حیدرآباد سے جعفرآباد تک
حیدرآباد
وہ جلسہ تھا یا جلسی تھی یا پپلیوں کی برسی تھی
گھر پر سوتے تھے جیالے چمچے کڑچھے اور پیالے خوش ہوتے تھے گویا انکی ختنہ ہو یا شادی ہو زرد وڈیرے آئے تھے اور محکوموں کو لائے تھے بی بی کی روح روتی تھی اور بھٹو تھا اداس بہت اک زرداری سب پر بھاری اک بارِگراں اک وار تھا کاری
کوئٹہ
اک بستی بائی پاس کے پاس جہاں پولیو ٹیم پر حملہ ہے یہ حملہ کتنا کملا ہے اسکولوں کو یہ ڈھاتا ہے اور ویکسی نیٹر گراتا ہے چلّاتا ہے کہ یہ بچی جو پڑھتی ہے اور لکھتی ہے جاسوسن ہے امریکہ کی دہشت کی وحشت کے آگے دیوار ہےوہ، بیزار ہیں ہم ان اندھے بہرے ہتھیاروں سے
اسلام آباد
ایوان سجا فرزانوں کا نگہبانوں کا، بے جانوں کا وہ تانے بانے بنتے ہیں پر کچے سچے دھاگوں سے اور مکڑی کودتی پھاندتی ہے دن دن دھاگے باندھتی ہے آزادی سے، بے خوفی سے پختونخواہ کے اک شاعر نے کل تھا کہا پر سچ ہے نیا
خاک ہو جائیں کے پروانے سحر ہونے تک کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
جعفرآباد
برسات تو آئی چلی گئی بربادی اب بھی باقی ہے دوچار ہزار نہیں ہیں یہ یہ لاکھوں ہیں جو بے گھر ہیں اور سر پہ نہیں سایبان کویی بیماری ہے لاچاری ہے بھوک سے زیست بھی ہاری ہے نہیں لاشیں تک دفنانے کو دھرتی پر قبرستان کوئی سرکار مگر سناٹے میں خراٹے لیتی رہتی ہے کیسے کوئی اقدام کرے اس بے خبری کے جالے میں خبروں والے بھی شامل ہیں کہ جعفرآباد ہے دور بہت کہیں دور کسی سیارے یہ واقع ہے مجبور بہت
عباس جلبانی میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔