خون خرابے کا اندیشہ: الیکشن کے التوا کا خطرہ؟
یوں تو الیکشن سے قبل اس طرح کے بیانات اب ہمارے ہاں ایک روایت کی سی صورت اختیار کر گئے ہیں کہ اگر ہماری توقعات کے مطابق الیکشن کے نتائج نہیں آئے تو پھر ملک میں زبردست خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔
دراصل ہمارے ہاں الیکشن میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتیں خود کو ہی اقتدار کا اہل سمجھتی ہیں اور مخالف پارٹیوں کو کرپٹ اور نااہل، لیکن اگر بغور ان پارٹیوں کا جائزہ لیا جائے تو مخصوص افراد کا ایک گروہ نظر آتا ہے جو گویا ان پارٹیوں کے مابین میوزیکل چیئر کا گیم کھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
یہ لوگ جس پارٹی میں براجمان ہوں تو اُس پارٹی میں مدبّر اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک سمجھے جاتے ہیں جبکہ مخالف جماعت کے لیے نہایت کرپٹ اور نااہل، لیکن پارٹی بدلنے کی صورت میں یہ پھر اپنی سابقہ پارٹی کے نزدیک کرپٹ افراد کی فہرست میں نہایت بلند مرتبے پر فائز ہوجاتے ہیں، اور حالیہ جماعت کے لیے ان کی حیثیت بھی بدل جاتی ہے، یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
عمران خان تو کافی دنوں سے یہ بیانات دے ہی رہے تھے کہ اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو خون خرابہ ہوگا۔ یعنی خان صاحب کو یہ پختہ یقین ہے کہ صرف دھاندلی کی صورت میں ان کی جماعت کو الیکشن میں ناکامی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
لیکن یہ صرف عمران خان کا ہی مؤقف نہیں ہے، دیگر رہنما بھی اسی طرز کے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔
چونکہ ایسے بیانات اب روایت بن چکے ہیں تو عموماً لوگ اس پر زیادہ توجہ بھی نہیں دیتے۔ لیکن بدھ 26 دسمبر کو روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک خبر سے بہت سوں کا ماتھا ٹھنکا ہے اور اس پر تشویش میں مبتلا ہونا بجا بھی ہے۔
خبر کے مطابق ایسے موقع پر جبکہ حکومت بروقت انتخابات کرانے پر اصرار کررہی ہے، انٹیلی جنس ذرائع نے خبردارکیا ہے کہ اس مرتبہ الیکشن میں اتنا خون خرابہ ہوگا کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
انٹیلی جنس ذرائع نے یہ وارننگ دہشت گردی کی حالیہ لہر جس میں اے این پی کے رہنما بشیر بلور بھی ہلاک ہوئے ہیں، کے تناظر میں دی ہے۔
ذرائع کے مطابق دہشت گرد انتخابی مہم کے دوران بڑی سیاسی شخصیات کونشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں لیکن اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حکومت کو الیکشن ملتوی کرنے کی تجویز بھی دی ہے یا نہیں۔
جبکہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اٹھارہ دسمبر کو میڈیا کے نمائندوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات اُسی صورت مؤخر ہوسکتے ہیں، جب ملک خانہ جنگی کی صورتحال سے دوچار ہوجائے۔
لیکن طاہرالقادری نے وطن واپس لوٹتے ہی لاہور میں ایک منظم اور بڑے جلسہ عام کے ذریعے ملک کے سیاسی ماحول میں تلاطم کی سی کیفیت پیدا کرنے بعد یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو پھر وہ الیکشن ہونے ہی نہیں دیں گے۔
اس حوالے سے بہت سے ذہنوں میں کئی سوالات بھی اُبھر رہے ہیں، مثلاً یہ کہ کہیں ان کے ارادوں کو پس پردہ ایسی قوتوں کی حمایت تو حاصل نہیں جو ملک پر حقیقی معنوں میں حکمران ہیں اور ہم جو چہروں کو بدلتا دیکھتے ہیں یہ ان کی ہی مرضی و منشاء پر منحصر ہوتا ہے۔
الیکشن کے التواء کے حوالے سے بعض حلقوں میں پہلے بھی باتیں کی جاتی رہی تھیں، تاہم ان میں اتنا وزن نہ ہونے کی وجہ سے کسی نے خاص توجہ نہیں دی، لیکن طاہرالقادری نے دوٹوک الفاظ میں یہ بات کی ہے کہ اگر نظام بدلنے میں کچھ وقت لگتا ہے تو انتخابات ملتوی کیے جاسکتے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 254 کی رو سے آئین خود یہ اجازت دیتا ہے کہ اگر کسی کام کو مکمل کرنے میں آئینی مدت سے زیادہ کا عرصہ لگ جائے تو وہ اقدام غیر قانونی نہیں ہوگا۔ ان کا سوال ہے کہ نوّے دن کی رٹ لگانا ضروری ہے یا آئین کی شرائط پر عمل کرنا؟
انہوں نے آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انتخاب کا طریقہ کار اِن شقوں کے تابع ہونا چاہئیے اور جو فرد ان پر پورا نہیں اُترے، اسے انتخابات میں حصہ لینے کا حق نہیں ہونا چاہئیے۔
واضح رہے کہ یہ شقیں ضیاءالحق کے دور ِآمریت میں آئین کا حصہ بنی تھیں، ان شقوں کی رو سے نیک انسان کا ایسا تصور قائم ہوتا ہے جو مسجد کے اندر نیک ہو، مسجد سے باہر اس کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے۔
مثال کے طور پر شراب پینے والے کو اس شق کی رو سے الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہونا چاہئیے، لیکن سو سے ہزار گنا منافع کمانے والے تاجروں، اپنی جاگیروں کی حدود میں انسانیت سوز ظلم کو روا رکھنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں کو جو برسوں سے عوام کا خون پیئے جارہے ہیں پر کوئی روک نہیں لگائی گئی ہے۔
طاہرالقادری نے لاہور کے جلسہ کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے پہلے تو نگران حکومت میں فوج کے کردار کی حمایت کی تھی، پھر اگلے ہی دن فوج اور عدلیہ کی زیرنگرانی قائم ہونے والی مجوزہ نگران حکومت میں خود کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے بھی پیش کردیا ہے۔
ان کے مطالبات کو صرف ایم کیوایم کی حمایت حاصل ہے، اخباری اطلاعات کے مطابق ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبہ کی بھرپور تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے نظام میں حقیقی تبدیلی کے لیے انتخابی نظام میں اصلاحات ضروری ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن سمیت بڑی سیاسی جماعتوں نے طاہرالقادری کے مطالبے کو رد کردیا ہے، جس پر عملدرآمد کے لیے انہوں نے ایک اطلاع کے مطابق سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نامور وکلا سے صلاح مشورے بھی شروع کردیے ہیں۔
گو کہ جماعت اسلامی کے امیر منورحسن بھی طاہرالقادری کی طرح الیکشن کے انعقاد میں فوج کے مؤثر کردار کی پُرزور حمایت کر چکے ہیں، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اس کردار کو محض نمائشی نہیں ہونا چاہئیے بلکہ فنکشنل اور دھاندلیوں کے خاتمے کے خلاف بااختیار ہونا چاہئیے۔
لیکن منور حسن الیکشن کے التواء کے کسی مطالبے کی حمایت نہیں کرتے، بلکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران الیکشن ملتوی کرنے کے کسی بھی اقدام کی مذمّت پر مبنی اُن کے بیانات تواتر کے ساتھ سامنے آئے تھے اور آٹھ اکتوبر کو اپنے ایک بیان میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ الیکشن ملتوی کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف وہ تحریک چلائیں گے۔ جبکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات ملتوی کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔
ہمیں تو لگتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی روایات اس لیے پنپ نہیں پاتیں کہ وہ تمام اندرونی اور بیرونی قوتیں جو ملک میں نظام حکمرانی پر اپنا کنٹرول قائم رکھے ہوئے ہیں اور اسے ہر صورت برقرار رکھنا چاہتی ہیں، شاید ان کے مفاد میں ہی نہیں کہ یہاں حقیقی معنوں میں جمہوری نظام قائم ہوسکے۔
پاکستان کی آزادی کے بعد سے اب تک کسی بھی منتخب حکومت نے اتنی زیادہ مدت تک حکمرانی نہیں کی، اس لیے کہ اس عرصے کے دوران فوجی یا جمہوری، جس طرز کی بھی حکومت ہوتی اُسے بہرصورت عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ کے تحت بنیادی ضروریات پر سبسڈیز کے خاتمے جیسے سخت فیصلے کرنے ہی پڑتے۔
جس ملک میں پہلے ہی بیشتر شعبوں پر حکومتی رٹ قائم نہ ہو وہاں عوام کو دی جانے والی چند سہولتوں کے خاتمے کو اب اور کیا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ شاید سخت سے سخت مارشل لاء لگانے والا جنرل بھی ایسے کسی انتہائی اقدام سے گریز کرتا۔
کیونکہ پھر اسے انہی سیاسی جماعتوں کے مشترکہ ایجی ٹیشن کا سامنا کرنا پڑتا، جن سیاسی جماعتوں نے پانچ سال مخلوط حکومت کے تحت اس انتہائی اقدام کی بظاہر حمایت تو نہیں کی لیکن زبانی کلامی احتجاج سے بڑھ کر کسی مخالفانہ قدم اٹھانے سے ہمیشہ گریز کیا۔
یہ سبسڈیز کے خاتمے کا نتیجہ ہی تو ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں دوران مہنگائی میں اضافے کی شرح اس سے قبل کے دس سالوں کی مہنگائی کی شرح سے بھی بڑھ چکی ہے۔
ملکی و بین الاقوامی سیاست کے پیش منظر و پس منظر کو دیکھا جائے تو طاہرالقادری کے مطالبات اور ان کے عزائم مقتدر قوتوں کے کسی نئے پلان کا حصہ ہی معلوم ہوتے ہیں، ڈر ہے کہ اس کے تحت کہیں لولی لنگڑی جمہوریت کی یہ بساط بھی لپیٹ نہ دی جائے۔
تبصرے (1) بند ہیں