جب تک ضرورت ہو، ہم شام میں رہیں گے، حسن نصراللہ
بیروت: حزب اللہ کے امیر حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ جب تک ضرورت ہو وہ شام میں موجود رہ کر صدر بشارالاسد کی فوجوں کی مدد کریں گے۔
حزب اللہ کے جنگجوؤں نے اس سال نہ صرف دمشق کے جنوب میں موجود ایک اہم شہر قصیر کو باغیوں سے واپس لیا بلکہ حلب اور دیگر مقامات پر شامی سرکاری افواج کے شانہ بشانہ لڑائی کرکے باغیوں کے حملے کو پسپا کیا تھا۔
' جب تک اس کا جواز ( شام میں لڑائی ) رہتا ہے، وہاں ہماری موجودگی رہے گی،' نصراللہ نے لاکھوں شیعہ مسلمانوں سے یومِ عاشور پر خطاب کرتے ہوئے کہا۔
' ہمارے جنگجو شامی سرزمین پر موجود ہیں جو علاقائی، بین الاقوامی اور تکفیری حملوں کے تمام خطرات کا سامنا کررہے ہیں جو اس ملک اور خطے میں جاری ہیں،' نصراللہ نے شام میں لڑنے والے غیرملکی باغیوں کو بھی مخاطب کیا۔
ڈھائی سال سے جاری شام کی جنگ نے مشرقِ وسطیٰ اور دیگر ممالک کےدرمیان ایک وسیع خلیج کو جنم دیا ہے کیونکہ ترکی اور خلیجی ممالک سنی باغیوں کی پشت پر ہیں جبکہ ایران اور لبنان میں موجود جماعت حزب اللہ شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ عملی طور پر اس جنگ میں شریک ہیں ۔ واضح رہے کہ صدر اسد علوی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ظہور شیعہ عقیدے سے ہوا ہے۔
خود لبنان سے جہاں شیعہ جنگجو لڑنے کیلئے آئے ہیں وہیں لبنان سے سنی بھی مدد کو آرہے ہیں۔ اس سے خود لبنان میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے اور مارچ میں وزیرِ اعظم نجیب مکاتی نے استغفیٰ دیدیا تھا۔
حسن نصراللہ نے یہ بھی کہا کہ اگر سنی حکومت کی جانب سے حزب اللہ کو شام سے واپس بلانے کی کوئی قرار داد یا زور دیا گیا تو وہ ایک بے کار عمل ہوگا۔
واضح رہے کہ حزب اللہ لڑنے والی جماعت کے علاوہ ایک سیاسی دھڑا بھی ہے جس کے دو اراکین مکاتی حکومت میں وزیر تھے۔
' ہماری جاعت چند بے کار وزارتوں کیلئے خطے کے مستقبل پر سمجھوتہ نہیں کرے گی،' نصراللہ نے کہا۔
سابق وزیرِ اعظم سعد الحریری نے کہا کہ حسن نصراللہ کی ایران اور اسد سے وفاداری اس ملک (لبنان) کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
' حزب اللہ نے ایران کی خواہش پر بشارالاسد کی خاطر لبنان کی سالمیت، وقار اور قومی یکجہتی قربان کرنے کی راہ اختیار کی ہے،' انہوں نے حسن نصراللہ کے بیان پر کہا۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر تاریخ ہمیں کوسے گی۔
جمعرات کو حسن نصراللہ نے چوبیس گھنٹوں میں دوسری مرتبہ یہ بیان دیا ہے۔ بدھ کےروز انہوں نے بعض عرب ممالک پر الزام لگایا تھا کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے معاملے پر اب اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں