ملا برادر اور افغان حکام کے درمیان ملاقات کی تردید
اسلام آباد: پاکستان اور افغانستان نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ افغان وفد نے دو ماہ قبل پاکستان میں قید طالبان کے انتہائی اہم کمانڈر ملا عبدالغنی برادر سے امن مذاکرات پر تبادلہ خیال کے لئے ملاقات کی ہے۔
پیر کوڈان اخبار کی ایک خبر کے مطابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نےاس ملاقات کی تصدیق کی تھی تاہم وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔
پاکستان کی جانب سے افغان حکومت کو طالبان سے امن معاہدے کے لیے مدد فراہم کرنے کی اطلاعات سے بہت سے لوگ حیران رہ گئے تھے کیونکہ حال ہی میں وزیر داخلہ نے الزام عائد کیا تھا کہ افغانستان بلوچستان میں عسکریت پسندوں کو مدد فراہم کررہا ہے۔
رحمان ملک نے کابینہ کے ارکان کو ان دو جعلی پاسپورٹس کی نقول دکھائیں تھیں جو افغان صدر حام کرزئی کے حکم پر نوابزادہ اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی کو جاری کیے گئے تھے۔
ملک نے کابینہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک ان کیمرہ بریفنگ کے ذریعے بتائیں گے کہ پاکستان کے دوست اور دشمن صوبے میں کیا کررہے ہیں۔
دوسری جانب، اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ترجمان زردشت شمس نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ملا برادر اور افغان حکام کی ملاقات کی مکمل تردید کرتے ہیں۔
ملا برادر خاندان کے قریبی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغان وفد کو جیل میں برادر سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی تاہم خاندان کے ارکان نے افغان حکومت کی جانب سے مصالحت کے بارے میں ایک پیغام ان تک پہنچایا ہے۔
طالبان کے فوجی سربراہ ملا برادر جنہیں عسکریت پسندوں میں سیکنڈ ان کمانڈ کے طور پر سمجھا جاتا ہے کو دو ہزار دس میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اس وقت افغان حکومت اور افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سابق نمائندے نے کہا تھا کہ ان کی گرفتاری سے افغان جنگ کے خاتمے کیلیے عسکریت پسندوں سے ایک عرصے سے جاری مذاکرات کی کوششوں پر اثر پڑا ہے۔