اسلحے کی بھرمار، پاکستان چھٹے نمبر پر
کراچی: پاکستان میں قبائلی اور پسماندہ علاقوں کی تو یہ دیرینہ روایت رہی ہے کہ عام افراد اپنی بہت سی بنیادی ضروریات کو چھوڑ کر اسلحہ خریدنا ضروری سمجھتے ہیں۔
لیکن اب گزشتہ چند دہائیوں سے اکثر بڑے شہروں میں بھی یہ رجحان عام ہوتا جارہا ہے کہ لوگ تہواروں اور شادی بیاہ کی تقریبات پر اپنی خوشی کا یا کسی سانحے کی صورت میں اپنے غم و غصّے کا اظہار کرنے کے لیے اپنے ذاتی اسلحے سے ہوائی فائرنگ شروع کردیتے ہیں۔
روز بروز بڑھتے ہوئے اسی رجحان کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ عالمی خبررساں ایجنسی رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے عام شہریوں کے پاس دو کروڑ جدید ہتھیار موجود ہیں۔
اس طرح جدید ہتھیار رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر آگیا ہے۔
گوکہ انڈیا اس فہرست میں چار کروڑ ساٹھ لاکھ ہتھیاروں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، لیکن لگ بھگ ایک ارب آبادی والے اس ملک کا ہر اکیسواں فرد مسلح ہے، جبکہ پاکستان کا ہر نواں فرد ہتھیار رکھتا ہے۔
امریکہ جہاں گزشتہ ہفتے ایک مسلح شخص نے کنیٹیکٹ ریاست کے پرائمری اسکول میں گھس کر بیس بچوں سمیت ستائیس افراد کو ہلاک کردیا تھا، سب سے زیادہ اسلحہ رکھنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔
تقریباً ساڑھے اکتیس کروڑ کی آبادی کے ساتھ امریکہ میں اکتیس کروڑ ہتھیار عام لوگوں کے پاس موجود ہیں۔ یوں کہئیے کہ گویا ہر امریکی مسلح ہے۔
امریکہ میں اس سے قبل بھی اسکولوں اور عوامی مقامات پر کسی مسلح فرد کی فائرنگ سے ہلاکتیں ہوتی رہی ہیں، اگست دوہزار بارہ میں ریاست وسکونسن کے ایک گرودوارے میں مسلح شخص کی فائرنگ سے سکھ کمیونٹی کے سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے ایک مہینے پہلے کولوروڈو ریاست کے ایک سینما میں فائرنگ سے بارہ افراد کی ہلاکت نے امریکیوں کو سوگوار کردیا تھا۔
چنانچہ ایک مرتبہ پھر امریکہ میں اسلحہ کی خرید و فروخت کو محدود کرنے پر بحث شروع ہوگئی ہے۔ اس ضمن میں ایک مثبت پیش رفت دستخطی مہم ہے، جس میں اب تک کی اطلاع کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تعداد میں لوگوں نے دستخط کردیئے ہیں۔
یاد رہے امریکی قوانین کے مطابق اگر کسی زیر بحث معاملے پر پچیس ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹرز کے دستخط جمع کرادیئے جائیں تو حکومت مجبور ہوجاتی ہے کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے۔
امریکی آئین کے تحت ہر بالغ شہری اسلحہ رکھنے کا حق رکھتا ہے۔ ایک ایسا امریکی شہری جس کے پاس تمام ضروری ریاستی دستاویز موجود ہیں تو وہ انہیں دکھا کر کسی بھی اسلحے کی دکان سے ہتھیار خرید سکتا ہے۔
پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں آئین و قانون کے تحت ہتھیار رکھنے کی امریکہ کی طرح عام اجازت نہیں ہے، لیکن یہاں اسلحہ خریدنے کے لیے عموماً لوگوں کی اکثریت کو نہ تو قانونی دستاویز کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی لوگوں کی بڑی تعداد لائسنس بنوانے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔
اب تو پاکستان میں صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ امن کی مالا جپنے والے بعض مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے اجتماعات میں کھلے عام غیرقانونی ہتھیاروں کی نمائش کی جاتی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک سمیت دیگر اہم حکومتی شخصیات ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور امن و امان کی بدترین صورتحال کا ذمہ دار ناجائز اسلحے کی بھرمار کو قرار دیتی رہی ہیں، لیکن اس حوالے سے زبانی کلامی دعوے یا کاغذی کارروائی سے آگے بات نہیں بڑھ سکی ہے۔
اب تو بہت سے عام شہری بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ بھی گھر سے باہر مسلح ہو کر نکلیں تاکہ وہ اپنی جان اور مال کی حفاظت کرسکیں۔
یہ سوچ ظاہر کرتی ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے صریحاً غفلت برت رہی ہے اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے ناکام ہوچکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ گروہ اور دہشت گردی میں ملوث افراد آزادانہ طور پر اپنی کارروائیاں کرتے پھرتے ہیں اور انہیں کسی کا خوف نہیں ہوتا، پولیو ویکسین مہم کی ورکرز خواتین کا کھلے عام قتل اس کا واضح ثبوت ہے۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یومیہ بیس افراد قتل کردیئے جاتے ہیں، یعنی انسانی جانوں کا بے دریغ زیاں اب ہمارے ملک میں عام سی بات ہوتی جارہی ہے۔
ایک سو اٹھتر ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر امریکہ، دوسرے پر انڈیا، تیسرے پر چین، اس کے بعد جرمنی اور فرانس کے بعد چھٹے نمبر پر پاکستان ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں