طالبان کی ملالئے کے والد کو نشانہ بنانے کی دھمکی
پشاور: سوات کی چودہ سالہ لڑکی ملالئے یوسفزئی پر قاتلانہ حملے میں ناکامی کے بعد سوات طالبان کے ترجمان نے ملالئے کے والد کو قتل کی دھمکی دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق سوات طالبان مولانا فضل اللہ عرف "ریڈیو ملا" جنہوں نے اس سے قبل سوات کے علاقے کا کنٹرول سنبھالا ہوا تھا کے ترجمان سراج الدین احمد نے رائٹرز کو بتایا کہ نو عمر لڑکی کو نشانہ بنانے کیلیے فضل اللہ کے خاص ہٹ اسکواڈ کے دو کلرز بھیجے گئے تھے۔
سوات طالبان پر تحریک طالبان پاکستان کے سائے تلے کام کرنے کے حوالے سے مشہور ہے جس کے پاس تقریباً سو ماہر ٹارگٹ کلر موجود ہیں۔
رائٹرز کے مطابق سراج نے بتایا کہ ملالئے کو نشانہ بنانے کیلیے وادی سوات سے ہی تعلق رکھنے والے بیس سے تیس سال کی عمر کے دو افراد کو منتخب کیا گیا تھا۔
افغانستان کے صوبے کنڑ میں موجود ترجمان سراج احمد نے بتایا کہ ہمارا اسے مارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن جب اس نے ہماری بات نہیں مانی ہمیں یہ طریقہ اپنانا پڑا۔
احمد نے کہا کہ کچھ ماہ قبل طالبان کی ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں ملالئے کو مارنے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا اور پھر اس کے بعد یہ کام ملٹری کمانڈر کے سپرد کیا گیا تھا۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ترجمان نے بتایا کہ طالبان کے رہنماؤں کی میٹنگ دو ماہ قبل ہوئی تھی۔
اے پی کے مطابق سراج الدین نے مزید کہا کہ ملالئے یوسفزئی کو تین بار وارننگ دی تھی کہ وہ مغربی فکر کو ترقی نہ دے لیکن وہ نہیں مانی۔ ان کو آخری وارننگ ایک ہفتہ قبل دی گئی تھی۔
پاکستان آرمی نے 2009 میں آپریشن کر کے فضل اللہ کو سوات سے باہر نکال دیا تھا تاہم اس کے اادمی سرحد پار کر کے افغانستان میں روپوش ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز میں فضل اللہ کے آدمیوں نے سرحد پر حملوں کے دوران سترہ پاکستانی فوجیوں کو اغوا کر کے ان کے سر تن سے جدا کر دیے تھے۔
سراج نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ حملے سے قبل جنگجوؤں نے ملالئے کے ساکول کے راستے، اس کے زیر استعال گاڑی کے اوقات اور سیکیورٹی کے حوالے سےتمام معلومات اکٹھی کر لی تھیں۔
انہوں اسے فوج کی چیک پوسٹ کے نزدیک اس لیے نشانہ بنایا تاکہ یہ پیغام دے سکیں کہ ہم کسی کو کہیں بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
منگل کو نوعمر لڑکی کو گھر لیجانے والی گاڑی کو دو آدمیوں نے روکا اور پھر نام لے کر ملالئے کو شناخت کیا۔ حالانکہ خوفزدہ لڑکیوں نے کہا کہ وہ یہاں نہیں ہے لیکن اسی اثنا میں ایک شخص نے اس پر فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر دو اور بچیاں بھی زخمی ہو گئیں جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
احمد نے مزید کہا کہ ہم ملالئے کو تو ہلاک کرنے میں ناکام ہو گئے لیکن اب ہم اس کے والد کو نشانہ بنائیں گے۔
لڑکیوں کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور ملالئے کے والد ضیاالدین یوسف زئی طالبان کیخلاف بات کرنے، علاقے میں پرامن سرگرمیوں کو فروغ دینے اور ملالئے کی حوصلہ افزائی کرنے پر ان کی ہٹ لسٹ پر تھے۔
احمد نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا دوٹوک موقف ہے کہ جو کوئی بھی ہمارے خلاف حکومت کی حمایت کرے گا وہ ہمارے ہاتھوں مارا جائے گا اور اب جلد دیکھیں گے کہ ہم بقیہ اہم لوگوں کو بھی جلد نشانہ بنائیں گے۔
اس سے قبل تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نوعمر لڑکی پر قاتلانہ حملے کی ذمے داری قبول کر چکے ہیں۔
ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان کی جانب سے بیان کے باوجود سوات طالبان کے ترجمان سراج الدین احمد نے یہ بیان کیوں دیا ہے۔