دودھ والا — باڑے سے منڈی تک
نارو وال: شہزاد اقبال کی زندگی پُرتعیش تھی اور وہ کارپوریٹ سیکٹر میں ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کام کررہا تھا مگر اسے اپنے مُلک کے لیے کچھ کرنے کی لگن تھی۔ اس نے اپنی پُرتعیش زندگی کو خیرباد کہا اور اپنا سارا جمع جتھا جدید ڈیری فارمنگ بزنس کے قیام پر لگادیا۔
اس نے مغرب سے اعلٰی نسل کے بیلوں جیسا کہ ساکریٹس، ائیر ریڈ اور لبریٹر کے تخم منگوائے اور انہیں مقامی کاشتکاروں کو فروخت کیے تاکہ مخلوط نسل کی گائیں تیار کرکےوہ زیادہ مقدار میں معیاری دودھ حاصل کرکے آمدنی بڑھاسکیں۔
اقبال اس کام میں پہل کرنے والا پہلا شخص تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے قصبے کا رہائشی تھا مگر اب وہ کثیرالقومی کمپنی میں منیجر ہے۔ وہ پاکستان کی روایتی اور نامساعد حالات کا شکار ڈیری فارمنگ انڈسٹری کو اربوں ڈالر کے کاروبار میں بدلنا چاہتا ہے۔ اس کے خواب کو تعبیر تو ملی مگر پوری نہیں۔
اقبال کا کہنا ہے'اس کے اقدام سے انقلابی تبدیلیاں آئیں، جس نے صورتِ حال کو بدل کر رکھ دیا۔' صورتِ حال میں مزید تبدیلیوں کی گنجائش بہت زیادہ موجود ہے۔
اقبال اپنے ساتھی کارکنوں کی مدد سے مشن میں کامیاب ہوا۔ اس نے اپنی حد تک صدیوں پرانی ڈیری صنعت کو جدید دور کی سہولتوں اور تکنیک سے ہم آہنگ کرکے بالکل بدل کر رکھ دیا۔ اس اقدام نے ملک کے لاکھوں کاشتکاروں اور گلّہ بانوں کو اپنی زندگی بدلنے کی راہ دکھائی۔
پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں گلّہ بانی کے قدرتی موافق وسائل موجود ہیں لیکن گزشتہ پینسٹھ برسوں سے اسے صنعت میں تبدیل کرنے کے لیے قابلِ ذکر خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں تریسٹھ ملین گائے اور بھینسیں موجود ہیں جو کہ پوری دنیا میں مویشیوں کا ایک بہت بڑا ریوڑ ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان دودھ اوراس سے بنی مصنوعات اس لیے برآمد نہیں کرپاتا کہ ان کی پیداواری صلاحیت بہت سست رفتار ہے۔
حالانکہ پاکستان کی کُل آبادی کا بیس فیصد یا ساڑھے تین کروڑ باشندے براہ راست گلّہ بانی اور ڈیری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
دنیا بھر میں لائیو اسٹاک کی بہتر پیداوار کے لیے پالیسی سازی کی جاتی ہے، مویشیوں کی صحت کے لیے انہیں دوائیں دی جاتی ہیں مگر پاکستان میں حکومت نے یہ سب کچھ گلّہ بانوں کے رحم و کرم اور سوجھ بوجھ پر چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں اب تک یہ شعبہ اس مقام تک نہیں پہنچ پایا، جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔
اقبال نے خواب دیکھا اور پھر دیگر غیر ملکی کمپنیوں کی اعانت سے اپنے خواب کو تعبیر بخشی۔ اس نےنارووال کے نواح میں جیسر فارم قائم کیا اور جدید خطوط پر ڈیری فارمنگ شروع کی۔
اعلیٰ نسل کی گائیوں اور بھینسوں تک مقامی گلّہ بانوں کی رسائی ممکن بنائی۔ انہیں ڈیری فارمنگ کی جدید خطوط پر مبنی ٹریننگ دی اور آج صرف وہی فائدے میں نہیں، ہزاروں گلّ بان اس کی رہنمائی اور سہولت سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
اب ان کی پالتو گائے بھینسیں زیادہ دودھ دیتی ہیں اور انہیں زیادہ آمدنی حاصل ہورہی ہے۔