متنازع مصری آئین قانون کا حصہ بن گیا

قاہرہ: مصر کے صدر محمد مرسی نے اپنے اسلامی اتحادیوں کی جانب سے بنائے گئے آئین کے مسودے پر دستخط کر کے اسے قانون کی شکل دیدی ہے، ان کا کہنا ہے کہ نئے آئین سے سیاسی بحران حل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی صورتحال بہتر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
نئے آئین کے متعلق ترقی پسند حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ یہ 2011 میں لائے گئے انقلاب کے منافی ہے اور اس میں مذہب اور سیاست کو انتہائی خطرناک طریقے سے یکجا کردیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں مصر میں اس آئین کیخلاف حزب اختلاف کی اتحادی جماعتوں نے مظاہرے بھی کیے تھے اور اس دوران حکومت اور اپوزیشن کے حمایتی افراد میں جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
آئین پر دستخط کرنے کے بعد تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ عوام سے اپنے پہلے خطاب میں محمد مرسی نے کہا کہ اس وقت تمام سیاسی قوتیں اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے ملکی استحکام کیلیے کام شروع کردیں۔
مرسی نے ٹی وی پر نشر کی جانے والی تقریر میں کہا کہ "میں آپ لوگوں کے ساتھ مل کر مشکلات سے دوچار معیشت کو بہتر بنانے کی تمام تر کوششیں کروں گا اور اس میں آگے بڑھنے کے بہت مواقع موجود ہیں"۔
نتائج کے اعلان کے فوراً بعد جس میں بتایا گیا تھا کہ ریفرنڈم کو مصر کے عوام کی اکثژریت حاصل ہے، ایوان صدر نے بدھ کو اعلان کیا کہ صدر نے گزشتہ شام ہی باقاعدہ طور پر آئین منظور کر لیا تھا۔
تقریباً 64 فیصد عوام نے آئین کے حق میں ووٹ دیا جس سے دو ماہ کے بعد ہونے والے پارلیمانی الیکشن کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
میثاق میں کہا گیا ہے کہ قانون سازی کیلیے شریعت اور اسلامی قوانین سے مدد لی جائے گی اور اسلامی حکام سے شریعت پر مشاورت کی جائے گی جس پر عیسائیوں کی اقلیتی برادری اور دیگر نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اپنی تقریر میں مرسی نے کہا کہ وہ مصر کو سرمایہ کاروں کیلیے پرکشش بنانے کیلیے مراعات کا اعلان کریں گے اور اپنے منصوبوں کے تحت کابینہ میں ردوبدل پر بھی غور کریں گے۔
تبصرے (1) بند ہیں