ہمیشہ کا عذاب

ہم ہر لحاظ سے غیر معمولی ملک کے شہری ہیں۔ بالخصوص ہمارے ریاستی ادارے اور ان کی انتظامیہ تو سرپرائز دینا کبھی بھولتی ہی نہیں۔ اگر کبھی مردہ گھوڑوں کو مارنے کی ماہر ریاستوں کی عالمی سطح پر نیلامی ہو تو ہم یقیناً اس فہرست میں سب سے نمایاں ہوں گے۔
حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے 'فیصلہ' دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ حکومت سیاسی لحاظ سے مردہ منصوبے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے اقدامات کرے۔ یہ ہمارے ملک میں ریاستی غیر حقیقت پسندی کی تازہ ترین مثال ہے۔
یہ موضوع مدت سے خاموش پڑا تھا لیکن عدلیہ نے اس کو اٹھا کر متنازع بحث کو جگادیا ہے۔ یہ ایسا ہی کہ جیسے تنازعات کی چنگاری کو ہوا دے کر شعلوں میں بدل دیا جائے۔
ایک مرتبہ پھر نظر یہی آتا ہے کہ جج صاحبان آنے والے طوفان سے نظریں ملائے بنا کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ ہیں۔
ان کے متعلق ہوا کھڑا کیا گیا تھا کہ یہ پاکستانی جمہوریت پر بلا کی نظریں رکھیں گے اورججوں کی طرف سے دعویٰ سامنے آیا کہ وہ لوگوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے انصاف فراہم کریں گے۔
عوام کے مینڈٹ سے اُن کی ترجمانی کرنے والی سیاسی جماعتوں نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر محتاط ردِ عمل کا اظہار کیا، بالخصوص وہ سیاسی جماعتیں بھی ردِ عمل دیتے ہوئے محتاط نظر آئیں جن کا بنیادی ووٹ بنک پنجاب میں ہے جیسا کہ مسلم لیگ نون۔
شریف برادران نے فیصلے کی مخالفت کی تاہم چھوٹے بھائی کا لہجہ کم محتاط تھا۔ انہوں نے کھل کر کہا کہ صوبوں کے درمیان 'اتفاقِ رائے' کی عدم موجودگی میں ڈیم تعمیر نہیں ہونا چاہیے۔
اگر کوئی انتہائی ڈرامائی اور حیرت انگیز بات نہیں ہوتی تو پھر طے ہے کہ اس معاملے پر کبھی بھی اتفاقِ رائے نہیں ہوسکے گا لیکن ایک اور بات بھی ہے کہ ہمارے ہاں ریاستی ادارے تاریخی طور متنوع اور پیچیدہ معاشرے میں جمہوری ضروریات کی طرف کم ہی توجہ دیتے ہیں۔
ریاست ہمیشہ یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ عوامی مفادات کو بخوبی جانتی ہے اور اپنے ہر اقدام پر، وہ عین عوامی مفادات کے مطابق ہونے کا دعویٰ کرتی نظر آتی ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ دوسری جانب ملک کے پڑھے لکھے اور ذہین لوگوں کی رائے اس کے برعکس ہوتی ہے۔
سادہ سی بات ہے کہ سوپ کو زیادہ پکاؤ تو وہ کھانے کے قابل نہیں رہتا۔ اس طرح کے 'عظیم تر قومی مفاد' کے فیصلے ضروری نہیں کہ سب کے لیے یکساں طور قابلِ قبول ہوں۔ شاید بعض کے لیے یہ بہت اچھے بھی ہوسکتے ہیں لیکن آخر کار اس طرح کے فیصلوں سے فائدہ تو سب کو ہی ہونا ہوتا ہے مگر وہ بعد کی بات ہوتی ہے۔
کیا یہ پاکستان کے قوم پرستوں کی پوزیشن ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ ہم سب بطور مسلمان اور پاکستانی ایک قوم ہیں، ایسا ہے تو پھر سب مل کر ملکی مفاد میں کام کیوں نہیں کرتے؟ یہ سندھی، بلوچی، سرائیکی، پختون اور بہت سے دوسرے جھنجھٹ کس لیے؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم بڑے پیمانے پر تقسیم شدہ ہیں۔ زیادہ تر نہیں مگر پھر بھی بھی یہ تقسیم اسکول سے لے کر میڈیا تک، ہر جگہ نظر آتی ہے۔
اصولی طور پر تو مثالی بات یہ ہے کہ ہم سب پاکستانی شناخت اختیار کریں اور اس احساس کو باہم شیئر کریں لیکن اس حوالے سے ریاست کے تمام تر اقدامات کے باوجود ملک کی اکثریتی آبادی اپنی نسلی و لسّانی اور آبائی تعلق کے حوالے سے پہچان پر فخر کرتی ہے۔
یہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس کی وجہ وہ سب کچھ ہے جو ان کے ساتھ 'عظیم تر قومی مفاد' کے نام پر اب تک ہوتا چلا آیا ہے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر جیسا فیصلہ صرف شکوک و شبہات کو ایک بار پھر سراٹھانے کا موقع دینے کے سوا کچھ نہیں۔
اگرچہ یہ درست ہے کہ اس وقت ہمیں توانائی اور آبی کم یابی پر قابو پانے کے لیے اس طرح کے منصوبوں کی فوری ضرورت ہے لیکن کالا باغ ڈیم ہی اس مسئلے کا واحد ممکنہ حل نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے بڑے بڑے ڈیموں کے حوالے سے دنیا بھر کے ماہرینِ آب میں اس بات پر تیزی سے اتفاقِ رائے بڑھتا چلا جارہا ہے کہ ان سے بڑے بڑے بے شمار سماجی و ماحولیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔
ااگر ہم ماحولیاتی اور اس طرح کے دیگر مسائل کو بھی خاطر میں نہ لائیں تب بھی اس ڈیم پر سیاسی اتفاقِ رائے کی اہمیت سے قطعی نظریں نہیں چراسکتے۔
چاہے ہم اسے اپنی بھرپور قوت سے بھی کرنا چاہیں تب بھی پاکستانی ریاست کے ساتھ شناخت کو منسلک کرکے اس معاملے پر دور تک نہیں چل سکتے۔
تصور یہ کیا جارہا ہےکہ عدم اتفاق درحقیقت بعض شرپسندوں کا پھیلایا ہوا فساد ہے۔ اگر اس سوچ کے ساتھ کوئی مقصد لے کر آگے بڑھا جائے گا تو معاملات بہترنہیں بلکہ بدتر ہی ہوں گے۔
'شدت پسندی' کا ڈھول پیٹنے والے آزاد خیالوں (لبرلز) کے لیے یہ نہایت اہم لمحہ ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور ملک کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے، اس کا مقابلہ کریں۔ بلاشبہ اس چیلنج کو اکثر سالمیت کے لیے خطرے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
میں اس دلیل سے قطعی متفق نہیں ہوں کہ شدت پسندی ایک مسئلہ ہے بلکہ یہ کئی مسئلوں کے سبب ہے۔
لبرل بنیادی طور پر اپنے اندر سیکولر ہیں لیکن اگر اس خطرے کی گھنٹی کو سن کر بھی وہ نہ اٹھے تو پھر اس کا مطلب ہوگا کہ وہ نسلی اور لسّانی بنیادوں پر شناخت کو قبول کررہے ہیں۔
نسلی و لسّانی شناخت کے خلاف جنگ، شدت پسندی یا کسی بھی اور شے سے بڑی جنگ ہے، جس سے ملک کا دفاع کرنا ضروری ہے۔
یہ نہایت آسان بات ہے کہ ہم ایک، ایک کرکے قبائلی علاقوں پر بم گرا کر دہشت گردوں کو ختم کرتے چلے جائیں، جیسا کہ اکثر ہوتا بھی ہے مگر اس سے کیا مسئلہ ختم ہوجائے گا؟
اگر لاکھوں میں نہیں تو پھر ہزاروں میں موجود ہم ان نوجوان بچوں کا کیا کریں گے جنہیں مدرسوں میں جہاد کی تعلیم ملتی ہے، جن کے ذہنوں میں کافر کے تصورات ابھارے جاتے ہیں، جن میں مذہب کی بنیاد پرعدم برداشت کو پروان چڑھایا جاتا ہے، جن میں نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کے جذبات بیدار کیے جاتے ہیں۔
پاکستان کو ان سب مسائل کا سامنا ہے اور یہ شناخت کے معاملے سے بھی منسلک ہے۔
مثال کے طور پر متعدد صحافیوں کی تحریریں موجود ہیں کہ سرائیکی علاقے میں طالبان کی نمو ہورہی ہے۔ فرض کریں کہ یہ اطلات درست ہیں تو پھر کیا ہم بہاول پور یا رحیم یار خان پر فوجی چڑھائی کردیں؟
یا پھر یہ بہتر ہے کہ ہم طویل المدت تناظر میں اس مسئلے کی حقیقی جڑیں تلاش کرکے انہیں ختم کرنے کی کوشش کریں؟
یقینی طور پر سرائیکی قوم پرست تحریک مکمل طور پر سیکولر ہے مگرمولانا مسعود اظہر کی شکل میں جو بات سامنے آئی اس کا تدارک ہونا چاہیے، یہ نہیں کہ آ کر سب پر بم برسادو۔
بدقسمتی سے اس وقت جو بات گرما گرم بحث کا موضوعی بنی، وہ ہے کالا باغ ڈیم۔ بہتر ہے کہ اس کے تکنیکی اور انتظامی امور پر توجہ دی جائے نا کہ اسے تنازعات کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔
عدلیہ اس طرح کے سیاسی معاملات سے نمٹنے کے لیے نہیں، وہ آئینی طور پر دی گی اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے لیکن بات یہی نہیں، ہم میں سے بھی بہت سارے ایسے ہی جو آنکھوں پر غلط عینک لگا کر اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
اس معاملے پر معاشی اور سیاسی معیار کے علاوہ ملک کی کثیر الشناخت کردار داؤ پر ہیں اور یہ معمولی نوعیت کے مسائل نہیں۔ ان مسائل کا حل وقت طلب اور صبر آزما ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں یہ تعین کرنا ہوگا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔
ہم سب کو پانی اور توانائی چاہیے لیکن ہم میں سے کچھ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کے خواہشمند ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم انہیں کم ازکم کو خود اپنے نام اور پہچان سے مخاطب کیے جانے اور انہیں اپنے خدشات شیئر کرنے کا موقع دیں۔
یا پھر، اس کے علاوہ یہی طریقہ باقی ہے کہ ہم سب عذابِ ابدی کی چادر اوڑھ کر اپنی اپنی آرام گاہوں میں ابدی نیند سوجائیں۔
مضمون نگار قائدِ اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد سے منسلک ہیں۔
ترجمہ: مختار آزاد
تبصرے (1) بند ہیں