غربت کا سفر
غربت کے بارے میں جائزے اور ان کے اعداد و شمار اکثر متنازع ہوتے ہیں۔ ماضی میں کچھ جائزے این جی اوز اور بعض عالمی اداروں نے مرتب کیے تھے، جنہیں پاکستان میں شک بھری نظروں سے دیکھا گیا۔
لیکن اب حکومت نے خود اعتراف کیا ہے کہ اس کے تقریباً پانچ سالہ دورِ اقتدار میں یہ کتنی بڑھی اور صورتِ حال کس قدر بدتر ہوئی ہے۔
وفاقی وزارت برائے تحفظِ خوراک نے رواں ہفتے سینٹ کو آگاہ کیا کہ ملک کی اٹھاون فیصد آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔
سسٹین ایبل پالیسی ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کی رپورٹ سے اس کا تقابل کریں تو یہ شرح سن دو ہزار نو میں انچاس فیصد تھی۔
یہ بھی بتایا گیا گیا کہ سن دو ہزار میں ایس ڈی آئی پی کی رپورٹ کے مطابق بائیس فیصد پاکستانی انتہائی غربت کا شکار تھے۔
سن دو ہزار سات ۔ آٹھ کے دوران اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی اور عالمی بنک کے مرتب کردہ جائزے کے مطابق اُس وقت ملک میں سترہ فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے تھے۔
حکومت کے اپنے اعتراف کے مطابق اُن کے دور میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور آج جو اس کا تناسب ہے، وہ اُن کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
افراطِ زر کی بڑھتی شرح بھی غربت میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔
منصوبہ بندی کمیشن نے حال ہی میں خوراک یا فوڈ باسکٹ کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق سن دو ہزار سات۔آٹھ کے مقابلے میں روز مرّہ استعمال کی اشیائے خوراک کی ماہانہ قیمتوں میں تقریباً اکیاسی فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔
فوڈ باسکٹ کا مطلب خوراک کی وہ تمام ضروری اشیا ہیں جن کی متوازن خوراک کے ضمن میں ایک عام شخص کو روزانہ کی بنیاد پر ضرورت ہوتی ہے۔
ایک عام شخص کو روزانہ اکیس سو پچاس کیلوریز پر مشتمل متوازن خوراک درکار ہوتی ہے جب کہ فوڈ باسکٹ رپورٹ کے مطابق اس وقت حقیقت میں ملک کے ایک عام شخص کو سترہ سو کیلوریز کے قریب خوراک میسر ہے۔
اس وقت متوازن خوراک ایک عام پاکستانی کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے، جس کے باعث مختلف مسائل سامنے آرہے ہیں۔
کم خوراکی سے بڑھتے بچوں کی نشونما پر بہت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ زچہ بچہ کی شرح اموات میں اضافہ ہورہا ہے، نیز افرادی قوت میں کمزور اور بیمار لوگوں کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔
اب اس ساری صورتِ حال میں ان اعداد و شمار کو بھی شامل کرلیں:
اس وقت ایک عام غریب پاکستانی کی کُل آمدنی کا اُنسٹھ فیصد صرف خوراک کے حصول پر خرچ ہورہا ہے۔ اسے صحت و تعلیم کی معیاری اور سستی سہولتوں کے فقدان سے ملائیں تو صورت حال کی مزید سنگینی سامنے آتی ہے۔
ایک عام آدمی کے لیے روز مرہ کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں نہایت مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی زندگی مسلسل مسائل کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے۔
اکثر وزرا اور سرکاری اہلکار حکومت کی غریبوں کے موافق پالیسیوں کا ذکر کرتے ہوئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا حوالہ دیتے ہیں لیکن صرف ایک پروگرام کے ذریعے غربت میں کمی کی کوشش کرنا موثر قدم نہیں ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو غربت میں کمی کا بہترین قدم تصور کرکے پیش کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے غریبوں بالخصوص خواتین اور غریب خاندانوں کی مالی معاونت کی جارہی ہے۔
اس میں اگر بعض دیگر خصوصیات جیسا کہ ہیلتھ انشورنس، چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے لیے قرض وغیرہ بھی شامل کرلیے جائیں تو اس سے غربت کا شکار لوگوں کو آمدنی کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ اس وقت جو غربت کی شرح ہے، اس کے باعث مختلف اختراعی نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود ایسا نہیں کہ یہ کرنا مشکل ہے۔
اس وقت دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جن کے ذریعے مختلف ملکوں نے غربت کی شرح پر قابو پایا اور اس میں کمی لائے، جنہیں پاکستان میں بھی نافذ کرکے غربت میں کمی لائی جاسکتی ہے، تاہم بات ہے سیاسی آمادگی اور نہایت بنیادی نوعیت کے انسانی حۡوق کے احترام کی۔