تحفظ کی چھتری فراہم کرنا چاہتا ہے۔
معاملہ طے ہوتا ہے یا سیاسی حل کی کوششیں پٹڑی سے اترتی ہیں۔ امکان ہے کہ آنے والے سال میں تمام تر امکانات کی واضح شکل ابھر کر سامنے آجائے گی۔
مضمون نگار 'ڈان' کے پشاور میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
ترجمہ: مختار آزاد
تبصرے (1) بند ہیں