سکھ چین: امید کا بیج
ہم ایسی دنیا کے باسی ہیں جو ہر لمحہ بدلتی ہےاور اس کے اسی تغیر کو زندگی بھی کہا جاتا ہے۔
یہ تبدیلی کئی طرح کی ہوتی ہے جیسے کہ دن اور رات کا ہونا یا پھر دنوں کا مہینوں اور سالوں میں بدل جانا، بچے کا جوان اور جوان کا بوڑھا ہونا وغیرہ۔ یہ سب کچھ مسلسل اور جاری عمل ہے اور ایک خاص وقفے اور توازن کا محتاج ہے۔
موسموں کا بدلتے رہنا بھی اس کی ایک اور مثال ہے۔ ہماری زندگی میں اس توازن کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس میں معمولی تبدیلی بھی بہت گھمبیر نتائج کی حامل ہوتی ہےجیسے کہ کسی بچے کا قبل از وقت جوان ہوجانا یا پھر وقت سے پہلے ہی بوڑھا اور ناتواں ہوجانا، گرمی کے مہینے میں گرمی کا نہ ہونا یا بارش کے موسم میں خشک سالی، ہمارے گھریلو تعلقات، سماجی روابط، انفرادی اور اجتماعی اقتصادی حالات سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔
انسان زمین پر پائی جانے والی زندگی کی مختلف اشکال میں سے ایک ہے۔ زمین کے استعمال میں پرندے، حیوانات، حشرات اور نباتات وغیرہ اس کے ساتھ شراکت دار ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی اپنے حصے سے زیادہ لینا اس توازن کو بگاڑنے اور سب کے لئے ہی نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
حضرت انسان نے اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کے بے دریغ استعمال سے اسے بری طرح متاثر کیا ہے۔ زمین پر سبز چادر کے رقبے میں مسلسل کمی نے موسموں کو متاثر کیا ہے اور ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس سے خود اس کی اپنی خوراک کی دستیابی ایک گھمبیر مسلٔہ بن چکی ہے۔
ایسی ہی ایک مشکل ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش میں بھی تھی اور یہ ریاست اپنے کاشتکاروں کی طرف سے کی جانے والی خودکشیوں وجہ سےپورے ملک میں مشہور ہورہی تھی۔
مسلسل کئی سال تک بارش کے نہ ہونے سے اور درختوں کی تعداد میں انتہائی کمی سے زمین میں نامیاتی مادے کی مقدار اپنی کم ترین سطح تک تھی اور یہ زمین اپنے کاشتکار کو تمام تر محنت کے باوجود پیٹ بھر روٹی تک دینے کے قابل نہ تھی، ایسے میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے سوأ اور کوئی راستہ نہ تھا۔
1996 سے 2004 کے درمیانی عرصےمیں حالات بہت بگڑ گئے اور خودکشیوں کی تعداد ہزاروں میں جا پہنچی۔
یہ صورت حال سب ہی کے لئے تشویش کا باعث تھی اور سب ہی اس کا قابل عمل حل کھوجنا چاہتے تھے۔ انہیں میں سے ایک گروہ ہندوستان کے شہر بنگلورو میں قائم انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس کا بھی تھا۔ جو قحط زدہ علاقوں میں زراعت کے لئے پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے ارزاں اور قابل عمل حل کے لئے دیہاتیوں سے مشاورت کی غرض سے وہاں موجود تھا۔
ان بنجر اور بیابان علاقوں میں جہاں کچھ بھی نہیں پنپ رہاتھا، ایک چیز نے انہیں چونکا دیا اور وہ تھا ایک درخت جواس قحط زدہ علاقے میں نہ صرف ہرا بھرا تھا بلکہ خوب پھل پھول رہا تھا۔ غور کر نے سے معلوم ہوا کہ وہ ایک مقامی درخت ہے اور صدیوں سے کاشت ہوتا آیا ہے، اور اسکے بیجوں کا تیل دیے روشن کرنے اور صابن بنانے کے کام بھی آتا ہے۔
لوگوں کے لئے عام سا یہ درخت سائنسدانوں کے لئے امید کی ایک کرن ثابت ہوا، تحقیق نے اسکی قدروقیمت میں بے اندازہ اضافہ کر دیا اور اب اس کی کاشت کو توانائی کی کاشت کہا جاتا ہے۔
اس کا وطن صرف جنوبی ہندوستان ہی نہیں بلا شبہ پورا برصغیر پاک و ہند ہے۔ ہمالیہ کے دامن سے جنوبی ہند اور برما سے جنوبی پنجاب اور سندھ کے ریگستانوں تک سب ہی جگہ قدرتی طور پر پایا جاتا ہے اور کاشت بھی ہوتا رہا ہے۔ آیئے اپنے اس ہم وطن سے ملیئے جس کو ہم نے فراموش کر رکھا ہے۔
اسے جنوبی ہند میں اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں کارنج، پونگ، پونگم اور ہونگ کہا جاتا ہے، انگریز نے اسے ہندوستان کے ساحلوں پر لہراتے دیکھا تو انڈین بیچ ٹری کا نام دے دیا۔
دونوں طرف کے پنجاب اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں اس عجوبۂ روز گار سے محبت کا یہ عالم رہا ہے کہ اسے سکھ چین کا نام دیا گیا۔ آیئےاس پر کچھ اور غور کریں کہ یہ نام کہاں سے آیا۔
سکھ چین ایک مرکب لفظ ہے اور دو الفاظ یعنی سکھ اور چین سے مل کر بنا ہے جو تقریباً ہم معنی ہیں۔ سکھ ایک احساس ہے جو ہمیں کسی سے حاصل ہوتا ہے اور چین ایک کیفیت ہے جوکسی مقام پر پائی جاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ نباتاتی لاطینی میں ‘‘پونگامیہ پائی نیٹا ’’ کہلانے والے اس درخت کو سکھ چین کا نام ہی کیوں دیاگیا؟ اگر آپ نے اسے نظر بھر کر دیکھا ہے یا آپ اس کی بھرپور چھاؤں میں کچھ دیر کو سستائے ہیں تو یہ کوئی مشکل سوال نہیں۔
سکھ چین کی چھاؤں بہت گہری اور ٹھنڈی ہوتی ہے۔ موسم بہار کے اختتام پر جب سورج مہاراج کا تاپمان بڑھنے لگتا ہے تو سکھ چین اپنے نئے پتے نکالتا ہے بہت ہی ہلکے اور نرالے سبز رنگ کے پتوں سے چھن کر سورج کی تیز دھوپ ایک الگ ہی رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ اور اس الگ سی روشنی میں سکھ چین کوصرف دیکھنا ہی باعث طمانیت ہوتا ہے۔
سبز کا ایسا منفرد رنگ اور اس سے چھن کر آتی سحر انگیزروشنی اپنے اندر ایک جادو سا لئے ہوتی ہے جس سے بچنا محال ہے۔ کوئی بھی اس ساحر درخت کی چھتری کے اندر اور باہر روشنیوں کے اس فرق سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چمکتی دھوپ میں سکھ چین کے نیچے سکھ اور چین کے علاوہ ایک نیا رنگ اور احساس بھی ہوتا ہے جو لفظ بیان نہیں کرسکتے۔
اپنے شجرہ نسب کے مطابق یہ ایک خاندانی درخت کہلاسکتا ہے۔ سکھ چین نباتات کے وسیع اور عظیم خاندان "فیب ایسی" کے لگ بھگ 19400 ارکان میں سےایک ہے اور خوب ہے۔ اسی خاندان کے اور بھی بہت سے پودے اور درخت ہماری خوراک کا حصہ ہیں جن میں لوبیہ، مٹر، چنے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔
صنعتی دور سے پہلے مسواک دانت صاف کرنے کا ایک اہم زریعہ تھی۔ مسواک میں ٹوتھ پیسٹ اور برش دونوں ہی موجود ہوتے ہیں۔ مسواک کرنے والے سکھ چین سے ضرور واقف ہوتے ہیں کہ اس کی نرم نرم شاخیں اپنے اچھے ذائقے اور تازگی کے بھرپور احساس کی بنا پر بطور مسواک بہت مقبول ہیں۔
سکھ چین درمیانے قد کاٹھ کا درخت ہے جو پندرہ سے پچیس میٹر تک بلند ہوسکتا ہے اور اس کی چھتری بھی اسی قدر چوڑی اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔
تقسیم ہوتی اوپر کو بڑھتی ہوئی ٹیڑھی میڑھی شاخوں اور تنے کا رنگ سلیٹی ہوتا ہےچھال زیادہ کھردری نہیں ہوتی اور اپنے بھلے رنگ کی وجہ سے خوشگوار تاثر ابھارتی ہیں۔
موسم گرما کی شروعات میں نمودار ہونے والے یہ پتے ایک دوسرے کے آمنے سامنے دو دو کی جوڑیوں میں ایک ہی شاخ پر سات سے نو کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ پہلے ہلکے گلابی رنگ کے ہوتے ہیں اور پھر بہت ہی خوشگوار سبز ہو جاتے ہیں ۔ یہ سبز رنگ وقت کے ساتھ گہرا ہوتا رہتا ہے۔
پت جھڑ سے پہلے ان کا رنگ شاید جدائی کے خوف سے زرد پڑجاتا ہے اور پھر بھورا۔ اپنی شاخ سے جدا ہوکر بھی یہ اپنے کام سے غافل نہیں ہوتا، درخت کے اطراف میں اور جہاں تک ہوا اڑا لے جائےزمین کی بالائی سطح (جسے اصطلاحاً ٹاپ سوائل بھی کہتے ہیں اور جو زمین کی زرخیزی کا ایک پیمانہ بھی ہے) میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔
اپنی زندگی کے آخری مراحل میں پتوں پر سفید رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں جنہیں کچھ ماہرین کی رائے میں ایک وائرس کا حملہ بتایا جاتا ہے جب کہ ہمارے باغبان اسے ان کی زندگی کا ایک مرحلہ ہی بتاتے ہیں۔
سکھ چین کے ہر درخت کے ہر پتے پر اور ہر جگہ ایک ہی جیسے دھبے اور ان سے درخت کو کوئی نقصان نہ ہونا ہمیں باغبانوں کی رائے کو زیادہ فوقیت دینے پر مجبور کرتا ہے۔ پت جھڑ میں بھی سکھ چین کا نظارہ الگ ہی ہوتا ہے ، اس کے اطراف کی زمین پوری طرح اس کے سوکھے پتوں سے ڈھکی ہوتی ہے۔
پھول گچھوں کی صورت سارا سال ہی آتے رہتے ہیں اور اتنےکہ درخت ان سے لد جاتا ہے۔ سفید گلابی اور ہلکے کاسنی رنگ کے یہ پھول خوشبو دار نہیں ہوتے مگر پھر بھی شہد کی مکھیوں اور دوسرے حشرات الارض ان کی پذیرائی آگے بڑھ کر کرتے ہیں اور یوں نباتاتی عمل کو بڑھاوا ملتا ہے۔
یہ پھول اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر زمین کا زیور ہوجاتے ہیں اور درخت کے نیچے کی زمین ان کے ہی رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ باغبان بھی ان سے بہت عمدہ نامیاتی کھاد تیار کرتے ہیں جو اپنے معیار اور اثر انگیزی کے باعث مشہور ہے۔
پھولوں کے بعد باری آتی ہے پھلیوں کی جو فوراً ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ سموسہ نما پھلیاں شروع میں سبز مگر سوکھ کر خاکی رنگ کی ہوجاتی ہیں۔ ان پھلیوں یا سیڈ پوڈ میں ایک ہی بیج ہوتا ہے۔یہ اکلوتا بیج تیل سے بھرا ہوتا ہے۔ اپنے کل خشک وزن کے چالیس فیصد کے برابر جو اسے تیل دار بیجوں میں اعلی مقام دلاتا ہے۔
روائیتی طور پر برصغیر کے باشندے اس کے تیل سے واقف تھے اور اس کا استعمال اپنے گھروں کے چراغ روشن کرنے اور کچھ علاقوں میں صابن بنانے میں بھی استعمال کرتے آئے ہیں۔
مسواک اور چراغوں کے تیل کے لئے کاشت کئے جانے والے اس درخت کی معاشی اہمیت اور افادیت پر پڑے پردے جدید سائنس اور تحقیق نے اٹھا دیئے ہیں۔ اب اس کے تیل کو ایک چھوٹے سے کیمیائی عمل سے گزار کر موٹر گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ڈیزل کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔
جاری ہے ...
سید قمر مہدی لاہور میں مقیم عالم اشجار ہیں وہ پنجاب لوک سجاگ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں
تبصرے (6) بند ہیں