ایک ستارہ ابھر رہا ہے
بھری جوانی میں دیوانے تو سبھی ہوتے ہیں، وہ مستانے بھی تھے۔۔ عاشق تو سبھی ہوتے ہیں مگر ان کی معشوق آزادی تھی۔
ہاتھ میں سگار, آنکھ میں خمار۔۔۔ چہرے پر سنجیدگی۔۔ لہجے میں شفگتگی۔۔۔ گفتگو میں بذلہ سنجی۔۔۔ مذاق مشکری میں کام کی بات کہہ جانا۔۔۔ جی ایچ کیو سے یارانہ ۔۔۔۔ باقی سارے بارہ آنہ۔
یہ تھے سید مردان شاہ راشدی پیر پگارو ہفتم۔۔۔(پاگارو یعنی پگ وارو کو انگریز کے ٹیڑھے منہ نے پاگارا بنادیا جسے پاکستان بھی سیدھا نہ کر سکا)۔ وہ فرزند تھے سید محمد صبغت اللہ شاہ (دوئم) راشدی پیر پاگارو ششم کے۔ جنہیں ان کے عشاق پیار دلار سے سوریھہ بادشاہ( گیلنٹ کنگ) کہتے تھے۔ ان کے نام پر منسوب شاہی سڑک کو، اپنے ماضی کو بھول جانے والا کراچی اسٹیڈیم روڈ کہتا ہے۔
اور ماضی بھی ایسا شاندار، اتنا قابل فخر کہ کسی اور قوم کے پاس ہوتا تو وہ بستی بستی، کوچہ کوچہ، قریہ قریہ، شارع شارع ان کی یادیں کھڑی کر دیتی۔ بھری جوانی میں دیوانے تو سبھی ہوتے ہیں، وہ مستانے بھی تھے۔۔ عاشق تو سبھی ہوتے ہیں مگر ان کی معشوق آزادی تھی۔
آزادی دنیا کا حسین ترین لفظ۔۔۔ غلامی۔۔۔ سب سے زیادہ غلیظ گالی۔۔۔
جس عمر میں لوگ تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اس عمر میں انگریز سامراج کیخلاف مسلح جدوجہد (حر تحریک) کی کمان۔۔۔ ایک بال بھی سفید نہیں ہوا تھا کہ اور شہادت۔۔
اس دور میں کراچی سینٹرل جیل کا جیلر تھا کرنل کارگل۔۔۔ بعد میں جس کے نام پر کشمیر کی رسوائے زمانہ پہاڑی کا نام پڑا۔ کارگل ہر شام اس بانکے چھبیلے قیدی کے ساتھ چائے پینے اور شطرنج کھیلنے آتا۔۔۔ اس شام بھی آیا جس کی صبح نہیں ہونی تھی۔
کرنل اداس تھا۔۔۔ دلگیر تھا۔۔ دلگرفتہ تھا۔۔ چپ چاپ چائے پیتا رہا۔۔۔اردلی کو شطرنج کی بساط لانے کا کہنا ہی بھول گیا۔ قیدی نے کھنکار کر اسے اداسی کے دریا سے نکالا اور حیرت کے سمندر کے ساحل پر لاکھڑا کیا۔۔ بولا ’آج شطرنج نہیں کھیلو گے‘
پھر قیدی نے بازی ہار کر کرنل کو بحر حیرت میں دھکیل دیا۔ کہنے لگا ’کرنل شاید آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں آج شطرنج نہیں کھیلوں گا۔۔۔ اور کھیلوں گا تو ہار جاؤں گا۔۔۔۔پر ہم نے تو اپنے آباء سے، اساتذہ سے ہار کر جیتنا سیکھا ہے‘۔
کل صبح میں اس دنیا میں نہیں رہوں گا۔ اس سے پہلے ہی مر جاؤں گا۔۔۔۔ مگر مسلمان ہونے کے ناطے میرا ایمان ہے کہ میری جو رات قبر میں لکھی ہے، وہ کبھی باہر نہیں گزار سکتا۔ موت کی گھڑی کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔
پھر یہ کہ میں اپنی دھرتی، اپنی قوم اور ان کی آزادی کیلیے اپنی جان کا نذرانہ دے رہا ہوں (حر تحریک کا نعرہ۔۔۔ ’وطن یا کفن‘ تھا)۔ ’میری گردن میں جو پھانسی کا پھندہ ڈالا جائے گا وہ تو میرے لیے پھولوں کیلیے کا ہار ہے۔۔۔ سرخ گلابوں کا۔۔۔۔ بہار ہی بہار ہے۔۔۔۔ بہت سکون ہے۔۔۔ بڑا قرار ہے۔۔۔ پھر میں بازی کیوں نہ جیتوں۔‘
بزدل گورے نے سوریھہ شاہ کو پھانسی دیدی۔ علی الصبح نہیں۔ رات کے اندھیرے میں ۔ چھپ چھپ کر۔ جیسے کوئی گناہ کیا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہیں شہید کرنے کے بعد ان کی لاش بھی گم کردی۔ آج تک اس وسیع و عریض دھرتی پر کہیں بھی جدوجہد آزادی کے اس سپہ سالار کی کوئی قبر نہیں ہے۔
سوریھہ بادشاہ مغلیہ خاندان کے آخری درویش صفت شہنشاہ بہادر شاہ ظفر سے بھی بازی لے گیا۔
اس کے بیٹے کی عمر ڈھائی سال کے لگ بھگ تھی اس وقت۔۔۔ انگریز اسے بھی اٹھا کر لے گیا۔ اغوا کر کے۔ اس نے عمر کے پچیس سال برطانیہ کے یخ بستہ موسم میں گزارے جس نے اس کے خون کی حدت کو برفا دیا۔
وہ لوٹا تو زمانہ ہی نہیں وہ خود بھی بدل چکا تھا۔ آسائش کوشی اور عافیت پسند بن چکا تھا لیکن اسے باپ سے ورثے میں جو بے باکی ملی تھی اسے کیا کرتا۔ کہاں چھپاتا۔ پیار تو ہونا تھا ۔ ہوا اور اظہار بھی ہوا۔۔ ببانگ دہل۔ ڈنکے کی چوٹ پر۔ پنڈی کے راول سے یارانہ تو سبھی کا ہے لیکن اس عاشقی میں رسوائی کسی کو گوارا نہیں۔ سب چھپاتے ہیں۔ وہ بتاتا تھا۔۔ کھلے عام۔ (اب شیخ رشید اس کی بھونڈی نقل کرتا ہے۔ سگار کے ساتھ۔ مگر کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا۔۔ بلکہ کاڈے کنھن مریم جو کاڈے ٹنڈو الھیار۔)
وہ سندھ کا سب سے بڑا ہیرو تھا مگر قدامت پرست نہیں روشن خیال تھا۔۔ اپنے مریدین، معتقدین اور مقلدین کو تواتر کے ساتھ تلقین کرتا تھا کہ وہ اپنی بچیوں کو ضرور تعلیم دلوائیں۔
بیٹا باپ سے بھی اگے نکلا۔ بڑے پیر پاگارو کے انتقال کے بعد جب ’راجہ سائیں‘ نے تخت کنگری پر براجمان ہو کر شاہی خرقہ نکالا اور تاج پہنا تو سب سے پہلے اپنے ماننے والوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی بچیوں کو پسند کی شادی کا حق دیں۔
یہی نہیں بلکہ باپ کے چالیسویں سے پہلے ہی بیٹے نے اس کے ایک فرمان کو منسوخ کردیا۔ 1990 کے عشرے کے ابتدائی سالوں میں جب کراچی میں سندھی ٹوپی اور اجرک موت کا پروانہ بن گئے تھے تو بڑے پیر پاگارو نے اپنے مریدوں کو حکم دیا تھا کہ وہ سندھی ٹوپی پہننا ترک کر دیں اور اس کے ببجائے سر پر سفید ٹوپی رکھیں۔
نیے پاگارو نے سندھی ٹوپی بحال کردی۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ سندھی قوم پرست سیاست کے ساتھ جڑ گیا۔ کیماری سے کشمور اور کیٹی بندر سے کموں شہید تک سندھ کی تقسیم کا اعلان سمجھے جانے والے نئے بلدیاتی نظام کے قانون کے خلاف قوم پرستوں نے ہڑتال کی کال دی تو پیر صاحب کے حکم کے مطابق فنکشنل مسلم لیگ کے کارکن بلکہ حر(پیر صاحب کے امر پر اپنی جان نچھاور کرنے کو ہر وقت تیار جاں نثار مرید) بھی اس احتجاج کو کامیاب کرانے کیلیے سڑکوں پر نکل آئے۔
اور جب یہ بل سندھ اسمبلی میں پیش ہوا تو اس تاریخ ساز ایوان نے ایک عجب تماشا دیکھا۔ مختصر مگر موثر حزب اختلاف فرش پر بیٹھی ہوئی تھی۔ دھرتی کی گود میں۔ اور ان کی قیادت قائد حزب اختلاف جام مدد علی نہیں بلکہ ماروی راشدی اور نصرت سحر عباسی کر رہے تھے۔ ( پہلی کا تعلق راشدی خاندان سے ہے اور دوسری کا حسب نسب سندھ کے سابق حکمرانوں سے ملتا ہے)۔
ایک جانب محمود کی ہاں تھی، (محمود کی نہیں زرداری کے ایاز کی)، کمبی، چوڑی، پنجابی فلموں کی بڑک جیسی ۔۔۔ آئے، آآئے، آآآآئے، آئے۔ اور منہ لٹکائے ہوئے مراد علی شاہ کی خاموشی۔ (کیا اسے اپنا وہ چچا یاد آرہا تھا جسے نوے کی ننگی دہائی میں کراچی کی خون آشام سڑکیں نگل گئیں؟) اور دوسری جانب نصرت سحر عباسی کی چیخ و پکار تھی۔ شیرنی کی للکار تھی۔ پرو میتھیئس کا انکار تھا۔ دہر یے فیض کی دعا کی قبولیت تھی۔
رات کے اندھیرے میں جاری کردہ اس سیاہ آرڈیننس کو پیپلز پارٹی نے اپنے تئیس ارکان کی ’خاموش‘ مخالفت کے باوجود بغیر کسی بحث کے منٹوں میں منظور کروا لیا مگر کیا اس کے بعد یہ پارٹی عوام کی جماعت رہی؟
اس کا جواب وہ کالک ہے جو پی پی پی کے ووٹرز نے اپنی قیادت کے منہ پر ملی ہے۔ وہ بھی نواب شاہ میں جو ویت نام بن چکا ہے۔
ہاں اس رات کے بطن سے ایک نیا ستارہ ابھر رہا ہے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد خود کو لاوارث سمجھنے والی سندھی قوم تو پہلے ہی کسی مسیحا کے انتظار میں تھی، تلاش میں تھی۔۔ اس کا اظہار، عدم تحفظ کا شکار ہندو برادری کے ایک اخباری اشتہار میں ہوا تھا جس کے بائیں کونے پر کنور بھگت اور دائیں کونے پر نئے پیر پگارو کی تصویر تھی۔
عباس جلبانی میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں