دلیپ کمار: نوے سنہری سال
آج برصغیر کے عظیم ترین اداکار دلیپ کمار اپنی زندگی کی نوے بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ پچھلے سال گیارہ دسمبر کو ان کے مداحوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ دلیپ صاحب کی 90ویں سالگرہ خوب دھوم دھام سے منائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ایک تو ان کے پرانے دوست یش چوپڑا کا انتقال دلیپ صاحب کی سالگرہ سے چند دن پہلے ہی ہوا تھا، پھر ان کی اپنی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لیے سارے پروگرام کو ملتوی کردیا گیا۔
آج سے ٹھیک نوے سال پہلے پشاور کے بڑے خاندان میں ایک خوبرو لاڈلہ پیدا ہوا جس کا نام یوسف خان رکھا گیا۔ غلام سرور خان جو پھلوں کا کاروبار کرتے تھے، 12 بچوں کے باپ تھے جن میں یوسف کا نمبر چوتھا تھا۔ جب یوسف صرف چھ سال کے تھے کہ ان کے والد پورے خاندان کو لے کر ممبئی منتقل ہو گئے۔
یوسف نے وہاں اسکول اور کالج میں تعلیم پائی، جنگ کے دنوں میں والد کا کاروبار نقصان میں جانے کے باعث انہوں نے ایک دو جگہ نوکریاں بھی کیں لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔
ایک روز اچانک ان کی ملاقات اس زمانے کی مشہور اداکارہ اور بمبئی ٹاکیز کی دیویکا رانی سے ہوئی جنہوں نے یوسف کو اداکار بننے کی پیشکش کرتے ہوئے پانچ سو روپے کی بیش قیمت تنخواہ کے ساتھ ساتھ سالانہ دو سو روپے اضافے کی بھی یقین دہانی کرائی۔
دیویکا کے خیال میں ایک رومانوی ہیرو پر یوسف خان کا نام نہیں جچتا لہٰذا انہوں نے یوسف کو تین نام جہانگیر، واسو دیو اور دلیپ کمار تجویز کیے جن میں سے یوسف نے آخری نام کا انتخاب کیا۔ یوسف کے خیال میں یہ نام اس لحاظ سے بھی بہترین تھا کیونکہ اس طریقے سے ان کے قدامت پسند والد کے سامنے ان کی اصلیت بھی آشکار نہیں ہو سکی تھی جو سینما سے وابستہ ہر شخص کو نوٹنک والاز کہتے تھے۔
ایک اتفاقی ملاقات نے یوسف کی زندگی بدل دی لیکن اس ملاقات کے ساتھ ہی فلم کی دنیا میں اداکاری کا انداز بھی بدل گیا۔ یوسف نے تھیٹر کے انداز سے اداکاری کرنے کے بجائے عام زندگی میں بات چیت کیلیے اپنائے جانے والے انداز کو ترجیح دی اور جس کی بعد میں دوسرے اداکاروں نے نقل شروع کر دی۔
یوسف نے 1944 سے 1997 کے درمیان 53 سال میں فقط 63 فلموں میں کام کیا لیکن اس دوران وہ جو کردار بھی کرتے، اس میں خود کو ڈھال لیتے۔ جیسے کہ انہیں فلم کوہ نور کے ایک منظر میں ستار بجانا تھا تو انہوں نے اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلیے خصوصی طور پر ایک ستار کے استاد سے تربیت لی۔ اس طرح جب فلم نیا دور میں انہیں ٹانگا ڈرائیور کا کردار ملا تو انہوں نے اس کام سے وابستہ لوگوں کی زندگی اور ان کے کام کے انداز کو جاننے کیلیے خاص طور پر اس پیشے سے وابستہ لوگوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔
دیو آنند اور راج کپور کو کبھی کبھی دلیپ جی کا ہم عصر اداکار کہا جاتا ہے تاہم اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان جیسا ورسٹائل اور ہرفن مولا کوئی نہ تھا۔ راج کپور عام طور پر چارلی چپلن کے انداز کے کردار کیا کرتے جبکہ دیو آنند بوڑھے ہونے کے باوجود بھی جوانی کے سحر سے باہر نہیں نکل پائے اور اسی طرح کے کردار ادا کرتے رہے۔
دلیپ کمار نے پہلے گنگا جمنا میں جو ان کی پروڈیوس کردہ واحد مووی بھی ہے میں ایک عوامی کردار ادا کیا تو دوسری جانب اس سے کہیں زیادہ آسانی سے برصغیر کے اس عظیم اداکار نے فلم مغل اعظم میں شہزادہ سلیم کا لازوال کردار ادا کیا جہاں ایک کنیز کے پیار میں پاگل سلیم شہشاہ وقت سے ٹکرا جاتا ہے، اس فلم میں مدھو بالا نے بھی شاندار اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
رومانوی کردار ہو یا کامیڈی، دلیپ کمار نے جس کردار کو بھی اپنایا اسے امر کر دیا۔ ہندوستانی حکومت نے شاندار اور بے مثال اداکاری کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں 1995 میں ہندوستان کے سب سے بڑے فلمی ایوارڈ "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ" سے نوازا جبکہ حکومت پاکستان نے بھی انہیں سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا تھا، وہ مرار جی دیسائی کے بعد یہ اعزاز حاصل کرنے والے دوسرے ہندوستانی ہیں۔
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ دلیپ جی نے پاکستانی سرزمین پر پہلی دفعہ ساٹھ کی دہائی میں اس وقت قدم رکھا تھا جب لندن جاتے ہوئے فنی خرابی کے باعث ان کے طیارے کو کراچی میں رکنا پڑا تھا، اس موقع پر انہیں وی آئی پی لاؤنج میں ٹھہرایا گیا، چیف پروٹوکول آفیسر نواب راحت صاحب چٹھرانی وہاں اکیلے ہی بیٹھے رہ گئے اور نواب صاحب کی بیٹی سمیت ایئرپورٹ پر موجود ان کے تمام مداحوں نے انہیں گھیر لیا تھا۔
اس موقع پر سینیئرز کی اجازت کے بغیر لاؤنج کھولنے پر دو اسٹاف ممبرز کو معطل بھی کردیا گیا تاہم بعدازاں انہیں بحال کر دیا گیا تھا۔
کچھ ماہ قبل جب میری ممبئی کے کاردار اسٹوڈیوز میں ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ اس وقت ایئرپورٹ پر آپ کی موجودگی کے باعث سول ایوی ایشن کے دو اہلکار تقریباً اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ "اگر مجھے پتہ ہوتا کہ نواب صاحب بھی اس وقت لاؤنج میں موجود ہیں تو میں خود ان سے جا کر ملتا کیونکہ بحرحال وہ مجھ سے بڑے تھے"۔ اس جملے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دلیپ صاحب ایک عظیم اداکار ہی نہیں بلکہ عظیم انسان بھی ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں