مائیکرو چپ پر دواخانہ
شکاگو: امریکی علمائے سائنس نے ادویہ کو ایک ایسی مائیکروچپ پر آزمایا ہے جس پر زندہ خلیات ( سیلز) موجود تھے جو بہت حد تک انسانی پھیپھڑے کی طرح عمل کررہے تھے۔
توقع ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف نئی ادویہ کو ٹیسٹ کرنے میں مدد ملے گی بلکہ ان کی آزمائش کیلئے جانوروں پر انحصار بھی کم کیا جاسکے گا۔
دوہزار دس میں ہارورڈ میں وائس انسٹی ٹیوٹ فاربائیلوجی انسپائرڈ انجینیئرنے ایک چپ پر انسانی خلیات کی اس طرح سے افزائش کی تھی کہ جس میں وہ انسانی پھیپھڑوں میں موجود ہوائی خانوں جیسا برتاو کرتے تھے اور ایک باریک جھلی کے زریعے پھیپھڑے سے آکسیجن عین اسی طرح خون میں جاتی تھی جس طرح انسانی پھیپھڑوں میں ہوتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی سے دوائیں بنانے والی کمپنیاں نہ صرف دوا کی تیاری کے اخراجات کم کرسکتی ہیں بلکہ باقاعدہ طبی آزمائش (کلینکل ٹرائلز) سے پہلے دوا کی تاثیر اور اسے کے سائیڈ ایفیکٹس بھی معلوم کرسکتی ہیں۔
اس چپ پر حال ہی میں ایک تحقیقی مقالہ سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن نامی جریدے میں شائع ہوا ہے۔
مطالعے کے سربراہ ڈاکٹر ڈونلڈ انگبر نے کہا کہ بڑی کمپنیاں اپنی دواوں کے لئے بہت رقم اور وقت صرف کرتی ہیں اور اس کے باوجود یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ فلاں دوا انسان پر کیا اثر دکھائے گی؟
وائس انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم نے مصنوعی پھیپھڑے کو ایک میموری اسٹک جتنی چپ پر رکھا اور اس میں پھیپھڑے کی ایک بیماری جیسی کیفیت پیدا کرکے اس پر ایک تجرباتی دوا آزمائی۔ انسانی پھیپھڑے جسطرح پھیلتے سکڑتے ہیں اس کی نقل کے لئے مصنوعی انداز میں ویکیوم بھی پیدا کیا گیا۔
اس تجربے نے قابل بھروسہ نتائج فراہم کئے۔
تحقیقی مقالے کے شریک مصنف، ڈاکٹر جیرالڈائن ہیملٹن نے کہا کہ اس اختراع سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انسانی اعضا کو ایک چپ پر رکھتے ہوئے امراض کے حقیقت سے قریب ماڈلز تیار کرکے ان پر دوائیں آزمائی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں پہلی مرتبہ ایسی باتیں بھی معلوم ہوئیں جو عام جانوروں پر روایتی تجربات سے مشاہدے میں نہیں آتیں۔
تحقیقی ٹییم نے اگلے مرحلے میں تجربات کو دو حصوں میں تقسیم کیا یعنی چپ پردوا کو آزمایا اور جانوروں پر بھی اس کے اثرات دیکھے۔
انہوں نے گلیکسو اسمتھ کلائن کی ایک دوا، ٹی آر پی وی فور چینل بلاکر کی آزمائش کی ۔ ساتھ ہی چوہوں اور کتوں کے پھیپھڑوں پر وہی مرض پیدا کرکے اسی دوا کے نتائج دیکھے ۔ چپ اور جانور دونوں کے نتائج یکساں تھےاور دوا نے دونوں جگہ مثبت اثرات ظاہر کئے تھے۔
دیگر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چپ پر خاص مرض کے خلیات رکھ کر ان پر دوا کو آزمانے کا عمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کے لئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔ تاہم دیگر علمائے تحقیقی متفق ہیں کہ کسی دوا کی مالیکیولر کیفیت پر آزمائش کے لئے یہ چپ قابلِ بھروسہ ابتدائی معلومات تو فراہم کرہی سکتی ہے۔
اس سال جولائی میں وائس انسٹی ٹیوٹ کو امریکی محمکہ دفاع کی جانب سے تین کروڑ ستر لاکھ ڈالر مالیت کی فنڈنگ سے ایک پروجیکٹ ملا ہے جس میں ایک ہی سسٹم سے جڑے دس اہم اعضا چپ پر کاشت کرکے ان کی آزمائش کی جائے گی۔
آج نہیں تو کل انسانی جسم کے تمام اعضا کے نمونے ایک چپ پر سموئے جاسکیں گے اور انہیں الگ الگ بیماریوں سے متاثر کرکے ان پر نت نئی دوائیں آزمائی جاسکیں گی۔ یعنی ایک چپ پر مریض ہوگا اور اسی پر دواخانہ بھی۔
اسی طرح کسی کیمیائی مادے یا نئی دوا کے مضر اثرات کو بھی بڑی آسانی سے نوٹ کیا جاسکے گا۔
تاہم اگلے کئی عشروں تک دوا ساز اداروں میں جانوروں کی اہمیت برقرار رہے گی۔