پرنٹ میڈیا کا دور خاتمے کے قریب ؟
ہمارے اکثر بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ کنواں پیاسے کے پاس چل کر نہیں جاتا بلکہ پیاسے کو کنواں خود تلاش کرنا پڑتا ہے۔
یہ مثال اس حوالے سے بیان کی جاتی تھی کہ جسے علم کی طلب ہو وہ خود ہی اُستاد کو تلاش کرے، اس کے سامنے زانوئے تلمیذ تہہ کرے اور پھر زندگی بھر اس کی خدمت کرے۔ استاد کے سامنے آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے، جو اُستاد فرمائے حرفِ آخر سمجھ کر گرہ میں باندھ لے۔
تو جناب یہ طویل اور کٹھن طریقہ کار تھا علم کی تحصیل کا۔ جس میں علم کم ادب زیادہ تھا، بلکہ علم اکثر ہوتا ہی نہیں تھا، صرف ادب آداب میں عمر تمام ہوجاتی تھی، جبکہ علم کا حصول تو سوال سے ہی ممکن ہے، جس کو اُس وقت سخت گستاخی سمجھا جاتا تھا۔
لیکن کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے میدان میں دن رات ہونے والی ترقی نے تمام فرسودہ روایات کو باطل ثابت کرکے رکھ دیا ہے۔
اب ابلاغیات کا سیل رواں گوگل، فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس کے ذریعے گھر گھر پہنچ چکا ہے۔
اب علم کا سمندر خود پیاسوں کے پاس موجیں مارتا ہوا پہنچ رہا ہے۔ آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی بدولت علم خلوتوں میں داخل ہوچکا ہے۔
کتب بینی کی عادت تو پہلے ہی ترقی یافتہ دنیا کے لوگوں کی گویا گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، اب الیکٹرانکس کتابیں، موبائل فون، یا ٹیب اور ای ریڈرز پر دستیاب ہیں، براہ راست انٹرنیٹ کی مدد سے ڈاؤن لوڈ کیجیئے اور اپنے موبائل فون یا ٹیبلیٹ پر ہی پڑھئیے یا پھر اپنے لیپ ٹاپ یا پی سی پر منتقل کرکے مطالعہ کیجئیے۔
آج ترقی یافتہ اقوام کے اکثر افراد کی خلوت اور جلوت علم سے عبارت ہے، لیکن طُرفہ تماشہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے دانشور اور رہنما محض نعروں، للکاروں، خودکش حملوں، تخریبی کارروائیوں، دعاؤں یا محض قوت ایمانی کے ہی بل بوتے پر ان اقوام کو شکست دینے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
اس طویل تمہید کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ہمارا معاشرہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باوجود ترقی یافتہ دنیا سے آج بھی کافی پیچھے ہے۔
جس کی ایک مثال یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں نت نئے ناموں سے نیوز پیپرز اور میگزین اپنی اشاعت کا آغاز کررہے ہیں۔ جبکہ ترقی یافتہ معاشروں میں کتابت و طباعت کا زمانہ اپنے اختتامی سنگ میل کی جانب بڑھ رہا ہے۔
جنوری دوہزار تیرہ سے بین الاقوامی میگزین نیوزویک کا کور پیج اب کسی نیوز اسٹینڈ کے بجائے اُس کی ویب سائٹ کے علاوہ ٹوئیٹر پر لاکھوں افراد کی ٹوئیٹ، فیس بُک یوزر کی پوسٹس اور ٹیگز کے ذریعے دیکھا جاسکے گا۔
ویسے بھی اب اخبار ہوں یا میگزین، ہمارے ملک میں آج لوگوں کی بڑی تعداد اپنے آئی پیڈ، کنڈل ای ریڈر، سیل فون، ٹیبلیٹ، لیپ ٹاپ اور پرسنل کمپیوٹرز پر ہی پڑھ لیتی ہے۔
نیوزویک جو امریکا کا دوسرا بڑا ہفت روزہ نیوز میگزین ہے، کو اپنے پرنٹ ایڈیشن کے لیے اشتہارات کی آمدنی میں تیزی سے کمی کا سامنا تھا، اس لیے کہ اس کے قارئین کی بڑی تعداد اس کے فری آن لائن ایڈیشن کی جانب متوجہ ہوچکی تھی۔نیوز ویک کی ایڈیٹر ٹینا براؤن نے نیوزویک کے اسّی سالہ دور اشاعت کے اختتام پر کہا کہ بعض اوقات تبدیلی محض اچھی ہی نہیں ہوتی ناگزیر بھی ہوجاتی ہے۔
نیوزویک میگزین نے اپنی اشاعت کا آغاز اُنیس سو تینتس سے کیا۔ نیویارک سے شایع ہونے والے اس ہفت روزہ کے بائیس بیورو ہیں، جن میں سے نو امریکہ میں اور باقی تیرہ دنیا کے دیگر ممالک میں قائم ہیں۔
اب جیسا کہ پوری دنیا ہی ڈیجیٹل ایج میں داخل ہوچکی ہے، نیوزویک کے ای ایڈیشن کی رسائی پرنٹ ایڈیشن سے کہیں زیادہ افراد تک ہوسکے گی۔
یاد رہے کہ ایشیا کے معروف جریدے فار ایسٹرن اکنامک رویو نے اپنا پرنٹ ایڈیشن سن دو ہزار نو میں بند کردیا تھا۔یوں بھی دنیا بھر میں تبدیلی کا عمل نہایت تیز رفتار ہوچکا ہے، اگر ایک ایسا فرد جس نے بیس سال پہلے ایکس ٹی کمپیوٹر ہی استعمال کرنا سیکھا اور پھر وہ وفات پاگیا تھا، فرض کیجئے کہ آج اُسے دوبارہ زندگی مل جائے تو کمپیوٹر کی ترقی یافتہ صورت اور استعمال دیکھ کر شاید اُس کا ذہن ہی ماؤف ہوجائے گا۔
کبوتر کے ذریعے نامہ بری کا تصور رکھنے والے اگر آج کی نسل کے نوجوانوں کو اپنے آئی فون پر اسکائپ کے ذریعے وڈیو چیٹ کرتے دیکھ لیں تو انہیں انسانوں سے ماورا کوئی مخلوق ہی قرار دے دیں گے۔
تبدیلی کا یہ سلسلہ ہمارے ہاں بھی اب کسی نہ کسی سطح پر شروع ہوچکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ دیرینہ روایت کے تحت تبدیلی کو قبول کرنے اور اُسے خوش آمدید کہنے والوں کی تعداد ہمارے ہاں خاصی کم ہے اور ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو ماضی کی رومانیت میں مبتلا ہیں اور ان کا حال بقول شاعر کچھ اسی طرح کا ہے کہ
کیا جانے لکھ دیا تھا اُسے اضطراب میں قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
تبصرے (1) بند ہیں