• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستانی موسموں کا بگڑتا ہوا مزاج

شائع November 11, 2013

گلیشیئر میں سیاہ رنگ کاربن ذرات کو ظاہر کررہے ہیں جو برف تیزی سے پگھلنے کی اہم وجہ ہیں۔ تصویر بشکریہ محکمہ موسمیات
گلیشیئر میں سیاہ رنگ کاربن ذرات کو ظاہر کررہے ہیں جو برف تیزی سے پگھلنے کی اہم وجہ ہیں۔ تصویر بشکریہ محکمہ موسمیات

اسلام آباد: مون سون کے موسم میں شدت کے ساتھ ساتھ موجود  برف، گلیشیئر اور گرنے والی برف پر سیاہ کاربن جمع ہونے کے علاوہ موسمِ سرما کے دورانئے میں تبدیلی سے پاکستان میں موجود گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے پیش کردہ نئی تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ تیس برس سے ہمارے خطے میں موجود برفانی گلیشیئرز کیوں ختم ہورہے ہیں۔

' پاکستان کے پانچ گلیشیئرز کے کناروں پر جمع ہونے والے برف کے نمونوں کو جب لیبارٹری میں دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ برف کی نچلی سطح پر سیاہ کاربن کی خاصی مقدار موجود ہے، ' اس بات کا انکشاف پاکستان محکمہ موسمیات کے چیف میٹیئرولوجسٹ ڈاکٹر غلام رسول نے کیا۔

ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ کس طرح کاربن کے بھاری ذرات نشیب میں جاکر گلیشیئر کے دامن میں جمع ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاہ کاربن کی موٹی تہہ ایک کالی چادر کی طرح عمل کرتی ہے اور برف میں سورج کی روشنی منعکس کرنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس کے بعد برف کے ذخائر سورج کی حرارت کو ذیادہ جذب کرنے لگتے ہیں اور برف کے پگھلنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ اس سے برف پگھلتے پگھتلے گلیشیئر کے دامن میں پانی کی جھیلیں بن جاتی ہیں۔

محکمہ موسمیات کی جانب سے انسٹی ٹیوٹ آف تبت پلیٹیو ریسرچ سے وابستہ چینی سائنسدانوں کے کام کا حوالہ بھی دیا گیا۔ جنہوں نے نے گلگت بلتستان کی استور وادی میں ہوا میں موجود بلیک کاربن کے نمونوں پر کام کیا گیا تھا اور گلیشیئر کے پاس نچلی سطح میں موجود کاربن ذرات کی غیر معمولی موجودگی کا انکشاف کیا تھا۔

' انہوں نے ان ذرات کا سراغ لگایا تو معلوم ہوا کہ وہ انڈیا کی اسٹیل انڈسٹری سے خارج ہورہے ہیں جو ہوا کے ذریعے پاکستان پہنچ رہے ہیں اور سردیوں میں گہری سیاہ دھند کی وجہ بن رہے ہیں،' غلام رسول نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ زوردار بارشوں سے بھی گلیشیئر کے حجم کم ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلیشیئر کی مختلف بلندیوں سے پانی کے نمونوں کو دیکھنے سے معلوم ہوا ہے کہ مون سون کی شدت بلندیوں پر بھی ذیادہ ہورہی ہے یہاں تک کہ بیس ہزار فٹ کی بلندی پر بھی بارش میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ساتھ ہی گزشتہ تیس برس کے موسمیاتی ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد غلام رسول نے کہا کہ مشرقی مون سون کی ہوائیں شدید ہوتی جارہی ہیں اور ان کا رخ پہاڑوں کی طرف ہے ۔ دوہزار تیرہ میں جھاڑ کھنڈ انڈیا اور دوہزار دس میں نوشہرہ پاکستان اس کی اہم مثالیں ہیں۔

اس طرح نہ صرف بارش کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ گلیشیئر والے بلند ترین علاقوں میں بھی بارشیں ذیادہ تیز ہورہی ہیں۔ مون سون بارش کا پانی برف کے مقابلے میں قدرے گرم ہوتا ہے اور اس طرح برف ذیادہ تیزی سے گھلتی ہے۔ دوسری جانب گرمیوں میں ذیادہ بلندیوں پر تیز بارشوں سے سیلاب کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔

اس کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ برف باری کی اوقات میں بھی تبدیلی ہورہی ہے۔

چیف میٹیورولوجسٹ نے بتایا کہ برفباری نومبر میں شروع ہوجاتی ہے اور مارچ تک جاری رہتی ہے جبکہ سب سے ذیادہ برف جنوری میں گرتی ہے۔ جتنے عرصے تک برف گلیشیئر پر رہے گی ہوا ٹھنڈی رہے گی اور نرم برف ٹھوس شکل میں ڈھلے گی۔ لیکن اب ذیادہ سے ذیادہ برفباری جنوری کی بجائے فروری میں ہورہی ہے ۔

شمالی پہاڑوں پر درجہ حرارت میں اضافے سے اب سردیاں بھی سکڑ رہی ہیں۔ جبکہ مارچ میں ٹمپریچر صفر درجے سینٹی گریڈ سے اوپر نوٹ کیا گیا ہے۔ اس سے برف پگھل رہی ہے۔

' اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہندوکش ہمالیہ اور قراقرم گلیشئیرز میں برف کم کم جمع ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024