کولمبس نے کیا ڈھونڈا؟
یہ واقعہ 12 اکتوبر 1492 کا ہے، انہیں بندرگاہ چھوڑے اور سمندر کی تیز و تند لہروں سے نبرد آزما ہوتے پانچ ہفتے بیت چکے تھے۔ دوپہر ڈھل رہی تھی، کوئی دو بجے کا وقت ہوگا جب ملاح روڈریگو زور سے چلایا، اس نے زمین دیکھ لی تھی، وہ زمین جو اپنے آپ میں ایک دنیا تھی ، ایک نئی دنیا۔
کولمبس نے اس جزیرے کو سان سلواڈور کا نام دیا، یہ کولمبس کے خوابوں کی تعبیر تھی اور ابتدا تھی اس کھوج کی جو آنے والی کئی صدیوں تک جاری رہنے والی تھی۔
کولمبس اسپین سے انڈیا کی تلاش میں نکلا اور ایک نئی دنیا میں جا پہنچا۔ ایک نئی دنیا جو آزاد تھی، پر امن تھی اور قدرتی وسائل سے مالامال بھی تھی۔
امریکہ کی جانب کولمبس نے اپنا آخری سفر 1502 میں کیا مگر آنے والی کئی صدیوں تک پوری دنیا سے آبادکار، تاجر، سونے اور ہیروں کے متلاشی اور مہم جو اس پراسرار زمین کا رخ کرتے رہے۔
جہاں اس سرزمین پر قبضے، قتل و غارت اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری تھا وہیں قدرتی سائنسز کے ماہرین اور محقیقین کا ایک گروہ بھی تھا جو اس برعظیم کی خاک چھان رہا تھا اور دنیا کو نت نئے پودوں ، درختوں اور پھولوں سے آشنا کر رہا تھا۔ کولمبس نے جس نئی دنیا کا راستہ دیکھایا اسے دراصل علماۓ سائنس نے دریافت کیا۔ انہیں میں سے ایک قدآور شخصیت فرانس کے جناب چارلس پلومیر کی بھی تھی۔
ستارویں صدی کے اواخر میں انہوں نے امریکہ کے تین سفر کئے جو نباتات کی دنیا میں گراں بہا اضافے کا با عث بنے، بے شمار پودے اکھٹے کئے اور ان کی نباتاتی تفصیلات پر جامع تحقیق کی۔ کئی کتب تحریر کیں۔ نو دریافت شدہ پودوں کی درجہ بندی کی اور بڑھتے ہوئے نئے علم کی روشنی میں نباتاتی خاندانوں اور ان کے ذیلی خاندانوں کو نئے سرے سے ترتیب دیا جسے آج بھی درست تسلیم کیا جاتا ہے۔
ان کے بعد آنے والے سبھی ماہرین نباتات نے ان کا نام بہت احترام سے لیا اور ان کے بیش بہا کام کی ستائیش کی۔ ان کی انہیں خدمات کے اعتراف میں نباتات کے مشہور خاندان ‘‘اپوسائین ایسی’’ کے ایک ذیلی خاندان کو ان سے معنون کیا گیا جو اب ‘‘پلومیریا’’ کہلاتا ہے۔ یہ ایک مختصر سا خاندان ہے جس کے ارکان کی تعداد آٹھ سے دس ہے ۔یہ تعداد میں تو کم ہیں مگر ان میں سے ہر ایک اپنے ظاہری حسن و جمال اور اپنی بہت ہی منفرد اور اچھوتی خوشبو کے باعث کئی ایک پر بھاری ہے۔
ماہرین نے اس کا وطن جنوبی اور وسطی امریکہ اور بطور خاص میکسیکو کو قرار دیا ہے جبکہ کچھ ماہرین اس کے آبائی وطن میں جنوبی ہندوستان کو بھی شامل کرتے ہیں۔اس کے آبائی وطن کی اسی وسعت نے اس کے کئی ناموں کو جنم دیا۔ مغرب میں تو اس کے نباتاتی نام یعنی پلومیریا کو ہی قبولیت کی سند حاصل ہے لیکن ایک اور نسبت سے اسے ایک فرانسیسی معزز خاندان کے نام ‘‘فرنگی پانی’’ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ وہ خاندان ہے جس نے اس کی محصور کن خوشبو کو عطر کی صورت میں پوری دنیا میں متعارف کرایا۔
انگریزوں نے اسے ہندوستان کےمندروں میں دیکھا تو انڈین ٹمپل ٹری کہا، دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے لینے والی اس کی نازک خوشبو شام کو اور بھی گہری ہوجاتی ہے تو براذیل کے لوگوں نے اسے لیڈی آف دی نائٹ کہا۔ برصغیر کے طول و عرض میں اور مشرق بعید میں اسے چمپا کہا جاتا ہے۔ اردو اور فارسی میں یہ گل چیں کہلاتا ہے۔سری لنکا کی قدیم زبان سنہالی میں اسے ارالیا اور پانسا مال یعنی مند رکا پھول کہا جاتا ہے۔
اس بحث سے قطع نظر کہ بر صغیر اس کا آبائی وطن ہے یا یہ بعد میں یہاں کاشت ہوا، ہندو اور بدھ مت کی کئی مذہبی رسومات اس کی شمولیت کے بنا ادھوری رہتی ہیں۔
چمپا، گل چین یا پلومیریا ایک چھوٹے قد کاٹھ کا درخت ہے اور پھولدار درختوں اور جھاڑیوں والےبڑے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس وسیع خاندان کے کچھ اور ارکان بھی ہمارے ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں اور کچھ صدیوں سے کاشت ہونے کے باعث اب اپنے ہی سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں قابل ذکر نام السٹونیا، کنیر اور پیلی کنیر وغیرہ ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں اس کی دو اقسام زیادہ کاشت ہوتی ہیں دونوں اپنی ظاہری وضع قطع، خوشبو اور قد بت کے اعتبار سے کچھ کچھ مختلف بھی ہیں اور مماثلت بھی رکھتی ہیں۔ ایک کے پتے لمبے مگر نوک دار ہوتے ہیں جبکہ دوسرے کے لمبے اور گول سرے والے، ایک کی خوشبو دھیمی اوردور دور رہنے والی جبکہ دوسرے کی آگے بڑھ کر لپٹ جانے والی۔ ان ظاہری اختلافات کے باوجود ان کی نباتاتی تفصیلات اور بڑہوتری کی عادات ایک سی ہوتی ہیں ۔ تفصیلی تذکرے کے لئے ہم نے گول پتے والی زیادہ مقبول قسم کا انتخاب کیا ہے۔
جنوبی ہندوستان اور اس کے دوسرے آبائی علاقوں میں چمپا چالیس فٹ تک بلند ہوسکتا ہے لیکن ہماری آب وہوا میں یہ بیس فٹ سے شازونادر ہی اوپر جاتا ہے۔پتوں کی چھتری دس سے پندرا فٹ چاروں اطراف پھیلی ہوئی اور گول ہوتی ہے، اپنی مخصوص وضع قطع کے باعث دور ہی سے پہچانا جاتا ہے۔پتے چوڑے ہوتے ہیں ، اس شکل و صورت کو نباتاتی زبان میں ‘‘ اوبوویٹ’’ کہا جاتاہے یعنی نیچے سے تنگ اور آگے سے چوڑے اور گول۔
شاعر انہیں محبوب کی یاد میں بہائے جانے والے آنسوؤں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ چمپا کو اپنے اشعار میں بطور استعارہ جگہ دینے والے شعرأ کی فہرست طویل ہے اور اس میں برصغیر کے عظیم شاعر جناب رابندرناتھ ٹیگور کا نام بھی شامل ہے۔انہوں نے بھی اس مہکتے حسن کو اپنے جذبات کے اظہار کے لئے چنا۔
گہرے سبز پتے جنہیں ہم کاہی بھی کہہ سکتے ہیں اوپر سے چکنے اور ملائم ہوتے ہیں نچلی سطح قدرے ہلکے رنگ کی اور کھردری ہوتی ہے، رگیں پیلی، واضح اور ابھری ہوئی جنہیں نچلی سطح پر محسوس کیا جاسکتا ہے خصوصاً مرکزی رگ کو۔ چکنی اوپری سطح نہ صرف نمی کو برقرار رکھنےاور موسموں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے بلکہ فضأ میں موجود گرد اور موٹر گاڑیوں کے دھوئیں میں پائے جانے والے بھاری دھاتی اجزأ کو صاف کرنے میں بھی معاون ہوتی ہے۔ اس طرح یہ بھی ان درختوں اور پودوں میں شمار کیا جاتا ہے جو بہت سے دوسرے درختوں کی نسبت یہ کام زیادہ محنت سے کرتے ہیں اور سڑکوں کے اطراف لگائے جانے کے لئے موزوں خیال کئے جاتے ہیں۔
آٹھ سے دس انچ کے یہ دبیز گہرے سبز پتے، ایک سے ڈیڑھ انچ موٹی ، پھولی پھولی شاخوں کے سروں پر اکٹھے، گچھوں کی صورت نکلتے ہیں اور پھر ان کے درمیان سے پھولوں کی ڈالی نمودار ہوتی ہے۔ گہرے سبز جسے ہم مونگیا سبز بھی کہہ سکتے ہیں کے بہت سے پتوں کے جھرمٹ سے گلابی رنگ کی مخروطی کلیوں کا نکلنا ایک دلفریب منظر ہوتا ہے۔
جلد ہی یہ کلیاں بہت ہی پاک و پاکیزہ سفید پھولوں میں تبدیل ہو کر منظر کو اور بھی دلفریب بنا دیتی ہیں۔ پھولوں کی نچلی سطح پر سفید اور گلابی دھاریاں ہوتی ہیں اور یہ نچلی طرف سے بھی دلکش دیکھائی دیتا ہے۔ پھول کے درمیانی حصے پر ہلکا پیلا رنگ سفید کو اور بھی نمایاں کرتا ہے اور اس کے مجموعی تاثر کو بڑھاتا ہے۔
چمپا کی خوشبو دھیمی، دلفریب اور دور تک پھیلنے والی ہوتی ہے۔ اس سے قطع نظر کے آپ کون ہیں، کیا ہیں، خوش ہیں یا اداس، آگے بڑھ کر اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور گرفتار بلا سب کچھ بھول کر بس اسی میں کھو جاتا ہے۔ شام کو اندھیرے ساتھ ساتھ خوشبو گہری ہوتی جاتی ہےاوردور سے ہی معلوم ہوجاتا ہےکہ چمپا یہیں کہیں ہے۔
گہرے سبز پتوں کے درمیان اس کے سفید پھول اندھیرے میں اور بھی چمکتے ہیں اور اس کا نظارہ طلسماتی سا ہو جاتا ہے۔شاید اسی طلسم نے برازیل کے لوگوں کو اسے لیڈی آف دی نائٹ کہنے پر اکسایا، اور اٹلی کا فرنگی پانی خاندان تو اس کے عطر سے ایسا مہکا کہ اب خود چمپا یورپ میں فرنگی پانی کہلاتی ہے۔
چمپا کے پھول رس دار نہیں ہوتےمگر رس کے متلاشی کیڑے بھی اس کی خوشبو پر کھچے چلے آتے ہیں اور رس کی تلاش میں ایک پھول سےدوسرے پھول تک سرگرداں رہتے ہیں اور یوں پولی نیشن کا اہم کام جو چمپا کی اپنی نباتاتی بڑھوتری کے لئے بھی لازمی ہوتا ہےسرانجام پاتا ہے۔
چمپا کی شاخیں ایک سے ڈیڑھ انچ موٹی ہوتی ہیں اور ایک سے ڈیڑھ فٹ پر تقسیم ہوجاتیں ہیں۔ چمپا کا درخت اس وقت بھی قابل دید ہوتا ہے جب سردیوں میں اس کے تمام پتے جھڑ جاتے ہیں اور موٹی موٹی شاخیں ایک دوسرے کے آگے پیچھے سے راستہ بناتی، تقسیم ہوتی ہوئی آگے کی جانب بڑھتی ہیں۔ سارا درخت شاخوں کا ایک جال سا نظر آتا ہے۔
شاخوں اور تنے کا رنگ ایسا سلیٹی رنگ ہوتا ہے جس میں سبز کی بھی آمیزش ہو، کچھ کچھ میلا سا اور چکنا، اسی لئےدور سے چمکتا بھی دیکھائی دیتا ہے۔ چھال بالکل ہموار نہیں ہوتی اور کیکر، شیشم کی طرح بہت کٹی پھٹی بھی نہیں بس ہلکی ہلکی سے بے ترتیب لکیریں اس کے ہموار ہونے کی نفی کرتی ہیں۔ ایک بھرپور پودے کا تنا آٹھ سے دس انچ تک موٹا ہوتا ہے، لکڑی لچکدار تو ہوتی ہے مگر بہت مظبوط نہیں ہوتی پھر بھی طوفانوں کے آگے ڈٹا رہتا ہے۔ اگر درختوں کے درمیان کاشت کیا جائے تو نقصان کا اندیشہ کم رہتا ہے۔
دنیا بھر کے لوگوں کی اس سے اتنی محبت نے بھی وہی کچھ کیا جو عموماً محبت میں ہوتاہے یعنی کئی گارڈن کلٹیوارز کا جنم، اس عمل میں تمام نباتاتی تفصیلات تو وہی رہتی ہیں مگر پھولوں کے رنگ ، سائز وغیرہ میں حسب منشا تبدیلی کی جاتی ہے تو اب نرسریوں پر اس کے نئے رنگ دستیاب ہیں، کئی طرح کے سرخ، گلابی، دھاریدار اور چھوٹے بڑے پھول۔
چمپا کی کاشت بھی کوئی مشکل کام نہیں اسے بیج سے بھی اور قلم لگا کر بھی اگایا جاسکتا ہے۔ دوسرا طریقہ آسان بھی ہے اور وقت بھی بچاتا ہے۔ چمپا کی ڈیڑھ فٹ لمبی صحت مند شاخ اس کام کے لئے مناسب خیال کی جاتی ہے۔ اسے کچھ دنوں کے لئے سوکھنے کو چھوڑ دیا جائے تاکہ اس کا زخمی سرا جس سے دودھیا سی رتوبت نکلتی ہے خشک ہوجائے۔ پھر نرم مٹی یا بھل میں پتوں کی گلی سڑی کھاد ملا کر آٹھ سے دس انچ کے مومی لفافے یا گملے میں اس طرح لگایا جائے کہ قلم کا چار سے پانچ انچ حصہ مٹی میں ہو۔
بہت جلد چمپا کے پتے حسب عادت شاخ کے اوپری حصے سے نمودار ہونگے۔ اس عمل میں پندرا سے بیس دن بھی لگ سکتے ہیں۔
چمپا کی کاشت چاہے قلم لگا کر ہو یا پھر بیج سے، مناسب وقت موسم بہار یا گرمیوں کی شروعات (فروری سے مئی) ہی ہوتا ہے، ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مومی لفافے یا گملے میں پانی کے نکاس کا مناسب بندوبست ہونا چاہیے۔ جب تک مٹی خشک نہ ہوجائے مزید پانی نہیں دینا چاہیے، پودے کو ایسی جگہ رکھیں جہاں پوری دھوپ پڑتی ہو۔ قلم لگا تے وقت اگر زخمی حصے پر روٹنگ پاؤڈر لگا لیا جائے تو پودا کیڑوں اور بیماریوں سےمحفوظ رہتا ہے۔ یہ پاؤڈر نہ صرف حشرات الارض اور پھپھوندی سے بچاتا ہے بلکہ جڑیں بننے کے عمل کو تیز کرتا ہے اور قلم کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جب مومی لفافہ یا گملہ جڑوں سے بھرجائے تو اسے زمین میں جہاں لگانا ہو منتقل کیا جاسکتا ہے۔
چمپا یا پلومیریا کو عموماً اس کے ظاہری حسن اور خوشبو کے لئے کاشت کیا جاتا ہے۔سڑکوں کے اطراف اور باغات میں اس کی موجودگی ایک نظر نے آنے والی کشش اور آسودگی کا باعث ہوتی ہے۔
چمپا کی افادیت ایسے رہائیشی علاقوں جن میں کھلے گندے نالے ہوں اور ایسے صنعتی علاقے جہاں فضائی آلودگی میں ناگوار بو کا عنصر نمایاں ہو بہت بڑھ جاتی ہے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے شہروں کا سب سے بڑا مسلۂ کئی طرح کی فضائی آلودگی قرار دیا جاتا ہے۔ موٹر گاڑیوں کا دھوأں، صنعتوں اور کارخانوں کا مہلک گیسوں کا اخراج اور شہروں کی سبز چھتری کا کم یا کئی صورتوں میں ختم ہوجانا اس کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ انہیں مسائل سے نمٹنے کے لئےہندوستان میں ہوئی ایک تحقیق کے مطابق ہمارے کئی اور مقامی درختوں اور پودوں کے ساتھ چمپا بھی فضأ سے گرد، موٹر گاڑیوں کے دھوئیں اور کئی طرح کی صنعتی آلودگی کو صاف کر نے کی نمایاں اور بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کے بطور دوا استعمال کی بہت قدیم روایت نہیں ملتی۔ اس سے کن کن بیماریوں کا علاج کیا جاتا رہا ہے اور امریکہ کے قدیم باشندوں کی کون کون سی ادویاتی ضروریات چمپا سے پوری ہوتی تھیں یہ بتانے کے لئے وہ اب موجود نہیں، اس کی کاشت کے دوسرے علاقوں یعنی انڈیا، انڈونیشیا اور ملایشیا وغیرہ میں اس کے ادویاتی استعمال کا پتہ چلتا ہے۔اس کے پتوں، چھال اور شاخوں اور پتوں کو توڑنے سے نکلنے والی رطوبت کو ادویہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے پتوں اور چھال کو ایک خاص طریقہ کار سے جسے ڈی کوک شن کہا جاتا ہے قبض اور پیٹ کے متعدد امراض اور پھٹی ایڑیوں اور کچھ اور جلدی امراض کے علاوہ جنسی تعلق سے پھیلنے والے امراض جن میں گنوریا بھی شامل ہے کے علاج کے لئے تجویز کیا جاتا ہے۔ انڈیا کے کچھ علاقوں میں چمپا کے پھول پان کے ساتھ بخار اور ملیریا وغیرہ کے علاج کےلئے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔
آج کل اس کے بطور دوا استعمال اور اس سے حاصل ہونے والے کیمیائی اجزأ پر تحقیقی کام ہورہا ہے مگر وہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات سے زیادہ نہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان (کراچی یونیورسٹی)، انڈیا، جاپان اور ملایشیا میں ہونے والی تحقیق کے مطابق اس کی چھال، پتون اور جڑوں سے حاصل ہونے والے کیمیائی اجزأ بطور انٹی ٹیومر اور انٹی بیکٹیریل استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
اس ضمن میں بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ڈھونڈے گئے ان اجزأ کو ادویہ میں تبدیل کیا جاسکے، کیا خبر ہم بنی نوع انساں کو کسی خطرناک مرض سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جائیں۔
سید قمر مہدی لاہور میں مقیم عالم اشجار ہیں وہ پنجاب لوک سجاگ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں