• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

جناح صاحب بمقابلہ قائد اعظم

شائع December 31, 2012

jinnah-dogs670
محمّد علی جناح -- فائل فوٹو

قائداعظم محمد علی جناح کوٹ پینٹ پہننا پسند کرتے تھے یا شیروانی؟ ان کا دلپسند مشروب  کچی لسی تھا یا وہ کسی اور خمار آگیں مشروب کے  بھی شائق تھے؟ انہوں نے ترکی ٹوپی پہنی یا انگریزی ہیٹ ہی زیب سر رہا؟ جناح کیپ پہلی بار کب کہاں اور کس کے مشورے پر پہنی؟ انہیں قائد اعظم پہلی بار کس نے کہا اور یہ لقب سن کے وہ کھلکھلا کے ہنسے تھے یا صرف زیر لب تبسم فرمایا تھا؟ یہ سب ایسے عنوانات ہیں جن پر پاکستانی محقق بلا مبالغہ ہزاروں صفحات لکھ چکے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کے لباس سے لے کر ان کی عادات اور ان کی گاڑیوں سے لے کر ان کی بیماریوں تک ہر چیز پر دفتر کے دفتر لکھے جاچکے ہیں۔

عنوانات کے تنوع کو دیکھتے ہوئے کچھ ستم ظریف تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی بیگمات کے تقابلی جائزے کے علاوہ اب ان پر کچھ لکھنے کی گنجائش کم سے کم اردو کے دامن میں باقی نہیں۔

ایک بات جو اتنی تحقیق کے باوجود ثابت نہیں ہو سکی وہ یہ کہ قائد اعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے یا ان کی قیادت میں بننے والے ملک میں اسلامی نظام قائم کیا جانا چاہئے۔

پاکستان کو کلمہ پڑھاتے پڑھاتے اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جناح صاحب کے ایمان کے گواہ اور مذہب تبدیلی کے سرٹیفیکیٹ تلاش اور حسب ضرورت پیدا کیے جا رہے ہیں۔

جناح کے پاکستان میں ان پر اور  ان کے بنائے ملک کے نظام اور نظریے پر لکھے جانے والے اخباری کالموں میں جناح صاحب اور قائداعظم دو مختلف بلکہ متضاد شخصیات نظر آتی ہیں۔ جناح صاحب کوٹ پینٹ پہنے ٹائی لگائے انگریزوں کی طرح بلکہ ان سے بہتر انگریزی بولنے والی ایک ایسی شخصیت ہیں جو اپنے لاؤنج میں بیٹھے ہوں تو سگار ان کے ہونٹوں میں دبا ہوتا ہے اور "مشروب مغرب" کا جام ان کے ہاتھ میں۔ جب کہ سامنے میز پر بھنا ہوا جگر مرغ اور نمکین بادام بھی پلیٹ میں دھرے نظر آتے ہیں۔

ادھر قائداعظم ہیں کہ گھر سے باہر شیروانی کے سوا کچھ بھی پہننا گناہ سمجھتے ہیں۔ درست عربی قرات کے ساتھ بات بات پر انشااللہ اور ماشااللہ کی گردان کرتے ہیں مرغ مسلم کھانے کے بعد باقائدہ ڈکار ادا کرتے ہیں اور پیٹ پر ھاتھ پھیر پھیر کر مسرور ہوتے ہیں۔

قائد اعظم کو حسب ضرورت تلوار بدست گھوڑے پر سوار بھی دکھایا جا سکتا ہے اگر چہ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ شادی کے علاوہ وہ کون سا معرکہ ہو سکتا ہے جس میں شہید ہونے کے لئے انسان شیروانی پہن کر گھوڑے پر بیٹھ سکتا ہے۔

جناح کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے جہاں گیارہ اگست کی تقریر، انگریزی لباس اور زبان سے شغف اور ہونٹوں میں دبا سگار اور ہاتھ میں تھاما "مشروب مغرب" کا جام کام آتا ہے وہاں ان کو مرد مومن بنانے  کے لئے لنکنز ان میں داخلے کی حکایت، اقبال کی ان سے عقیدت اور علامہ شبیر احمد عثمانی کے خواب مدد کو آتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جناح اور قائداعظم دونوں کی قلمی تصویر کھینچنے والے ان کو بھی اور خود کو بھی جمہوریت پسند کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ نظام اور مذہب کی اس بحث میں اسلامی نظام کے حامیوں کا قائداعظم کو بحث میں گھسیٹنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے یہاں کسی بھی چیز کی دلیل ماضی کی کسی متبرک اور معصوم عن الخطا شخصیت کا اس کا حامی ہونا ہوتا ہے لیکن سیکولر ازم کے حامی کوٹ پینٹ اور "مشروب مغرب" سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ سمجھنا مشکل ہے۔

کیا پاکستان میں کوئی نظام اس لئے ہونا چاہیے کہ جناح صاحب ایسا چاہتے تھے؟ یا پاکستان میں اس نظام کی حمایت کی جانی چاہئے جو پاکستان کے لوگوں اور ان کے آزادانہ منتخب کردہ نمائندوں نے بنایا ہو یا وہ بنائیں؟ کیا شخصیت پرستی جمہوریت کی نفی نہیں اور کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کے اداروں کے کردار پر بات کی جائے نہ کے شخصیات پر کیونکہ جناح صاحب شیروانی پہنتے تھے یا کوٹ، ثرید کھاتے تھے یا پڈنگ پاکستان میں پہننے کو کفن اور کھانے کو دھکے ہی دستیاب ہیں۔


Salman Haider شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں

سلمان حیدر

شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

انور امجد Jan 01, 2013 01:52am
بہت اچھا تجزئیہ ہے۔ ملکی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تمام حکومتی فیصلے جمہوری طریقے سے ہوں ناکہ شخصی نظریات پر۔ پاکستانی سیاست بھی صحیح کامیابی اسی وقت حاصل کرے گی جب سیاسی پارٹیاں بھی جمہوری طریقہ سے اپنے رہنما منتخب کریں گی اور ہمیشہ کسی خاص شخصیت کے زیر اثر نہ رہیں۔ سیاست دان با عزّت طریقے سے ریٹائر ہونا بھی سیکھیں بجائے اس کے کہ لوگ ان کو جوتے مار کے نکالیں۔
Humaira Zulfiqar Jan 01, 2013 08:55am
Good
Salman Haider Jan 01, 2013 08:57am
Shukria Anwar Amjad sahab. siyasi partyon main jamhoriyat ki bohat zarorat hy laikin jahan tuk sayasatdan kay retire honay ka taluq hay main aap say ikhtilaf karon ga. jub siyasatdan irrelavent ho jata hy to loag usay khud retire kur daytay hain. retirement hamary han sirf aik shobay main nahin hoti umeed hy wo aap mujh say behtur jantay hain. :)
Salman Haider Jan 01, 2013 08:57am
Shukria Humaira
Tariq Waris Jan 01, 2013 01:54pm
آپ درست کہتے ہیں کہ ہمیں شخصیات کی بجائے نظریات اور اداروں کی اہمیت اور مبوپطی پر توجہ دینی چاہیے۔عوام کی رائے کو بھی مقّدم جانا جائے۔ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کو اصلی جناح سے واقف کروایا جائے جو ایک نارمل انسان تھا اگرچہ انتہائی ذہین وکیل اور نہائت قابل سیاستدان۔ جناح صاحب کا احترام تو ہم سب پر واجب ہے لیکن ان کی شخصیت وسیاست کوبالائے تنقیدو سوال قرار دینے سے نہ صرف تحریک پاکستان میں انکے ساتھ شامل دیگر شخصیتوں کے کردار کو وہ پذیرائی نہ مل سکے جس کے وہ حقدار تھے بلکہ اکیسویں صدی کے پاکستان کے مسائل کو سلجھانے کے لئے بھی ہم پینسٹھ سال پیچھے ہی دیکھتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اُس دور کے حالات وواقعات اور چیلینجز ہم سے بہت فرق تھے۔ جناح صاحب زندہ ہو کر واپس آئیں تو شاید ضرور ہمیں یہ نصیحت فرمائیں کہ بیٹا اپنے عہد میں جینا سیکھو ۔ ہر مسئلےکے حل کےلئے میری طرف نہ دیکھا کرو۔ اپنے قدموں پر کھڑے ہونا سیکھو۔ اپنے عہد میں جینا سیکھو۔ شخصیات کی بجائے نظریات پر بحث کرو۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024