طالبان کا غصہ ٹھنڈا ہونے تک مذاکرات ناممکن، وفاقی وزیر
وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار اور پاکستان مسلیم لیگ نواز ( پی ایم ایل این) کے رہنما رانا تنویر حسین نے بدھ کے روز کہا ہےکہ حکومت پاکستانی طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا انتظار کرے گی جس میں ان کے مطابق کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
' طالبان اس وقت غصے میں، اسی لئے جب تک ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اس وقت تک مذاکرات نا ممکن ہوں گے،' انہوں نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا۔
تنویر کے مطابق وہ امید کرتے ہیں کہ ان کوششوں میں کچھ ماہ لگ سکتے ہیں۔
' ہم امن چاہتے ہیں اور اس ضمن میں فوجی ایکشن کا استعمال آخری قدم کے طور پر ہوگا،' انہوں نے کہا۔
' طالبان کی جانب سے مذاکرات مسترد کرنے کے باوجود ہم، بات چیت کی کوششیں جاری رکھیں گے۔'
اس بیان سے قبل پیر کو وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ حکومت نے فی الحال حکومت نے مذاکرات کے معاملے کو بالائے طاق رکھدیا ہے اور اب منصوبہ ہے کہ پہلے طالبان عسکریت پسندوں سے کشیدہ تعلقات کو معمول پر لایا جائے۔
ان سے پوچھا گیا کہ تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے چیف ملا فضل اللہ کیا بات کرنے کیلئے مناسب فریق ہیں، رانا تنویر نے کہا ، ' ہاں وہ ایک سخت گیر مؤقف والی شخصیت ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ ان سے مذاکرات سود مند ثابت ہوں۔'
انہوں نے کہا کہ شدت پسند گروہ حکومت سے بات چیت کے حامی ہیں اور بتایا کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
تحریکِ طالبان سے مذاکرات کے معاملے میں فوج کے مؤقف پر انہوں نے کہا کہ حکومت اور فوج دونوں اس معاملے پر یکساں خیالات رکھتے ہیں۔
' دونوں ( حکومت اور پاکستانی فوج) یکساں مؤقف رکھتے ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں،' انہوں نے کہا۔
وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار نے کہا کہ امریکہ نے بھی ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی اسی طرح تائید کی ہے جس طرح اس نے افغان طالبان سے دوحہ مذاکرات کا خیرمقدم کیا تھا۔
تاہم انہوں نے اس حکومتی مؤقف کو دوہرایا کہ امریکہ حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں نشانہ بنانے میں تاخیر کرسکتا تھا۔