پونٹنگ! ایک عہد کا اختتام

گیند باز باؤلنگ کے لیے تیار اپنے نشان پر پہنچ چکا تھا، اس نے بلے باز کو تیار پا کر اپنے چھوٹے سے اسپن رن اپ کے ساتھ گیند پھینکی تاہم بیٹسمین گیند کو سمجھنے میں ناکام رہا اور سلپ میں کیچ دے بیٹھا۔
گیند بلے باز کی توقعات سے کم ٹرن ہوئی اور وہ روبن پیٹرسن کی گیند پر جیک کیلس کو سلپ میں کیچ دے کر بوجھل قدموں سے پویلین کی جانب لوٹنے لگا۔حالانکہ اس نے اس اننگ میں صرف آٹھ رنز ہی اسکور کیے تھے تاہم اس کے باوجود اسٹیڈیم میں موجود ہر شخص کھڑا ہو کر اسے داد دے رہا تھا اور حریف کھلاڑی اسے مبارکباد دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔
جی ہاں یہ اور کوئی نہیں، آسٹریلین تاریخ کا کامیاب ترین کھلاڑی اور دنیا کا کامیاب ترین کپتان رکی پونٹنگ تھا، جس کے آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی کامیابیوں اور ریکارڈ کا ایک باب بند ہو گیا۔
انیس دسمبر 1974 کو آسٹریلین ریاست تسمانیہ میں پیدا ہونے رکی تھامس پونٹنگ کے بارے میں کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو گا کہ ایک دن یہ آسٹریلین کرکٹ کا سب سے قابل فخر سرمایہ بن جائے گا۔
سترہ سال تک باؤلرز کے ہوش اڑانے والے اس عظیم بلے باز نے اپنے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز 1995 میں نیوزی لینڈ میں کھیلے جانے والے چار ملکی ٹورنامنٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف میچ سے کیا۔
اس میچ میں آسٹریلین ’’پنٹر‘‘ کو چھٹے نمبر پر بھیجا گیا اور جب آسٹریلیا نے میچ کا فاتحانہ رن حاصل کیا تو اس وقت وہ چھ گیندوں پر ایک رن کے ساتھ کریز پر موجود تھا۔
اسی ٹورنامنٹ میں ڈیونیڈن میں انڈیا کے خلاف کھیلے جانے والے میچ میں آسٹریلیا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، تاہم نوجوان بلے باز نےبانوے گیندوں پر باسٹھ رنز کی اننگ کھیلی تھی۔
اسی سال اسٹیو وا کی انجری کے باعث نوجوان بلے باز کو پہلی بار ٹیسٹ ٹیم میں شمولیت کا موقع ملا اور انہیں سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں پرتھ کے مقام پر کھیلے جانے والے پہلے میچ کے لیے ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔
انہوں نے اپنی سلیکشن کو درست ثابت کرتے ہوئے اس اننگ میں چھیانوے رنز بٹورے، اسی مجموعے پر انہیں چمندا واس کی گیند پر متنازع طریقے سے ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار دے دیا گیا جس پر دنیا بھر میں شدید تنقید بھی کی گئی۔
کینگرو بلے باز نے اپنی فارم کا سلسلہ جاری رکھا اور میلبورن میں کھیلے جانے والے باکسنگ ڈے ٹیسٹ کی واحد آسٹریلین اننگ میں اکہتر رنز بنانے کے ساتھ سری لنکا کی پہلی اننگ میں اسانکا گروسنہا کی وکٹ بھی حاصل کی۔
یاد رہے کہ یہ وہی ٹیسٹ میچ ہے جس میں آسٹریلین امپائر ڈیرل ہیئر نے متیاہ مرلی دھرن کی سات گیندوں کو نوبال قرار دیا تھا اور نتیجتاً سری لنکن کپتان اپنی ٹیم کو احتجاجاً گراؤنڈ سے باہر لے کر چلے گئے تھے۔
پونٹنگ نے اپنے ون ڈے کیریئر کی پہلی سنچری 1996 کے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اسکور کی، اپنے کیریئر کے پہلے ورلڈ کپ میں انہوں نے 32.71 کی اوسط سے 229 رنز اسکور کیے تھے۔
اس کے بعد ایشیا کے ٹور کے دوران مسلسل ناکامی اور ناقص بیٹنگ فارم کے باعث پونٹنگ کو ٹیم سے باہر بٹھا دیا گیا تاہم تسمانین بلے باز نے ہمت نہ ہاری اور شیفلڈ شیلڈ میں شاندار کارکردگی کی بدولت 1997 میں ایشز سیریز کے لیے انگلینڈ کا دورہ کرنے والی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
اس دورے میں انہیں ابتدائی تین ٹیسٹ میچوں میں نہیں کھلایا گیا تاہم ہیڈنگلے لیڈز کے مقام پر کھیلے جانے والے چوتھے ٹیسٹ میں انہیں مائیکل بیون کی جگہ موقع فراہم کیا گیا۔
انہوں نے دوسری اننگ میں چھٹے نمبر پر کھیلتے ہوئے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی پہلی سنچری داغتے ہوئے 127 رنز کی شاندار اننگ تراشی اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
پونٹنگ نے اپنے ہوم گراؤنڈ پر پہلی سنچری اسی سال دسمبر میں میلبورن کرکٹ گراؤنڈ پر ساؤتھ افریقہ کے خلاف اسکور کی جبکہ مایہ ناز بلے باز نے پاکستان کے خلاف اپنی پہلی سنچری نومبر 1998 میں قذافی اسٹیڈیم لاہور میں اسکور کی۔
اس میچ میں پونٹنگ کے ناقابل شکست 124 رنز کی اننگ کی بدولت آسٹریلیا نے 316 رنز کا ہدف باآسانی چار وکٹ پر حاصل کر لیا تھا۔
پونٹنگ کی زندگی کا پہلا سب سے زیادہ یادگار لمحہ 1999 کا ورلڈ کپ جیتنا تھا جس میں آسٹریلیا نے فائنل میں پاکستان کو آؤٹ کلاس کرتے ہوئے باآسانی آٹھ وکٹ سے فتح حاصل کی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں انہوں نے 354 رنز اسکور کیے تھے۔
فروری 2002 میں پونٹنگ کو اسٹیو وا کی جگہ آسٹریلیا کی ون ڈے ٹیم کا قائد مقرر کیا گیا اور پھر ان کی کپتانی میں کینگروز نے ساؤتھ افریقہ کو اس کی سرزمین پر پہلی مرتبہ ون ڈے سیریز میں شکست سے دوچار کیا۔
سال 2003 میں ہونے والے ورلڈ کپ میں 'پنٹر' نے پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کی قیادت کے فرائض انجام دیے، اس ورلڈ کپ کی ابتدا میں ہی کینگروز انتہائی مشکلات سے دوچار ہو گئے تھے۔
ڈیرن لیمن اور شین وارن پابندی کا شکار تھے جبکہ اس وقت کے ورلڈ نمبر ایک بلے باز مائیکل بیون انجری کے باعث ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئے تھے تاہم پونٹنگ نے قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ابتدائی دو میچوں میں پاکستان اور انڈیا جیسے حریفوں کو بھاری مارجن سے شکست دی اور پھر ناقابل شکست رہتے ہوئے فائنل تک رسائی حاصل کی۔
فائنل میں پونٹنگ نے 140 رنز کی کیپٹن اننگ کھیلتے ہوئے اپنی ٹیم کو 359 کے ریکارڈ مارجن تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور پھر ہندوستانی ٹیم کو سو رنز کی شکست سے دوچار کر کے آسٹریلیا کو لگاتار دوسرا اور مجموعی طور پر تیسرا ٹائٹل کا حقدار بنوا دیا۔
اس ٹورنامنٹ میں آسٹریلین ٹیم تمام گیارہ میچوں میں ناقابل شکست رہی۔
سال 2004 کے آغاز میں پونٹنگ کو آسٹریلیا کی ٹیسٹ ٹیم کا بھی کپتان مقرر کردیا گیا اور اس کا جشن انہوں نے سری لنکا کو اس کی سرزمین پر تین میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کر کے منایا۔
تقریباً ڈیڑھ سال تک پونٹنگ کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا تاہم 2005 میں انگلینڈ میں کھیلی جانے والی ایشز سیریز ان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی اور آسٹریلیا کو 1987 کے بعد پہلی بار ایشز سیریز میں شکست کا ذائقہ چکھنا پڑا۔
اس شکست کے باوجود آسٹریلین لیجنڈ نے ہمت نہ ہاری اور ایک بار پھر کامیابیاں حاصل کرنا شروع کردیں۔
انہوں نے پہلے ویسٹ انڈیز اور پھر ساؤتھ افریقہ کو اس کی سرزمین پر کلین سوئپ شکست سے دوچار کیا۔ اس ٹور کے دوران انہوں نے اپنے سوویں ٹیسٹ کی دونوں اننگ میں سنچری بنانے کا ورلڈ ریکارڈ بھی بنا ڈالا۔
ان لگاتار فتوحات کے باوجود پونٹنگ کا ابھی تک ایشز سیریز میں شکست کا زخم نہیں بھرا تھا اور پھر جب نومبر 2006 میں انگلش ٹیم ایشز کھیلنے آسٹریلیا پہنچی تو پونٹنگ الیون نے اسے پانچ میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کی عبرتناک شکست سے دوچار کرکے ایشز میں شکست کا بدلہ لے لیا۔
یہ 1930 کے بعد پہلا موقع تھا جب کسی آسٹریلین ٹیم نے انگلینڈ کو پانچ - صفر کے بھاری مارجن سے شکست دی تھی۔
پونٹنگ کو سیریز میں فی اننگ 82 رن سے زائد کی اوسط سے 576 رنز بنانے پر سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
اگلے سال 2007 میں پونٹنگ نے اپنی ٹیم کو ایک ورلڈ کپ جتوا دیا اور اس کے ساتھ ہی وہ کلائیو لائیڈ کے بعد کرکٹ کی تاریخ کے وہ پہلے کپتان بن گئے جنہیں دو ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔
اس ٹورنامنت کے متنازع فائنل میں کینگروز نے سری لنکا کو شکست دی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں بھی آسٹریلین ناقابل شکست رہے تھے۔
سال 2007-08 میں جب شین وارن اور گلین میک گرا آگے پیچھے ریٹائر ہوئے تو تصور کیا جا رہا تھا کہ شاید ان دونوں باؤلرز کی غیر موجودگی میں آسٹریلیا میں اب وہ دم خم باقی نہ رہے تاہم کرکٹ پنڈتوں کی یہ بات محض خام خیالی ہی ثابت ہوئی اور پونٹنگ نے اپنی پرفارمنس اور بہترین کپتانی سے ناقدین کے منہ بند کروا دیے۔
اگلے سال انہوں نے انڈیا کو ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر لگاتار سولہ ٹیسٹ میچ جیتنے کا اسٹیو وا کا ریکارڈ برابر کر دیا۔
پونٹنگ کے برے وقت کا آغاز اسی سال کھیلی گئی سہ ملکی سیریز سے ہوا جہاں ہندوستان نے اسے بیسٹ آف تھری فائنلز میں دو صفر سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔
سال 2008 میںآسٹریلیا نے ہندوستان کا دورہ کیا اور اسی ٹور میں انہوں نے بنگلور میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں انڈیا میں اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری بھی اسکور کی لیکن کینگروز کو اس ٹیسٹ سیریز میں دو - صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا خصوصاً ناگپور میں کھیلے جانے والے سیریز کے چوتھے ٹیسٹ میچ میں پونٹنگ کی کپتانی پر خاصی تنقید کی گئی جس کے باعث آسٹریلیا کو میچ میں 172 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اگلے سال میں 2009 میں آسٹریلیا کی ٹیم ایک بار پھر ایشز سیریز کھیلنے انگلینڈ پہنچی تاہم اس بار بھی اسے دو -ایک کے مارجن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سیریز میں شکست کے ساتھ ہی پونٹنگ آسٹریلیا کے وہ تیسرے کپتان تھے جن کی قیادت میں آسٹریلیا کو دو بار ایشز میں شکست کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔
اس کے بعد بھی کامیابیوں اور ناکامیوں کا سلسلہ جاری رہا تاہم پونٹنگ کے لیے سب سے بڑا دھچکا 2011 کی ایشز سیریز تھی جس میں انگلش سرزمین پر کینگروز کو تین - ایک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سابق کرکٹرز نے اس شکست کے بعد پونٹنگ سے کپتانی چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا تھا تاہم سلیکٹرز نے ورلڈ کپ سے قبل پونٹنگ کو کپتانی سے ہٹانا نامناسب خیال کرتے ہوئے ان پر اعتماد برقرار رکھا۔
آسٹریلیا کی ٹیم لگاتار چوتھا ورلڈ کپ جیتنے کا عزم لیے ہندوستان پہنچی تاہم بنگلہ دیش، سری لنکا اور انڈیا میں کھیلے جانے والے اس ورلڈ کپ میں وہ اپنی کامیابیوں کا تسلسل برقرار رکھنے میں ناکام رہی اور کوارٹر فائنل میں ہندوستان کے ہاتھوں پانچ وکٹ کی شکست کے بعد ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔
پونٹنگ ورلڈ کپ سے باہر ہونے کا صدمہ برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے ٹیسٹ اور ون ڈے کپتانی سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا، ان کے بعد آسٹریلین کرکٹ کی قیادت مائیکل کلارک کو سونپی گئی۔
کپتانی کا بوجھ اتارنے کے باوجود پونٹنگ بلے سے قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔
سال 2012 میں جنوبی افریقی ٹیم کا دورہ آسٹریلیا ان کی کرکٹ میں آخری سیریز ثابت ہوئی اور انہوں نے پرتھ کے مقام پر کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ سے قبل پریس کانفرنس میں عالمی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔
پریس کانفرنس کے موقع پر انہوں نے کہا کہ 'یہ ایک بہت ہی مشکل فیصلہ تھا اور میں اس پر ایک عرصے سے غور کر رہا تھا تاہم اس سیریز میں میری کارکردگی اور بیٹنگ میں مستقل ناکامی کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ ریٹائرمنٹ کیلیے انتہائی صحیح وقت ہے'۔
اپنے آخری ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں وہ صرف چار جبکہ دوسری اننگ میں آٹھ رنز بنا سکے، آسٹریلیا کو اس میچ میں 309 رنز سے شکست کے ساتھ ساتھ سیریز میں بھی ایک - صفر کی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
آسٹریلین کرکٹ کا یہ سورج شکست کی ناخوشگوار یادوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کرکٹ کے میدانوں سے ڈوب گیا۔
پونٹنگ اور ریکارڈز ریکارڈز پر نظر ڈالی جائے تو پونٹنگ نے کیریئر کے دوران بے شمار ملکی اور عالمی ریکارڈز اپنے نام کیے۔ سب سے پہلے ہم ان کے ٹیسٹ ریکارڈز کا جائزہ لیں گے۔
ٹیسٹ کرکٹ پونٹنگ کو آسٹریلیا کی جانب سے سب سے زیادہ 168 ٹیسٹ میچ کھیلنے کا ریکارڈ حاصل ہے، اس ریکارڈ میں سابق آسٹریلوی کپتان اسٹیو وا بھی ان کے ساجھے دار ہیں۔
کرکٹ کی تاریخ کے وہ واحد کھلاڑی ہیں جو کسی بھی ٹیم کی سو فتوحات میں ٹیم کا حصہ رہے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تاریخ وہ واحد کھلاڑی بھی ہیں جنہیں اپنے سوویں ٹیسٹ کی دونوں اننگ میں سنچری بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔
انہوں نے یہ ریکارڈ 2005 میں جنوبی افریقہ کیخلاف میچ میں اپنے نام کیا تھا، انہوں نے پہلی اننگ میں اور دوسری اننگ میں ناٹ آؤٹ رنز کی اننگ کھیلی تھی۔
انہیں آسٹریلیا کی جانب سے سب سے زیادہ 13378 رنز، اکیالیس سنچریاں، ایک سو ایک نصف سنچریاں، سب سے زیادہ 191 کیچ اور ایک کیلنڈر ایئر میں کسی بھی آسٹریلین کی جانب سے ابھی تک سب سے زیادہ سات سنچریاں بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
یہ کارنامہ انہوں نے 2006 میں انجام دیا تھا، سات میں سے چار سنچریاں جنوبی افریقہ کے خالف بنائی گئی تھیں۔
پونٹنگ ایک کیلنڈر ایئر میں تاحال آسٹریلیا کی جانب سے سب سے زیادہ رنز کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ انہیں پانچ مختلف مواقعوں پر 2002، 2003، 2005، 2006 اور 2008 میں سال میں ہزار رن سے زائد بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
انہیں آسٹریلین سرزمین پر سب سے زیادہ تئیس سنچریاں اور سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ واحد کھلاڑی ہیں جسے کسی بھی ایک ٹیم کے خلاف سب سے زیادہ ڈبل سنچریز بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔
پونٹنگ نے ہندوستان کے خلاف تین ڈبل سنچریاں اسکور کی تھیں۔
ایک روزہ میچز کے ریکارڈ پونٹنگ نے آسٹریلیا کی جانب سے سب سے زیادہ 375 میچز، 13082 رنز، تیس سنچریز اور 81 نصف سنچریز بنانے کا اعزاز بھی اپنے نام کر رکھا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک ورلڈ کپ اننگ کے دوران سب سے زیادہ آٹھ چھکے لگانے کے ریکارڈ میں یوراج سنگھ، عمران نذیر اور سچن ٹنڈولکر کے ساتھ شریک ہیں جبکہ ورلڈ کپ میں ہی وہ ہندوستانی بلے بازوں سچن ٹنڈولکر، سارو گنگولی اور اپنے ہم وطن مارک وا کے ساتھ سب سے زیادہ چار سنچریاں بنانے کے اعزاز میں بھی شراکت دار ہیں۔
ریکارڈ بطور کپتان رکی پونٹنگ کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان تسلیم کیے جاتے ہیں، متعدد مواقعوں پر انہوں نے اپنی شاندار کپتانی اور مضبوط اعصاب کی بدولت ہاری ہوئی بازی کو اپنے حق میں پلٹ دیا تھا۔
پونٹنگ کا بطور کپتان سب سے بڑا کارنامہ 48 ٹیسٹ فتوحات حاصل کرنا تھا جو کسی بھی کپتان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں حاصل کی جانے والی سب سے زیادہ فتوحات ہیں۔
اس کے ساتھ وہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں لگاتار سب سے زیادہ فتوحات حاصل کرنے والے کپتانوں میں اپنے سابق قائد اسٹیو وا کے شراکت دار ہیں، دونوں کھلاڑیوں کی کپتانی میں آسٹریلیا نے لگاتار فتوحات حاصل کی تھیں۔
پونٹنگ کلائیو لائیڈ کے بعد وہ واحد کپتان ہیں جن کی قیادت میں کسی ٹیم نے دو بار ورلڈ جیتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کی قیادت میں آسٹریلیا کی ٹیم ورلڈ کپ کے دوران لگاتار میچوں میں ناقابل شکست رہی۔