کالا دیو عرف برقع
حواس باختہ احتجاج، دل ہلا دینے والی چیزوں اور وزیراعظم سے متعلق تجسس کے درمیان ایک ہی خوشی کی خبر تھی اور وہ یہ کہ کرینہ کپور سیف علی خان سے شادی کے بعد مسلمان ہوجائیں گی۔
صد شکر کہ عالم اسلام بھی جمالیات کی روشنی سے منور ہوجائے گا۔
یعنی یہ امید رکھنا بھی تسکین کا باعث ہے کہ آئندہ اسلامی نظریہ حیات و شخصیات سے متعلق احتجاج کے دوران ہم برانگیختہ ملاؤں، بے روز گاری کے مارے بدحواس نوجوانوں اور خود ساختہ ٹی وی دانشوروں کے علاوہ پری چہروں کو بھی "لقمہ احتجاج" بنا دیکھیں گے۔
خدا نخواستہ ایسا نہیں کہ عالم اسلام میں حسن کی کوئی کمی ہے۔ ہرگز نہیں! دراصل یہاں حسن و جمال کی تمام تر رعنائیوں کو ایک کالا دیو کھا جاتا ہے جسے عرف عام میں برقع کہتے ہیں۔
غالب سے معذرت کے ساتھ
"برقع میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں"
اب ایسا بھی نہیں کہ تمام صورتیں برقع نگل جاتا ہے۔ بہت سی اٹھکیلیاں لیتی جوانیاں اور بھی ہیں، لیکن بد قسمتی سے وہ احتجاج میں یوں شرکت نہیں کرتی جیسا کہ احتجاج کرنے کا حق ہے۔
جمال کے یہ پیکر صرف دو چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں، غریب عورتوں کے ساتھ کوئی انہونی ہوجائے اور ڈالروں کی بھرمار ہوجائے۔
جی ہاں! یہ حسن کے پیکر این جی اوز سے تعلق رکھتے ہوئے امریکہ اور یورپ کے خلاف احتجاج نہیں کرتے۔
بات دور نکل گئی لیکن مجھے کرینہ کپور کے تبدیلی مذہب سے (جس کی خبر سے میں وارفتہ ہوگیا ہوں) پیپلز پارٹی کی حکومت کا یوٹرن یاد آگیا جو اس نے ایک کم بخت خط سے متعلق اپنایا ہے۔
وہ خط جس کا متن بھی شاید کسی ذہن میں واضح نہیں لیکن اس نے زرداری حکومت کو ساڑھے چار سال سے سہارا دیا ہوا ہے اور جو اب اگلے الیکشن میں جانے کی تیاری کررہے ہیں۔
تاہم دو منتقم مزاج صحافی لمبی چھٹی کے بعد "موت کا منظر" لیے پھر منظر عام پر وارد ہوچکے ہیں۔ دونوں غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں اور ان میں سے ایک ناکام ڈاکٹر جبکہ دوسرا آئی ایس آئی کے ہاتھوں پٹا ہوا صحافی ہے۔
دونوں بے سرو پا باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ایک جہاز کہیں کھڑا ہے، زرداری کے دن تھوڑے ہیں، لوگ کہیں بھاگنے کی تیاری کررہے ہیں، لسٹیں تیار ہورہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
گو اب ناکام ڈاکٹر مگر خود ساختہ صحافی آیات کے سہارے لے کر اپنے نوحہ کو موثر بنانے کی کوشش کررہا ہے مگر مزے کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں صحافی کچھ عرصہ قبل تک صدر سے ملنے اور ان کی نظر کرم کے لیے پاپڑ بیلتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جہاں ایک اسلام آباد کے ایک فائیواسٹار ہوٹل میں ٹھہرے رہی تو دوسرے ایوان صدر تک جاکر بیٹھے رہے۔
صدر صاحب دونوں سے نہیں ملے سو زہر جو وہ پہلے ہی اگل رہے تھے غصے اور ہزیمت میں بدل گیا۔
دراصل شخصی حکومتوں کے زیر اثر رہتے رہتے یہ صحافی اتنے اذیت پسند ہوچکے ہیں کہ انہیں یاد ماضی چھوڑتا ہی نہیں!
مجھے صدر زرداری سے کوئی ہمدردی نہیں گو کہ میں ان کی سیاسی چالوں کا معترف ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان میں سیاست کا انداز نہ صرف بدل دیا بلکہ مشکل بنادیا ہے تاہم یہ حضرات ایک ایسی عبوری حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں جو ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہو اور اپنے دستوری دائرکار سے ہٹ کر لمبے وقت پر محیط ہو بقلم خود اپنی نادانیاں تحریر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ عبوری حکومت اللہ کے برگزیدہ اور یقیناً مردم گزیدہ لوگوں پر مشتمل ہوگی (جو کہیں نہ کہیں سے ہمیشہ پیدا ہوجاتے ہیں)۔ ٹی وی جرنلسٹوں سے زیادہ خوش خیال تو صرف روسی طوائفیں ہی ہوسکتی ہیں۔
صدر زرداری سماجی سطح پر کچھ نہیں دے سکے سوائے مہنگائی اور بے روز گاری کے، لیکن عالمی سطح پر پاکستان نے خود کو دوبارہ سے پوزیشن کرنا شروع کردیا ہے اور صوبوں کو زیادہ اختیارات بھی مل گئے ہیں۔
گوادر کا چین کو دیے جانا، ایران کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنا، ہندوستان کے ساتھ تجارتی رابطہ اور روس کے ساتھ نئے تعلقات کا استوار ہونا بہت اہم اقدامات ہیں۔
امید تو یہی کرنی چاہیے کہ تاریخ خود کو نہیں دہرائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو ملک میں سیاسی خلفشار، بد امنی اور صوبائیت کا زہر سب کچھ نگل جائے گا۔ کچھ خوش فہم یہ کہتے ہیں کہ اگر غیر دستوری طریقہ سے کوئی نئی حکومت عمل میں لائی گئی تو عدلیہ اور میڈیا اس کا راستہ روکیں گے۔
عدلیہ کی بہت مجبوریاں ہیں جن میں سے ایک عوامی مقبولیت ہے جو ایک حلقے کو بھونڈی بھی دکھائی دیتی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ سوال ہہ ہے کہ اگر سیاستدان اس خبط میں مبتلا ہوسکتے ہیں تو کویی اور کیوں نہیں۔ سو ہم ابھی تک سلمان تاثیر کے قاتل کو سزا ملنے کے منتظر ہیں۔ میڈیا بہت سے ایسے معاملات میں جن پر اس کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہو ہاتھ نہیں ڈالتا۔
جمہوری طریقہ سے نئے الیکشن کا انعقاد بہت بڑا واقعہ ہوگا اور اگر کسی بھی ادارے نے حد سے تجاوز کیا تو مارکس کی اس قول کو پھر سے زندہ کر جائے گا کہ تاریخ خود کو پہلی بار ٹریجڈی بن کر دہراتی ہے لیکن دوسری مرتبہ مضحکہ خیز کامیڈی بن کر۔
ذیشان حسین ٹی وی پروڈیوسر ہیں جو فلسفہ، ادب اور سیاست میں دلچسپی رہتے ہیں۔
تبصرے (7) بند ہیں