بیر— زمین کا معالج
شمالی چین کے صوبے حی بی کے علاقے کمیون کینگ شی آن کی نوے ہزار ہیکٹر زمین شورزدہ، بنجراورناقابل استعمال تصور کی جاتی تھی۔ کمیون کے لوگوں کے لیے منافع بخش فصل اس پرکاشت نہیں کی جاسکتی تھی۔ صورتِ حال کے باعث یہاں کے سارے مرد روزگار کی تلاش میں دوسرے شہروں کو جاچکے تھے۔
آٹھ مارچ، 1990 (خواتین کا عالمی دن) کا سورج بھی کینگ شی آن پرایسی ہی مایوس کن صورت حال میں طلوع ہوا۔
اسی دن چینی خواتین کی تنظیم نے تحفظِ ماحول کی ملک گیر تحریک کا آغاز کیا۔ اسے 'گرین پروجیکٹ' کا نام دیا گیا۔ اس نےواقعی انقلاب برپا کر دیا۔
جہاں بنجراور شورزدہ علاقوں کی لیے مخصوص فصل 'جوار' بھی جہاں کاشت نہیں کی جاسکتی تھی، وہاںآج بیر کے باغات لہلہاتے ہیں اور اپنے کاشت کاروں کی آمدنی میں پانچ سو فیصد تک کا اضافہ بھی کر چکے ہیں۔
سولہ سے پینتالیس سال کی خواتین کی بھرپور شمولیت نے اس مہم کو اور بھی معنیٰ خیز بنا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تینتیس ہزار ہیکٹر زمین پر بیرکے باغات نظر آنے لگے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کینگ شی آن میں اب کاشت کاری کا ستر فیصد کام خواتین انجام دیتی ہیں۔ خود انحصاری کے اس ولولہ انگیز عمل میں بہت سے حیران کن واقعات دیکھنے کو ملے۔
ایک بالکل ہی بنجر اور ناہموار قطعہ اراضی پر ایسی خواتین جو پہلے جسمانی محنت کا کوئی تجربہ نہیں رکھتی تھیں پچیس ہزار بیر کے پودے لگانے کا کام سونپا گیا۔
اندازہ تھا کہ یہ کام دو ماہ میں ختم ہو گا مگراپنے قصبے کی قسمت بدلنے کے جذبے سے سرشار باہمت خواتین نے صرف بیس دن کی قلیل مدت میں ہی پورا کر لیا۔
آج وہاں بیر کی پیداواربیس کلو فی درخت سےپچاس کلو پر جا پہنچی ہے اور بیر کی جڑوں کے بے مثال نظام کی بدولت زمین کی زرخیزی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
اب یہاں گندم اور کپاس جیسی منافع بخش فصلات بھی کاشت ہو رہی ہیں جب کہ جنگل پر مشتمل رقبے میں اسی فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔
جی ہاں، یہ وہی بیر ہے جو صدیوں سے ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے ۔ ہماری لوک کہانیوں اور ضرب الامثال میں شامل ہے۔
'جس گھر میں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں' بیر سے جڑے یہ اورایسے بہت سی محاورے ہمارے روزمرہ مکالمے کا حصہ ہیں۔
مذکورہ محاورے کو ہی لے لیں۔ گویا شادی کے پیام اور پھل آنے پر بیری سے پھل توڑنے کی خواہش کوایک ہی زمرے میں رکھا گیا ہے۔ اس سے شجر اور اس پھل کی ہمارے سماج میں حیثیت کا پتا چلتا ہے۔
غرض کہ بیر کا ہمارے سماج اور روزمرہ معاملات سے گہرا رشتہ ہے۔ بیر کا اور ہمارا ساتھ قدیمی بھی ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس کے جو فوسل ( پتھروں میں محفوظ آثار یا رکاز) دریافت کیے وہ پچاس ملین برس پرانے ہیں۔
اگر کہیں کہ بیر جنوبی ایشیا میں زندگی کی اولین نشانیوں میں سے ایک ہے تو شاید کچھ غلط نہ ہوگا۔ بیر میں اس خطہ ارض کے باسیوں کی سب ہی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
سب سے نمایاں خاصیت تو مہمان نوازی ہے، کیا انسان کیا چرند پرند۔۔۔ سب ہی کے لیے باہیں کھولے کھڑا ہے۔
برصغیر کا یہ سخت جان درخت ہر طرح کی زمینوں اورآب و ہوا کے مطابق ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ زمین سخت ہو یا بھربھری، زیادہ نمکیات والی ہو یا پھر تیزابی۔۔۔ اس کے لیے سب یکساں ہیں مگر ریتلی مٹی میں یہ زیادہ خوش رہتا ہے۔
بیر کچھ حیرت انگیز خوبیوں کا مالک بھی ہے جیسے کہ اس کی انتہائی درجہ حرارت کو برداشت کرنے کی صلاحیت۔
یہ تقریباً نقطہ انجماد سے لے کر جنوبی پنجاب کے ریگ زاروں کے انتہائی گرمی تک کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔
اسی طرح پانی کے ساتھ بھی اس کےمعاملات کچھ ایسے ہی مفاہمانہ ہیں۔ شور زدہ زمینوں میں زیر زمین پانی کی بلند سطح سے لے کر صحرا کے بے آب و گیا وسعتوں تک، ہرجگہ پھلتا پھولتا نظر آتا ہے۔
بیر، نباتات کے اس سلسلے سے تعلق رکھتا ہے جو جڑوں کا بہت مربوط نظام رکھتے ہیں۔ اس کی گہری مرکزی جڑ یعنی 'ٹیپ روٹ' اس کے سخت جان ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
یہ بہت گہرائی میں جا کر اسے قحط اور خشک سالی کی فکر سے آزاد کر دیتی ہے۔
خودرو بیر سطح سمندر سے 5400 فٹ کی بلندی پر بھی پایا گیا ہے۔ سخت موسوں اور نا موافق حالات میں بھی کامیابی سے بڑھنے کی صلاحیت کی بنا پراسے پوری دنیا میں رزعی شجرکاری کا بہترین درخت مانا جا رہا ہے۔
ایسی بنجر اور غیر آباد زمینوں کو، جہاں روایتی فصلیں کاشت نہ کی جا سکتی ہوں، آباد کرنے اوران پر معاشی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے بیر کو بہترین مددگار تصور کیا جاتا ہے۔
بیر پر امریکہ ، ہندوستان اور چین میں تحقیق کا کام ہورہا ہے اور بڑے بڑے رقبہ جات اس کی کاشت کے لیے مخصوص کیے جارہے ہیں۔
صرف امریکہ کے جنوب مغربی حصوں میں، جہاں آب و ہوا اس کی کاشت کے لیے موزوں ہے، ایک لاکھ چالیس ہزار ایکڑ پر اس کی کاشت کی گئی ہے۔
تحقیق ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر ہر پل بدلتی دنیا میں وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلا جاسکتا ہے۔ تحقیق وہ آنکھ بھی ہے جو صرف دیکھتی ہی نہیں پہچانتی بھی ہےاور فیصلہ کرنے کی قوت بھی عطا کرتی ہے۔
بیر کے درخت اپنے قد بت میں ایک ہی آب وہوا اور ایک ہی جیسی زمین پر ایک دوسرے سےمختلف ہوسکتے ہیں۔
کہیں یہ زمین پرایک ہی جگہ سے پھوٹتی کئی شاخوں پر مشتمل جھاڑی کی صورت ہوتے ہیں تو کہیں مضبوط اور توانا تنے پر بھرپور چھتری اٹھائے سایہ پھیلائے نظر آتے ہیں۔
اس کی مناسب کانٹ چھانٹ اسے صحت منداور تناور درخت بنانے کے لیے ضروری ہے۔ عموماً یہ چھ سے بارہ میٹر تک بلند ہوسکتا ہے اوراس کی نازک شاخوں کی چھتری بھی کم وبیش اتنی ہی پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔
دھاتی تار کی سی باریک شاخوں پر بیضوی پتے آمنے سامنے نمودار ہوتے ہیں۔
درخت کی اوپری جلد گہرے سبز رنگ کی اور سطح چکنی ہوتی ہے جو گرم موسموں میں نمی کو برقرار رکھتی ہے۔ بیر کے دو انچ تک لمبے پتے نیچے سے قدرے سفید اور روئیں دار ہوتے ہیں۔
ان کی یہ خوبی دوسرےاشجار کی نسبت، فضائی آلودگی کو قدرے کم کرنےکا باعث ہوتی ہے۔ یہ خاصیت بیر کو سڑک کنارے شجرکاری کا مضبوط دلیل ہے۔
بیر کا نباتاتی نام 'زی زی فس موریتی آنہ' ہے۔ اسے'انڈین جوجوبا' بھی کہا جاتاہے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت بیر کے بارے میں۔
اس کا ایک رشتے کا بھائی جو نباتاتی زبان میں 'زی زی فس زائی زی فس' کہلاتا ہے، اپنے خواص میں بیر سے مشابہ ہے اور ہماری حکمت میں بڑا مقام رکھتا ہے۔ ہم اور آپ اسے 'عناب' کے نام سے جانتے ہیں۔
دونوں کی کاشت اور دیکھ بھال ایک جیسی ہے مگر پھل کی قیمت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بیرکا پھل نباتاتی اصطلاح میں 'ڈروپ' کہلاتا ہے۔ اس سے مراد ایسے پھل ہیں جن کا بیج ایک سخت گٹھلی میں ہوتا ہے جیسے آڑو، آلو بخارہ اور خوبانی وغیرہ۔
بیر کا پھل اپنی شکل و صورت، رنگ اور جسامت میں کئی طرح کا ہوسکتا ہے۔ گول یا بیضوی، چیری جتنا چھوٹا یا آلوبخارے جتنا بڑا۔ خودرو اقسام کا پھل آدھے سے ایک انچ تک گول اور رنگ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے، جب کہ احتیاط سے کاشت کی گئی مخلوط نسل کے بیر کا پھل ڈھائی انچ لمبا اور پونے دو انچ چوڑا ہو سکتا ہے۔
بادامی، سرخی مائل بھورے یا پھر چمکتے سبز رنگ کا پھل بھی کھانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
اسے اپنی خام شکل میں ہی کھایا جاتا ہے۔ ہم نے بیر یا عناب سے ایسی کوئی شے بنانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی جس سےان کے بیش بہا غذائی اورادویاتی خواص سے فائدہ اٹھایا جاسکے ۔
صرف عناب سے بنے کچھ شربت بازار میں دستیاب ہیں جو دوا کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔
بیر میں صحت بخش غذائی اجزأ کی بھرپور مقدار ہوتی ہے۔ ماہرین کی نظر میں بیراپنے ان غذائی اجزا کی بدولت سیب اور سنگترے سے بھی بہتر شمار کیا جاتا ہے۔ صرف امرود میں وٹامن سی بیر سے زیادہ ہوتا ہے۔
شہد کی غذائی اورادویاتی اہمیت سے تو سب واقف ہیں مگر شاید یہ بات حیرانی کا باعث ہو کہ شہد کی مکھیاں جو شہد بیر سے کشید کرتی ہیں وہ اپنے خواص میں سب سے اعلی تصور کیا جاتا ہے۔
جو کاشتکار اپنی زمینوں پر بیر کے درخت لگاتے ہیں وہ بیر کی ایک فصل کے ساتھ ساتھ ایک فصل شہد کی بھی اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح وہ آمدنی کے ساتھ اپنے خاندان کے لیے صحت بخش غذا کا بھی بندوبست کر سکتے ہیں۔
بیر کے پتے ہرلحاظ سےاس کے پھل کے ہم پلّہ ہوتے ہیں۔ یہ پتے گائے ، بھینس، بھیڑ، بکری سمیت صحرا میں مواصلات و باربرداری کے سب سے اہم ذریعے یعنی اونٹ کا بھی من پسند چارا ہے۔
صحرا میں خودرو بیر کی تراش خراش کا کام انہی جانوروں کے چرنے سے ہوتا ہے۔ یوں یہ بغیرکسی باغبان کی نگہبانی کے خوب پھلتے پھولتے ہیں۔
زندگی کی بقا اور بہتری کے لیے، ایک دوسرے پر انحصار کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے یہ قدرت کی ایک مثال بھی ہے اور سبق بھی۔
بیر کی لکڑی سرخی مائل بھوری، سخت اورمظبوط ہوتی ہے۔ یہ زرعی آلات کے دستے اور فرنیچر وغیرہ بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔
حرارت پیدا کرنے کی بہتر صلاحیت کی بنا پر بطور ایندھن بھی اس کی مانگ ہے۔ اس سےعمدہ معیار کا کوئلہ بھی بنایا جاتا ہے۔
مخلوط اقسام اورآب و ہوا کے مطابق، مختلف علاقوں میں اس کی عمر مختلف ہوسکتی ہے جو پچیس سے سو سال تک ہوسکتی ہے۔
بیر کی کاشت بہت ہی آسان ہے۔ اسے بیج سے براہ راست نرسری میں پودے بنا کر بھی لگایا جاسکتا ہے۔
نرسری والے طریقے میں ناکامی کا خدشہ کم ہوتا ہے۔ اس کے ننھے پودے پندرہ سے بیس دنوں میں ہی بیجوں سے سر نکال لیتے ہیں اور آٹھ سے دس ہفتے میں یہ چھ سے بارا انچ تک کا ہو جاتا ہے، جسے زمین میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔
زمین کی بہتر تیاری اور پودوں کی تیز نشو و نما اس کی صحت کی ضامن ہوتی ہے۔ بیر کو داب لگا کر بنائی ہوئی قلموں یا پھر جڑوں سے پھوٹنے والے ننھے پودوں کو علیحدہ کر کے بھی کاشت کیا جا سکتا ہے۔
بیر، ویسے تو پورے پاکستان میں ہی لگایا جاسکتا ہے مگر سندھ ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے بے آب و گیاہ بنجر صحرائی علاقے، جہاں پانی کی کمیابی اور دیگر وسائل کی عدم دستیابی کے باعث زراعت ممکن نہیں، اس کی کاشت کے لیے نہایت موزوں ہیں۔
یہ علاقے ویسے بھی غربت کا اپنا ہی گھر ہیں۔ یہاں بہت ہی قلیل معاشی سرگرمیاں ہیں۔ جس یہ انتہائی پست شرح آمدنی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔
ایسے درختوں کی شجرکاری سے صحرا کے مکین براہ راست معاشی طور پر مستفید ہوں گے۔ موسموں کی شدت کم کی جا سکے گی۔ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جاسکے گااور۔۔۔ مجموعی طور پر ہمارے سست رفتار معاشی پہیے کی رفتار بڑھائی جاسکے گی۔
کیا یہ بہت ہی حیرت انگیز بات نہیں کہ صحرا کی بنجراور بیابان غیر آباد زمین کو انتہائی کم خرچ سے نہ صرف قابل استعمال بنایا جاسکے۔ چارے کی دستیابی سے گلہ بانی شروع ہوسکے۔
گھریلو اور صنعتی استعمال کے لیے کوئلہ اور لکڑی مل سکے۔ انسانوں کے کھانے کو پھل میسر ہو اور ادویہ کا سامان بھی ۔۔۔ اور یہ سب کچھ صرف ایک درمیانے قد کے سخت جان درخت کی بدولت ہو۔
یقین نہیں آتا۔ کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟
سید قمر مہدی لاہور میں مقیم ماہرِ اشجار ہیں وہ پنجاب لوک سجاگ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں