انڈا پہلے تھا یا مرغی؟
انڈا پہلے تھا یا مرغی؟ یہ وہ بحث ہے جو ہمیشہ ہی ہمارے تخیل کے گھوڑے کو تیز تر دوڑنے پر مجبور کرتی ہے مگر کبھی منزل پر نہیں پہنچتی.
ایسی ہی ایک بحث اور بھی ہے، جس کا تعلق کارخانہ قدرت کی ان چنیدہ تخلیقات میں سے ہے جو اپنے پورے وجود اور وضع قطع سے اپنے خالق کے عظیم اور حسین ہونے کی گواہی بھی دیتا ہے اور اپنے ہم وطنوں کے لئےقوت وبہادری کا استعارہ بھی ہے۔
قدرت کی جس حسین تخلیق سے آج ملاقات درکار ہے اس کا نام سنسکرت زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی چمکدار، سفید، روشن یا روپہلی (چاندی جیسا) کے ہیں، لگ بھگ سو فٹ کے اونچے لمبے قد پر اپنی انوکھی بٹرس روٹس کے ساتھ زمین پر جس طرح جم کر کھڑا ہوتا ہےاسے استقامت اور بہادری کی علامت کے سوا اور کیا کہا جاسکتاہے۔
ہزاروں برس پہلے ضبط تحریر میں لائی گئی ہندو دیومالا ‘‘مہا بھارت’’ کا مرکزی کردار جو جرات اور بہادری کا استعارہ بھی ہے اور بدی پر نیکی کی فتح کا نشان بھی، اسے بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے، جی ہاں! ارجن، یہی نام ہے دونوں کا، دونوں ہی خوب ہیں اور قدیم بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ دیومالائی کردار ‘‘ارجن’’ کے نام پر برصغیر پاک و ہند کے اس عظیم درخت کا نام رکھا گیا ہے یا پھر اس شجر ‘‘ارجن’’ کی عظمتوں اور حسن سے متاثر ہوکر مہا بھارت کےخالق نے اپنی کہانی کے مرکزی کردار اور فاتح کا نام رکھا؟
اپنی انہیں نسبتوں اور معانی کے سبب ارجن پورے برصغیر میں ایک مقبول اور محترم نام رہا ہے، سکھوں کے پانچویں گرو کا نام بھی گرو ارجن دیو ہے۔
ارجن کے پتے اس کی شاخوں کے آخری سرے سے پھوٹتے ہیں اور یہی اس کے نباتاتی نام کی بنیاد ہیں۔‘‘ ٹرمینالیا ارجونا’’ اس کا نباتاتی نام ہے اور اس کا تعلق اونچے لمبے، مظبوط لکڑی والے پھول دار درختوں کے خاندان ‘‘کومبر ٹا ایسی’’ کے ذیلی خاندان‘‘ ٹرمینالیا’’ سے ہے۔ ارجن کی عملداری پورے جنوب مشرقی ایشیا پر ہے۔ ہمالیہ کے دامن سے کنیا کماری تک اور برما سے لے کر سندھ کےوسیع ریگستانوں تک سب ہی جگہ پایا جاتا ہے۔ دریاؤں اور نہروں کے کناروں پر اور متروک آبی گذرگاہوں پر بھی ارجن سے ملاقات کی جاسکتی ہے۔
اس کا آبائی وطن بہت وسیع اور متنوع ہے، طرح طرح کی زبانیں، بولیاں، اور لباس، رنگ رنگ کے لوگ، رسم و رواج اور عقائد مگر ایک چیز مشترک ہے، ارجن سے ان سب ہی کی وابستگی اور لگاؤ ہے، سب نے ہی اسے کوئی نام دے رکھا ہے، اردو، پنجابی، ہندی میں تو ارجن ہی ہے، بنگال میں ارجھن، آسام میں اورجن، تامل ناڈو میں مراٹو، سری لنکا کی سنہالی زبان میں کمبوک اور وسطی ہندوستان میں ارجونا کے علاوہ کاہا ، کاہو اور کوہا بھی کہا جاتا ہے۔انگلش بولنے والے ممالک میں اسے ‘‘وائٹ مارودا’’کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ٹرمینالیا خاندان کے کچھ اور ارکان بھی ہمارے ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں اور اپنی معاشی، ماحولیاتی اور ادویاتی خوبیوں کے باعث اپنا علیحدہ مقام رکھتے ہیں۔ ان میں بہت خاص تو ‘‘ہریڑ’’ کا درخت ہے جو نباتاتی لاطینی میں ‘‘ ٹرمینالیا چی بولا’’ کہلاتا ہے۔ اس کا پھل ہریڑ بطور دوا تو استعمال ہوتا ہی ہے اس کا مربہ بہت صحت بخش اور کئی بیماریوں سے بچاؤ کا تیر بہدف نسخہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ ارجن کا ہم شکل ہریڑ کا درخت اتنا ہی بلند و بالا اور اتنا ہی وجیہہ ہوتا ہے سوا اس کے کہ سدا بہار نہیں اور خزاں میں تمام پتے جھاڑ دیتا ہے، ایک اور فرق اس کا پھل ہے جو انسانی استعمال کے قابل ہوتا ہے اور ادویاتی اور غذائی اہمیت کا حامل بھی۔
ہر طرح کی زمین، نمکیات والی شور زدہ اور تیزابی سب ہی میں اپنی جگہ بناتا ہے، اگر زرخیز زمین میسر آئے تو اس کی پھرتیاں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ کاشت بہت آسان ہے، اتنی آسان کہ شائد درخت لگانے کی خواہش ہی درکار ہوتی ہے۔اسے بیج سے، داب لگا کر یا پھر جڑوں سے پھوٹنے والے ننھے پودوں کو علیحدہ کر کے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
ارجن کے بیج سخت ہوتے ہیں اور پھوٹنے میں پچاس سے پچہتر دن تک لے لیتے ہیں۔ بیجوں سے اس کی کاشت میں کامیابی کا تناسب پچاس سے ساٹھ فیصد تک ہوتا ہے جو بہت حوصلہ افزأ شمار ہوتا ہے۔
ابتدأ میں اس کی بڑھوتری کی رفتار کم ہوتی ہے جیسے کچھ احتیاط سے کام لے رہا ہو لیکن ذرا سے پاؤں جمتے ہی اس کی بڑھت میں تیزی آ جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف تین سال کے قلیل عرصے میں دس سے بارا فٹ کا ہوجاتا ہے۔اور پھربڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اور یوں اس کی آسمان چھولینے کی خواہش سب پر آشکار ہوجاتی ہے۔ آزاد فضاؤں میں بلندی پر پرواز کرنے والے پرندےہی اس پر آشیانہ بناتے ہیں۔
اپنے لمبے قد کے ساتھ ارجن بجا طور پر سنبل کا ہمسر ہے، سنبل کی شاخیں زمین کے متوازی پھیلتی ہیں جبکہ ارجن کی شاخیں اوپر سے نیچے کی جانب جھولتی ہوئی نظر آتی ہیں جو اس کے تاثر کو عاجز اور مہربان بناتی ہیں۔ پتے بیضوی لمبے اور ساخت میں دبیز اور گدرے ہوتے ہیں،دو سے پانچ انچ کے لمبوترے پتے بہت ہی خوشگوار سبز رنگ کے ہوتے ہیں، ابتدا میں کچھ سرخی مائل ہونے کے ساتھ نرم بھی ہوتے ہیں ۔ سبز رنگ گہرا ہوتے ہوئے سوکھنے سے پہلے شوخ سرخ ہوجاتا ہے اور گرنے سے پہلے زرد، اس طرح رنگوں کا ایک عجب مظاہرہ باغوں میں ارجن کے دم سے جاری رہتا ہے۔
یہ پتے دو دو کی جوڑیوں میں شاخوں کے سرے پر نمودار ہوتے ہیں اور اپریل سے جولائی کے درمیان آخری سرے پر ڈیڑھ سے دو انچ کی ننھی ننھی ڈنڈیاں ظاہر ہوتی ہیں جنہیں اصطلاحاً ‘‘کیٹ کن’’ کہتے ہیں، جن پر گول گول کلیاں نکلتی ہیں جو کچھ ہی دنوں میں ہلکے پیلے رنگ کے پھولوں میں بدل جاتی ہیں۔
سبھی پھول پھل میں تبدیل نہیں ہوتے پھر بھی ارجن کے پھل گچھوں کی صورت شاخوں کے آخری سروں پر جھولتے نظر آتے ہیں۔ ایک سے ڈیڑھ انچ کے کاٹھے پھل سخت، ریشے دار اور بیضوی ہوتے ہیں۔ ان پر آدھے انچ تک ابھری ہوئی پانچ دھاریاں ہوتی ہیں جو اس کی مخصوص شکل بناتیں ہیں۔ارجن کے پھل طوطے بہت شوق سے کترتے ہیں اور اسی میں اپنی گپھائیں بھی بناتے ہیں۔
ارجن اشجار کی درجہ بندی میں تجارتی اہمیت کی لکڑی والےاور تیز وتند ہواؤں، طوفانوں کا زور توڑنےوالے درختوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ لکڑی کی پائیداری اور مظبوطی کا ایک معیار اس کے ایک کیوبک میٹر کے ٹکڑے کا وزن بھی ہے جسے وڈ ڈینسٹی بھی کہا جاتاہے، ارجن اس میدان کا بھی مرد ہے اور بڑے بڑے اس کے آگے پانی بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ارجن اپنے آٹھ سو ستر کلو گرام وزن کے ساتھ شیشم (سات سو ستر)، کیکر (آٹھ سو تریپن) اور روز وڈ (آٹھ سو پچاس ) اور بہت سے دوسرے درختوں سے آگے ہے۔
ارجن کی لکڑی اپنے استعمال کے وسیع امکانات کی بنا پر عمارتی، صنعتی اور گھریلو استعمال کے فرنیچر وغیرہ سب کے لئے ہی پسندیدہ شمار ہوتی ہے۔ نمی برداشت کرنے کی صلاحیت اسے چھوٹی بڑی کشتیاں بنانے کے لئے بھی موزوں بنا تی ہے، بندرگاہوں کے پشتےاور جیٹیاں، بجلی کے کھمبے اور مختلف قسم کے پول بھی ارجن کی لکٹری سے بنائے جاتے ہیں۔
ریشم ایک ہردلعزیز ریشہ ہے اور اس سے بنے ملبوسات ہر دور میں ہی بہت مقبول رہے ہیں اور اچھی قیمت پاتے ہیں۔ جس ریشے کو ریشم کہا جاتا ہے وہ توت کے پتوں پر پلنے والے کیڑے ‘‘ بوم بکس موری’’ کا بنایا ہوا ہوتا ہے اور عرف عام میں ملبری سلک بھی کہلاتا ہے۔ یہ حقیقت شائد کم لوگوں کو معلوم ہو کہ ریشم کی تین اور بھی اقسام ہوتی ہیں جو مختلف پودوں اور درختوں کے پتوں پر پلنے والے کیڑے ہی بناتے ہیں۔ یہ اقسام ‘‘اری سلک’’، ‘‘ٹسر سلک ’’ اور ‘‘موگا سلک’’ کہلاتی ہیں۔ اری سلک ایک جنگلی پودے جسے ہم پنجاب میں ارنڈی کے نام سے جانتے ہیں اور اس کا نباتاتی نام ‘‘ ریسی نس کومو نس’’ہے کے پتوں پر پلنے والے کیڑے ‘‘فیلو سامیا ۔ریسی نی’’ کی محنت کا ثمر ہوتا ہے۔ رنگ میں پکی ہوئی اینٹ جیسا سرخ ہوتا ہے اور بہت ہی زیادہ قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔
موگا سلک بہت ہی چمکدار سنہرے رنگ کے باعث مشہور ہے اور دریائے برہم پترا کی وادی یعنی بھارتی ریاست آسام میں پائے جانے والے کچھ درختوں پر پلنے والے کیڑوں کی کارگزاری ہے۔ ریشم کی تیسری قسم ٹسر سلک کہلاتی ہے اور یہ ایک کیڑے انتھیریا کی تین اقسام کی پیشکش ہےجو اوک، ارجن اور کچھ دوسرے درختوں کے پتے کھا کر جیتے اور ریشم بناتے ہیں۔ ارجن کے پتوں پر پلنے والے کیڑے ‘‘انتھیریا مائی لٹ’’ کے بنائے ٹسر سلک کی پیداوار محدود ہونے اور ریشے کی عمدگی کے باعث بہت ہی کم لوگوں کو ہی میسر آتا ہے۔ ریشم کی پیداوار میں ہندوستان چین کے بعد دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے لیکن ٹسر سلک کی تجارت پر ہندوستان کی مکمل اجاراداری ہے۔
اب کچھ ذکر ارجن کی ایسی دریا دلی کا ہوجائے جو چند ہی درختوں کا نصیب ہے۔ اپنے وجود کے ہر ہر حصے سے اپنے کاشت کاروں کو فیض یاب کرنا اور کرتے ہی چلے جانا ارجن کا ہی کمال ہے۔ ارجن کی لکڑی، اس کے پتے اور اس کا پھل تو کارآمد ہوتے ہی ہیں اس کی چھال اپنی ادویاتی خوبیوں کے باعث سب کو ہی پیچھے چھوڑدیتی ہے۔
ارجن برصغیر کی نباتاتی حیات کا اہم رکن ہے، صنعتی اور ادویاتی اہمیت کےایک بہت اہم جز ‘‘ٹے نن’’ کے حصول کا بڑاقدرتی ذریعہ ہے۔ٹے نن پودوں میں پائے جانے والے ایسے اجزأ کو کہا جاتا ہے جو پروٹین کو سکیڑنے یا ٹھوس بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں بطور اصطلاح ٹے نن ایسے کیمیائی عمل کو کہا جاتا ہے جو پروٹین اور دوسرے مالیکیول کے ساتھ مل کر دیر پا اور مستقل مرکبات بنا سکے، اس کی ایک مثال جانوروں کی کھالوں کو ٹےنن کے عمل سے گلنے سڑنے بچانا اور چمڑے میں تبدیل کرنا بھی ہے۔
ٹے نن کے ذائیقے کو ترش بتایا جاتا ہے اور اس کے استعمال سے منہ میں کھچاؤ اور خشکی محسوس ہوتی ہے جیسے کہ کچے امرود یا پرسیموم (جسے عرف عام میں جاپانی پھل بھی کہا جاتاہے) یا پھر انار کھانے سے محسوس ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ سٹرابری، سیب ، انگور، سنگترے کے جوس اور چائے میں بھی ٹے نن کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جوانسانی استعمال کے لئے موزوںخیال کی جاتی ہے۔
ارجن کے ہر حصے میں ٹےننز کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ ارجن کے پتوں میں یہ گیارہ فیصد تک، پھل کی مختلف حالتوں میں سات سے بیس فیصد تک اور چھال میں یہ بڑھ کر چوبیس فیصد تک ہو جاتی ہے۔ ایک بڑے درخت سے ہر تین سال میں ایک بار، درخت کو زخمی کئے بغیر پینتالیس کلو گرام تک چھال حاصل کی جاسکتی ہے۔
جانوروں کی کھالوں کو محفوظ رکھنے اور چمڑے میں بدلنے اور بطور دوا اس کا استعمال بر صغیر کے لوگ صدیوں سے کرتے آئے ہیں، زمانہ قدیم سے ہی یونانی اور ہندوستانی طب میں اس کے استعمال کے شواہد موجود ہیں اور اب جدید سائنسی تحقیق نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے اور مغربی ادویہ کی فہرست بھی اس کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔
ارجن سے حاصل کردہ اجزأ کو دل کے امراض، بلند فشار خون، انجائینا، ہائی کولیسٹرول، معدے کے السر، دمہ اور بہت سی دوسری تکالیف میں بطور دوا تجویز کیا جاتا ہے۔ اس کی چھال سے بننے والے قہوے کو قدرتی طور پر دل کے لئے فرحت بخش مانا جاتا ہے۔
جدید تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ارجن سے حاصل کردہ اجزأ نمایاں طور پر دل کے نازک پٹھوں کے لئے باعث تقویت ہوتے ہیں، خوں کی نالیوں کو مظبوط بناتے ہیں اور خون میں موجود چکنائی کے انہضامی نظام کی اصلاح کرتے ہیں اور اسے فعال بناتے ہیں۔ ارجن کی چھال کے قہوے کی سفارش خون کی نالیوں کو سخت ہونے سے بچاؤ کے لئے اور سخت ہوجانے کی صورت میں بطور علاج بھی کی جاتی ہے۔
ارجن کے قہوے کی انٹائی آکسیڈینٹ صلاحیت کو بہت موثر پایا گیا ہے اور وہی اس کے بطور دوا انتخاب کی ذمہ دار ہے۔انٹائی اوکسیڈینٹ ایسے اجزأ کو کہتے ہیں جو دوسرے اجزأ کو اوکسیجن سے مل کر ایسی ٹھوس شکل اختیار کر نے سے روکیں یا ان کی ایسا کرنے کی رفتار کو کم کریں جو انسانی صحت کے لئے مضر ہوں، مثال کے طور پر چکنائی کا خون کی نالیوں میں جم جانا وغیرہ، اس طرح ارجن کی چھال سے بنے قہوے کا استعمال چکنائی اور پروٹین کو رگوں میں جمنے نہیں دیتا اور یوں خون کے رگوں میں دوڑتے پھرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔وٹامن اے، سی اور ای میں بھی انٹائی اوکسڈینٹ صلاحیت ہوتی ہے۔ ارجن کے اجزأ کا بیرونی استعمال سوجن اور بہت سے دوسرے جلدی امراض اور خصوصاً ایکنی میں بھی تجویز کیا جاتا ہے۔
ہمارے سماجی اور معاشرتی رویے بہت حد تک ماحول دوست نہیں ہیں، ہم اپنے اردگرد پائے جانے والے موجودات اور حیات کی دیگر اشکال جن کا ہماری زندگی سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے کو نہ پوری طرح سمجھتے ہیں اور نہ ہی انہیں وہ اہمیت دیتے ہیں جس کے وہ حق دار ہوتے ہیں۔ ہمارے ان رویوں کے اثرات بہت برے اور دوررس ہوتے ہیں۔
ہمارے شہروں کے انتہائی تیز رفتاری سے، بے محابانہ اور بغیر کسی نظم و ضبط کے بڑھنےکے عمل نے ماحول کے قدرتی توازن کو بگاڑ دیا ہے۔درجہ حرارت کا بلند ہوجانا، موسموں کی تبدیلی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی بھی انہی رویوں کی دین ہے۔
بڑے شہروں کے انہی مسائل سے نمٹنے کے لئے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہمارا ارجن ان چند درختوں میں شامل ہے جو فضأ سے گرد کے ذرات، موٹر گاڑیوں کے دھوئیں اور اس میں موجود بھاری دھاتوں کے ذرات اور دیگر کثافتوں کو بہت سے دوسرے درختوں کی نسبت بہت بہتر انداز میں صاف کرنے صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا بلند قد کاٹھ اور شاخوں کا پھیلا ہوا جال درجہ حرارت کو کم کرنے اور موسموں کی شدت بھی کم کرنے کا باعث ہوتا ہے۔
ارجن اپنے مفید خواص کے باعث ہی عوام الناس کی محبت اور توجہ کا حقدار ہے۔اسے اس کی ظاہری خوبصورتی کی بنا پر ہی باغات اور شاہراہوں کے اطراف لگایا جاتا ہے۔ باغات کی آرائش کرنے کے لئے اور عوامی مقامات کو پر آسائش بنانے کے لئے ارجن ایک بہترین انتخاب ہے۔ اس کی بلندی کسی بھی باغ کے وسیع ہونے کا تاثر بھی ابھارتی ہےمگر پچھلی کئی دہائیوں سے اسے مکمل نظر انداز کیا جارہا ہے۔
ارجن لاہور کے نباتاتی ورثے کا اہم حصہ ہے اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ارجن لاہور کا چہرا ہےاور اسکے خدوخال میں شامل ہے۔مغل اور سکھ ادوار کے بعد لاہور کے آباد ہونے والے سبھی علاقوں میں ارجن کے پرانے مگر مضبوط اور قدآور درخت آج بھی اپنے ہمعصر پیپل، بوڑھ، سنبل، شرینھ اور کچنار سے قدم ملائے، سر اٹھائےکھڑے ہیں۔ مال روڈ، میو گارڈنز، جی او آر ون، لاہور کینٹ میں طفیل روڈ، سرفراز رفیقی روڈ، فیروز پور روڈ کے کچھ حصوں کے علاوہ ماڈل ٹاؤن وغیرہ میں ارجن کے عمدہ درخت دیکھے جاسکتے ہیں۔
ارجن قدرت کا ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ لاہور پاکستان کے ان گنے چنے شہروں میں شامل ہے جہاں آج بھی پرندے چہچہاتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں لاہور کی پرانی شجرکاری کا ہی احسان مند ہو چاہیے، جو درخت آج سے سو ڈیڑھ سو برس پہلے لگائے گئے تھے وہ مقامی اور ہمارے ماحولیاتی نظام کا حصہ تھے، وہ ان پرندوں کے لئے ایک تو اجنبی نہ تھے اور دوسرے ان پر ان کی پیٹ پوجا کا بھی انتظام تھا اور پھر بسیرا کرنے کے لئے ان پر صدیوں کا اعتماد بھی۔
پودے اور درخت جتنی اہمیت انسانوں کے لئے رکھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ پرندوں اور جانوروں کے لئے۔ انسان اشیأ کے متبادل ڈھونڈ لیتا ہے لیکن چرند پرند ایسی صورت حال میں یا تو نقل مکانی کر جاتے ہیں یا پھر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔
ہمارے بے مہار شہروں میں روز بروز بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کو روکنے اور اس میں قابل ذکر کمی کرنےکے لئے اگر ارجن کو ساجھے دار بنایا جائے تو کامیابی کے امکانات اس عجوبۂ روزگار کے نام کی طرح بہت روشن نظر آتے ہیں۔
سید قمر مہدی لاہور میں مقیم عالم اشجار ہیں وہ پنجاب لوک سجاگ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں
تبصرے (4) بند ہیں