فلپائنی حکومت اور مسلمان باغیوں میں امن معاہدہ
منیلا: چالیس سالہ مسلح تصادم اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد کی ہلاکت کے بعد آخرکار فلپائنی حکومت اور مسلم مسلح باغیوں کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا ہے۔
اس بات کا اعلان فلپائن کے صدر بینینو اکینو نے اتوار کے روز اس بات کا اعلان کیا۔
تفصیلات کے مطابق پندرہ اکتوبر دو ہزار بارہ کو فلپائنی دارلحکومت منیلا میں امن معاہدے پر دستخط کئے جائیں گے۔ معاہدے میں شورش زدہ علاقے میں قیمتی وسائل تک رسائی کے معاملات پرزیرِ غور آئیں گے۔
فلپائن ایک رومن کیتھولک ملک ہے جس کے جنوب میں مسلم اکثریتی آبادی کا ایک خطہ بونگاسمورو طویل عرصے سے مسلمان باغیوں کے کنٹرول میں رہا اور دوہزار سولہ تک اکینو کے عہدِ صدارت کے اختتام سے قبل تک اس علاقے کو خودمختاری دیدی جائے گی۔
چالیس سالہ مسلح تصادم اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد کی ہلاکت کے بعد آخرکار فلپائنی حکومت اور مسلم مسلح باغیوں کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا ہے۔
اس بات کا اعلان فلپائن کے صدر بینینو اکینو نے اتوار کے روز اس بات کا اعلان کیا۔
تفصیلات کے مطابق پندرہ اکتوبر دو ہزار بارہ کو فلپائنی دارلحکومت منیلا میں امن معاہدے پر دستخط کئے جائیں گے۔ معاہدے میں شورش زدہ علاقے میں قیمتی وسائل تک رسائی کے معاملات پرزیرِ غور آئیں گے۔
فلپائن ایک رومن کیتھولک ملک ہے جس کے جنوب میں مسلم اکثریتی آبادی کا ایک خطہ بونگاسمورو طویل عرصے سے مسلمان باغیوں کے کنٹرول میں رہا اور دوہزار سولہ تک اکینو کے عہدِ صدارت کے اختتام سے قبل تک اس علاقے کو خودمختاری دیدی جائے گی۔
چالیس سالہ تنازعے میں پندرہ سال ان مذاکرات کے بھی شامل ہیں جن کے ساتھ ساتھ فلپائنی حکومت اور باغیوں کے درمیان گفتگو کے ساتھ ساتھ جھڑپیں بھی ہوتی رہیں۔
معاہدے کی رو سےفلپائنی حکومت اور باغیوں کے سب سے بڑے دھڑے باہمی طور پر امن معاہدے پر عمل کریں گے۔ معاہدے پر پندرہ اکتوبر کو دستخط ہوں گے جس کی تقریب میں ملائیشیا کے وزیرِ اعظم نجیب رزاق بھی بطور گواہ شریک ہوں گے۔
واضح رہے کہ دونوں فریقین کے درمیان قدرتی وسائل سے مالامال خطے میں امن کیلئے کئی مزاکراتی ادوار ملائیشیا کے دارلحکومت کوالا لامپور میں بھی ہوئے تھے ۔
فلپائنی صدر کی جانب سے پیش کردہ معاہدے کی تفصیلات کو براہِ راست صدارتی محل سے نشر کیا گیا ۔
اگرچہ اب بھی امن معاہدے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں تاہم ناقدین نے اس عمل کو فلپائنی حکومت اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ یا ایم آئی ایل ایف کے علیحدگی پنسدوں کے درمیان ایک بڑی پیس رفت قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایم آئی ایل ایف کے سینیئر باغی رہنما اب عمر رسیدہ ہوکر تھکاوٹ کا شکار ہوچکے ہیں اور وہ اپنی چالیس سالہ جدوجہد کے ثمرات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ بعض مسلح گروہ ایم آئی ایل ایف سے علیحدہ ہوکر اپنے طور پر حکومت کیخلاف مسلح جدوجہد شروع کرسکتے ہیں ۔