ذوالفقار آباد اور انڈس ڈیلٹا
موجودہ حکومت نے انڈس ڈیلٹا میں واقعہ ٹھٹھہ ضلع کے اندر ایک نئے میگا سٹی کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے، جس پر زور و شور سے کام جاری ہے تاہم اب تک اس بہت بڑے تعمیری منصوبے کے ماحولیاتی اثرات جانچنے اور وہاں آباد لوگوں کی رائے جاننے کے لیے کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے قانون انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ مجریہ انیس سو ستانوے کے مطابق کسی بھی تعمیراتی منصوبے کے آغاز سے قبل نہ صرف اس کے ماحولیاتی اثرات کے جانچ لازمی ہے بلکہ اس حوالے سے وہاں آباد لوگوں کی رائے اور تحفظات جاننے کے لیے سماعت بھی ضروری ہے مگر ذوالفقارآباد کے حوالے سے اب تک ایسا کوئی اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔
انحطاط پذیر انڈس ڈیلٹا پاکستان کے ماحولیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے اور اسے 'محفوظ' قرار دیا جاچکا ہے۔
انڈس ڈیلٹا کی حدود میں متعدد آب گاہیں اور جنگلی حیات کی وہ پناہ گاہیں واقع ہیں جنہیں مقامی اور عالمی تحفطِ جنگلی حیات و ماحول کے تحفظ کے قوانین کے تحت بہت پہلے 'محفوظ علاقوں' کا درجہ دیا جاچکا تھا۔ بعد ازاں پورے انڈس ڈیلٹا کے علاقے کو 'رامسر سائٹ' قرار دیا جاچکا ہے۔
کیٹی بندر، شاہ بندر اور کٹ منارکی چچھ کو سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے قوانین کے تحت 'وائلڈ لائف سنکچوری' قرار دیا جاچکا ہے۔
واضح رہے کہ بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این اور سندھ وائلڈ ایکٹ مجریہ انیس سو چوہتّر کے تحت محفوظ علاقوں میں شکار، جنگلات کی کٹائی، کان کنی سمیت ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے جس سے قدرتی ماحول کو نقصان پہنچتا ہو۔
اگرچہ ذوالفقار آباد کی تعمیر و آباد کاری پر کام جاری ہے اور انڈس ڈیلٹا کا شمار عالمی طور پر قرار دیے گئے محفوظ علاقوں میں ہوتا ہے تاہم اب تک ڈیلٹا کے قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے کسی بھی قسم کا منیجمنٹ پلان تیار نہیں کیا گیا۔
اس فقدان کے باعث تعمیراتی منصوبے سے ڈیلٹائی ماحول کے تحفظ میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
انڈس ڈیلٹا کی ماحولیاتی اہمیت اس کا آبی ماحولیاتی نظام ہے۔ ڈیلٹا کی تشکیل ہزاروں برس پہلے اُس وقت شروع ہوئی جب دریائے سندھ کے ساتھ آئی ریت اور مٹی کے باعث سمندر کے ساتھ ساتھ زمین ابھرنے لگی تھی۔
انڈس ڈیلٹا کی ماحولیاتی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کا تذکرہ سندھی لوک روایتوں اور قصے کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ڈیلٹا کی تشکیل میں دریائے سندھ اور تِمر کے ساحلی جنگلات کا کردار نہایت اہم ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے آبی منصوبوں کے باعث دریائے سندھ میں پانی کی شدید قلت، سمندر میں اس کے گرنے کی شرح میں نہایت خطرناک حد تک کمی اور تِمر کے ساحلی جنگلات کی کٹائی کے باعث ڈیلٹا کا ماحولیاتی نظام پہلے ہی انحطاط کا شکار ہے۔
سن ساٹھ کی دہائی میں ہندوستان پاکستان کے مابین سندھ طاس معاہدے کے بعد سے دریا کے میٹھے پانی کی بحیرہ عرب میں شامل ہونے کی شرح تیزی سے کم ہونا شروع ہوئی تھی۔
اب سمندر میں میٹھے پانی کی آمیزش بالکل بند ہوچکی ہے، جس کے باعث اُن آبی گزرگاہوں میں سمندر داخل ہوگیا ہے، جن کے ذریعے کبھی دریائے سندھ کا میٹھا پانی سمندر میں داخل ہوتا تھا۔
اس وقت زیریں سندھ کے ڈیلٹائی اضلاع ٹھٹھہ اور بدین کی لاکھوں ایکڑ اراضی سمندر بُرد ہوچکی ہے۔ ہزاروں لوگ بے گھر اور معاشی لحاظ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ جب کہ ماحولیاتی انحاط کی شرح بھی تیز ہوچکی ہے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ذوالفقار آباد جیسے بہت بڑے تعمیراتی منصوبے کو انڈس ڈیلٹا کی بحالی کے پروگرام میں تبدیل کردیا جائے۔
تاکہ کراچی سے متصل نئے شہر کی آباد کاری کے ساتھ ساتھ انڈس ڈیلٹا اور اس کا ماحولیاتی نظام کا تحفظ مزید بہتر انداز میں ممکن ہوسکے۔ ساتھ ہی کوسٹل زون منیجمنٹ کو بھی طویل المدت بنیادوں پر استوار کیا جسکے۔
ماہرین کے مطابق انڈس ڈیلٹا کے تحفظ اور سمندر کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فوری طور پر انیسو اکیانوے کے معاہدہ آب میں طے شدہ دس ملین ایکڑ فٹ پانی فوراً کوٹری بیراج کے زیریں دریائی حصے میں چھوڑا جائے۔ تاکہ ڈیلٹا، تِمر اور اس کے ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے ساتھ ساتھ نئے آباد کیے جانے والے شہر کے قدرتی ماحول کا تحفظ بھی ممکن ہوسکے۔
ناصر پنہور ماہرِ ماحولیات اور سینٹر فار انوائرنمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔