گستاخ کا سر اور بولیوں کے مقابلے
یہ حقیقت ہے کہ کامیڈینز اور سیاستدان ہمیشہ ایک ایسے موڑ کے منتظر ہوتے ہیں جن کے ساتھ کھیلا جاسکے۔ دونوں موقع کی مناسبت سے ایسا روپ دھارتے ہیں تاکہ تماش بین کی توجہ حاصل کرسکیں۔ دونوں مبالغے کے استاد، اپنے قد سے بڑی باتیں ہانکنے کے عادی اور حیرت انگیز حرکات اور دعووں کے شکاری ہوتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایسے ہی ایک موقعہ سے خیبر پختونخواہ کے حاجی غلام بلور نے، جو کہ ہماری آخری سانسوں کی مہمان ریلوے کے وزیر بھی ہیں، بہت فائدہ اُٹھایا ۔ انہوں نے نہ صرف گستاخِ رسول، نکولا، کے سر کی قیمت ایک لاکھ ڈالر مقرر کی اور اس میں طالبان اور القاعدہ سمیت تمام اہلِٰ ایمان سورماوٴں کو دعوتِ جہاد دی بلکہ ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ اس سے دہشت گردی میں کمی آئے گی۔ شاید دہشت گردی میں زیادہ بڑا ذریعہ ان کے ایک لاکھ ڈالر کا ہے جن کے جاتے ہی اس میں کمی آجائے گی۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ موصوف نے اپنی پارٹی کو کسی جھنجھٹ میں پھنسایا ہو۔ اسی کی دہائی میں موصوف نے اعلان کردیا تھا کہ اگر کالا باغ ڈیم کے پراجیکٹ پر کام ہوا تو وہ بم باندھ کراُسے اُڑا دیں گے۔ ابھی چند ہی ماہ پہلے فرمایا کہ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کی ایک کنفیڈریشن بنادینی چاہیے۔
حاجی صاحب نےایک بار مجھے ذاتی طور پر بھی جھنجھٹ میں ڈالا تھا۔ ہوا یہ کہ وہ نظریاتی مباحث سے متعلق ایک ٹی وی پروگرام میں مدعوتھے، کسی بات پر غصے میں آگئے اور سامنے بیٹھے لمز کے پروفیسر انجم سلیمی صاحب سے جھگڑ پڑے، آستینیں چڑھا لیں اور اُن کی جانب لپکے۔
پروگرام کے میزبان جناب خورشید ندیم صاحب جو طبعاً نہایت نفیس انسان ہیں، حیرت سے انہیں تکتے رہے خیر بیچ بچاؤ ہوگیا۔
حاجی صاحب کا تعلق ایک سیکولر جماعت سے ہے اوراگر وہ ایک لاکھ ڈالر گستاخِ رسول کے سر کی قیمت دے سکتے ہیں تو دفاع پاکستان کونسل اور مذہبی جماعتیں کیوں پیچھے رہیں۔ ویسے بھی بڑ ہانکنے پر کونسا پیسے لگتے ہیں اور اگر بڑ ہانک کر بندہ ہیرو بن جائے تو بُرا کیا ہے۔
لہذٰا جمیعت علمائے اسلام(س) کے اکرام اللہ شاہد نے بھی، جو کہ جماعت کے جنرل سیکرٹری ہیں اور خیبرپختونخواہ اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر ہیں، گستاخِ رسول کے سر کی قیمت کا اعلان کردیا ہے اور قیمت بھی بڑھا کر دولاکھ ڈالر کردی ہے۔
دل تو میرا بھی چاہ رہا ہے کہ میں گستاخِ رسول کے سر کی قیمت تین لاکھ ڈالر رکھ دوں لیکن سنا ہے وہ پولیس کی تحویل میں ہے لہذا اگر میں امریکہ میں کوئی غازی علم الدین ڈھونڈ بھی لوں تو شاید وہ نکولا کا کچھ بگاڑ نہ سکے۔ اگر حاجی صاحب کو کوئی غازی علم الدین مل گیا (ویسے امریکہ کے غازی علم الدین کافی دھیمے اور ٹھنڈے ہیں شاید جمہوری اقدار کا شاخسانہ ہے) تو اُنہیں سر کی قیمت دینے کیلئے ریلوے کا اور بہت سا اسکریپ بیچنا پڑے گا۔
فی الوقت تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ حاجی صاحب نے دامن پر لگے سارے داغ دھو ڈالے ہیں او ر اب وہ حلقہ این اے(ون) سے یوں نکلیں گے جیسے کوئی گنگا سے دھلی ہوئی کنیّا۔ حاجی صاحب کے پاس کھونے کیلئے صرف داغ ہیں اور پانے کیلئے حلقہ این اے (ون)۔
طالبان نے بھی ہمیشہ کی طرح کسی نامعلوم مقام سے بتایا ہے کہ حاجی غلام بلور کا نام ہٹ لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے ان کے بھائی بشیر بلور پر طالبان نے قاتلانہ حملہ کیا تھا لیکن کیا بات ہے حاجی صاحب کی کہ انہوں نے دمڑی ضائع کئے بغیر ہی جان کی امان بھی حاصل کرلی اور بونس میں عزت و شہرت بھی۔
پاکستان میں بیان بازی اور بڑبازی کو پالیسی سازی کے مقابلے میں ایک اعلی مرتبہ حاصل ہے۔ سیاسی چالبازی معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے ترتیب نہیں دی جاتی بلکہ اس کا مقصد نہ صرف عوامی جذبات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے بلکہ یہ بھی یقینی بنانا ہوتا ہے کہ کہیں حادثاتی طور پر یہ عوامی بصیرت کا سبب نہ بن جاےٴ۔
چند ماہ قبل جب نیٹو کی ترسیل کیلئے راستے کھولے گئے تو میری ملاقات ایک اہم مذہبی و سیاسی جماعت کے میڈیا ایڈوائزر سے ہوئی۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ اب آپ پھر لمبے چوڑے احتجاج کریں گے حالانکہ فوج کا فیصلہ بھی تو راستے کھولنے میں شامل ہی ہے۔ انہوں نے طنزیہ سی ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’کچھ تو ہمیں اُن کیلئے کرنا ہی پڑے گا۔ چند دن احتجاج سے ہماری بھی عزت رہ جائے گی اور’مالکان‘ کی بھی۔
دراصل مذہبی سیاسی جماعتوں کا ریاستی اداروں کی آشیرباد لینا کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ریاستی اداروں کا سیاسی چہرہ مذہبی جماعتیں ہیں۔ اسی لئے ریاست نے ایک مخصوص ذہن پیدا کیا ہے جو ہمارے تمدنی و تہذیبی تنوع کو تسلیم کرنے کی بجائے مرکزیت پر مائل یک رُخا ہے۔
ٹیسٹ کے طور پر ریاست کے کسی بھی ادارے کے نمائندہ ذہن کو لے لیجئے۔ یہ ہمیشہ ہندوستان دشمن ہوگا، جمہوری نظام پر شک کرے گا، جمہوری رویوں کے اظہار کو پاکستانیت کے خلافگردانے گا، سیاستدانوں کو کرپٹ کہے گا، فوج کو اول و آخر اس ملک کا وفادار سمجھے گا، اپنی ہر بیماری کا ذمہ دار یہودی لابی کو گردانے گا اور سب سے بڑھ کریہ کہ شخصی آمریتوں کا اندر سے حامی ہوگا۔
غلام احمد بلور اور اکرام اللہ شاہد کے بیانات اسی تناظر میں سمجھے جاسکتے ہیں۔ جب قوم کی زیادہ بڑی تعداد غیر جمہوری اور مذہبی جنونیت پر مائل سوچ کی حامل ہوگی تو حاجی صاحب کا بیان تو ظاہر ہے بہت جلد کلِک کرے گا اور حاجی صاحب کک کھانے سے بچ جائیں گے۔
ایسی سوچ کی فروانی محض سماجی حلقوں میں پروان نہیں چڑھی بلکہ خود ریاست تضادات کا شکار ہوگئی ہے۔ مثلاً جب جنرل مشرف اپنی کتاب میں یہ لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے ڈالروں کے عوض بہت سے لوگ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کئے یا جب فضل اللہ کو خاموشی سے ریڈیو پر خطاب کی اجازت مرحمت فرما دی جاتی ہے یا جب وقار خان کو اُن کی فیملی سمیت سوات میں اُس وقت مارا جاتا ہے جب فوج سو گز کے فاصلے پر موجود ہے یا جب طالبان مخالف لشکروں کو طالبان سے پٹوایا جاتا ہے یا جب میران شاہ میں حقانیوںکو پناہ دی جاتی ہے یا جب ملا برادر، ابو زبیدہ اور ابو جندل یہاں سے گرفتار ہوتے ہیں یا جب کالعدم تنظیموں کے سربراہوں کو نظریاتی سرمایہ مانتے ہوئے جلسے جلوس نکلوائے جاتے ہیں یا جب غیر ملکی امداد سے اپنی پسند کے مضامین مدرسوں میں پڑھائے جاتے ہیں یا جب ہزاروں لوگوں کو دن دیہاڑے اس لئے اٹھا لیا جاتا ہے کہ وہ اپنی زمین کا خراج مانگ رہے ہیں تو ایسا ہی ذہن پیدا ہوگا جس کے ہوتے ہوئے نام نہاد سیکولر لوگ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگیں گے۔
میں ذاتی طور پر اس ذہن کا اُس وقت شکار بنا جب سوات میں طالبان کے قبضے کے دوران ایک ڈاکیومنٹری بنانے کیلئے گیا۔ جیسے معصوم سواتیوں کو خوف کا شکار کیا گیا، جیسے کرفیو کے دوران بم سے سکول اڑائے گئے اور قتل و غارت کی گئی، جس طرح وہاں ایک جعلی عدالتی نظام قائم کیا گیا اور ایک جعلی آپریشن کیا گیا، وہ سب دل دہلا دینے والا اور دماغ سن کر دینے والا تھا۔
لیکن معمہ اُس وقت حل ہوگیا جب میں جنوبی پنجاب میں انتہا پسندی کی نرسریاں دریافت کرنے گیا۔ بہاولپور میں مولانا مسعود اظہر کے مدرسے کے باہر مجھے اور میری پروڈکشن ٹیم کو بہت سے مُلاؤں نے گھیر لیا اور ہمارا کیمرہ چھین لیا۔ مشکل سے یا یوں کہیے ان کی مہربانی سے ہم جان بچا کر بھاگے۔
بہاولپور میں ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے علاوہ کسی سے جان پہچان ہی نہ تھی اور ڈاکٹر عائشہ اس معاملے میں وہی کردار ادا کر سکتیں تھیں جو گیس سے بھرے کمرے میں دیا سلائی۔ بہرحال اپنے ادارے کے مقامی نمائندے کی مدد سے بالآخر ہمیں ایک جگہ بلایا گیا جہاں چار گھنٹے کے لیکچر اور چائے سے تواضع کی گئی۔ پھر کیمرہ واپس کیا گیا لیکن اُس میں سے فلم نکالی جا چکی تھی۔
یہ بہاولپور میں آئی ایس آئی کا دفتر تھا اور میں آج بھی شکر ادا کرتا ہوں کہ اُنہوں نے مجھے گنجا نہیں کیا۔ آج بھی مجھے وہ فلم بہت یاد آتی ہے اور اسے حاصل کرکے ازحد خوشی ہوگی مگر اپنے بالوں کی قیمت پر نہیں۔
ذیشان حسین ٹی وی پروڈیوسر ہیں جو فلسفہ، ادب اور سیاست میں دلچسپی رہتے ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں