• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سیاسی و فوجی حکومتیں ریلوے کی تباہی میں حصہ دار، سعد رفیق

شائع November 18, 2013

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق۔۔۔ فائل فوٹو۔

اسلام آباد: وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ سیاسی و فوجی حکومتیں ریلوے کی تباہی میں برابر کی حصہ دار ہیں، ریلوے کی بحالی میں وقت درکار ہے اور۔ ملازمین اور افسران ادارہ کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔

پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقدہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے نے ریلوے کو گائے قرار دیتے ہوئے کہا کہ دودھ دھونے کے بعد لاغر گائے کی کھال بھی اتارنے کی کوشش میں قومی ادارے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے سیاسی و فوجی حکومتیں ریلوے کی تباہی میں برابر کی حصے دار ہیں، ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفاد کو داؤ پر لگا دیا گیا، ہر سیاسی و فوجی حکومت نے سیاسی و سرکاری مداخلت کے ذریعے محکمہ کا بیڑا غرق کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ بہترین ٹیکنیکل سٹاف اور لوکو موٹو ورکشاپس کی موجودگی کے باوجود دوسرے ممالک سے ریلوے انجن منگوا کر ایک طرف ملکی خزانے کا نقصان کیا گیا اور دوسری طرف ہزاروں ملازمین بغیر کام تنخواہ وصول کرتے رہے۔

'سکھ دور کے زمانہ کی طر ح ریلوے میں لوٹ مار مچا کر اسے کباڑخانہ بنا دیا گی ۔۔۔۔ بزنس ٹرین اور شالیمار ٹرین کے غیر قانونی معاہدے کے تحت ٹھیکیدار سینیٹر ظفر اقبال کو ای سی سی کے ذریعے ریلوے نے خود پارٹی بن کر مالی فائدہ پہنچایا اور 55 کروڑ کے ٹھیکے کو 35 کروڑ میں کم کروا دیا گیا حالانکہ تیل سے لے کر دوسری خدمات تک ریلوے کے ذمے تھیں۔

سعد رفیق نے کہا کہ ریلوے کی بحالی میں وقت درکار ہے، ملازمین اور افسران بغیر کسی سفارش اور دباؤ کے جذبہ حب الوطنی سے دن رات محنت کر کے ادارہ کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں اور ادارے سے سفارش کلچر کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے جبکہ پوسٹنگ و ٹرانسفر بھی میرٹ کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔

انہوں نے کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا کہ ریلوے میں ڈائریکٹر لیگل لاء گریجویٹ نہیں ہے لیکن اب ہائی کورٹ کے ریٹائرجج کی اہلیت کے حامل افسر کو بھرتی کرنے کے لیے اخبار میں اشتہار دے دیا گیا ہے جبکہ چیئرمین ریلوے کی تعیناتی کے لیے تجربہ کے حامل افسر کی بھرتی یقینی بنانے ی غرض سے اخباری اشتہارات دیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریلوے کی ہزاروں ایکڑ زرعی، کاروباری اور رہائشی زمینوں پر سرکاری اداروں کے علاوہ قبضہ مافیا کا راج ہے، ریلوے میں من پسند افسران کو زمین تین تین دفع لیز پر دی گئی اور ایک ایک پلاٹ کو کروڑوں روپے میں فروخت کیا گیا لیکن چالیس سالوں سے ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے رقوم جمع کروانے والے ملازمین کی بیوائیں اور یتیم بچے در بدر ہیں۔

سعد رفیق نے کہا کہ تین ہزار مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود کہ ریلوے کی زمین وفاق کی ملکیت ہے اور ریلوے کی زمین کے ٹائٹل کا فیصلہ ہی نہیں ہو رہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پشاور، کراچی اور لاہور کراچی الیکٹرانک ٹرین کے لیے تخمینہ تین سو ارب کا ہے جس کے لیے مختلف ماڈلز پر کام ہو رہا ہے، دو سال بعد گڈانی پاور پراجیکٹ کے لیے الیکٹرونک نظام منسلک ہو جائیگا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر نے مزید بتایا کہ کیرج فیکٹری کی موجودگی میں چین سے ڈھائی گنا زیادہ لاگت کے کچرہ انجن فراہم کرنے والے چینی کمپنی ڈانگ فانگ کو بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔

ادارے میں انجنز کی تعداد بتاتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ لوکو موٹوانجنز کی کل تعداد چارو سو پینسٹھ ہے لیکن صرف ایک سو چالیس درست حالت میں ہیں جبکہ 35 کی مرمت کر دی گئی ہے، مزید 80 ایک سال کے دوران درست کر لیے جائیں گے۔

چیئرمین کمیٹی عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ریلوے قومی اثاثہ ہے، اس کو تباہ کرنے کے ذمہ داران کے خلاف بلا تفریق سخت کارروائی کی جائے اور ریلوے کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کا نظام درست کیا جائے۔

کمیٹی کے اجلاس میں ممبران کی متفقہ رائے تھی کہ بزنس اور شالیمار ایکسپریس کا ٹھیکہ حاصل کرنے ٹھیکہ کا اخبار میں مشتہر کردہ ٹینڈر آئندہ اخبار میں پیش کیا جائے اور کمیٹی نے شفارش کی کہ وزارت خزانہ ریلوے کو بیرون ملک سے خریدے گئے سامان پر ٹیکس وصولی میں خصوصی چھوٹ دے۔

سینیٹر مولا بخش چانڈیو، سینیٹر اعجاز دھامرا نے سندھ میں ریل کے بند روٹس کو بحال کرنے کی تجویز دی جبکہ کراچی ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی اور جمعہ گوٹھ پر قبضے پر خاتمے کے لیے سینیٹر کامل علی آغا، سینیٹر اعجاز دھامرا، محمد ظفراللہ دھامرا اور سینیٹر نسرین جلیل پر مشتمل ذیلی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

اجلاس میں سیکریٹری و قائم مقام چیئرمین ریلوے مسز پروین آغا ، سیکرٹری ریلوے بورڈ آفتاب اکبر کے علاوہ اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024