ماضی، حال اور انسانی رویے
انسانی فطرت کو سمجھنے کی جستجو میں فلسفیوں اور دانشوروں کے درمیان بحث و تمحیص میں انسانی فطرت کی تبدیلیاں خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ مختلف قوموں کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ رسوم، روایات، تہذیب، مذہبی رواج اور قوانین انسان کے روزمرہ کے طور طریق اور رویہ پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن مختلف عوامل پر اس کا ردعمل اور رویہ اس کے معاشی اورسیاسی حالات کی بہتری پر منحصر ہوتا ہے-
جس وقت تک سیاسی ادارے مستحکم اور معاشی صورت حال اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی رہیں، معاشرے میں اخلاقی اقدار مضبوطی سے جڑی ہوتی ہیں- لیکن جہاں سیاسی اور معاشی طور پر گراوٹ آئی فوراً اخلاقی اور قانونی ڈھانچہ دھڑام سے گرپڑتا ہے- نتیجتاً انتشار اور بدنظمی کا چلن شروع ہوجاتا ہے-
یونانی تاریخ دان تھوسی ڈائیڈس نے اپنی کتاب (The History of the Peloponnessian Wars) پیلوپونیشین جنگوں کی تاریخ میں ایتھنز کے لوگوں کےعادات واطوار کا، امن اور خوشحالی کے زمانے میں اور اس بحران کے وقت جب وہاں پلیگ کی وبا پھیلی تھی، جائزہ لیا ہے-
اس وبا کے آنے سے پہلے، ایتھنز کے لوگ اپنی آزادی کی قدر کرتے تھے، جمہوری اصلاحات، اور جنگی فتوحات پر فخر کرتے تھے-
ان کے رہنما پیریکلس جس نے ایک جنازے کے موقع پر اپنی مشہور زمانہ تقریر کی اور ان لوگوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے میدان جنگ میں ایتھنز کی جمہوریہ کو بچانے کے لئے اپنی جانیں قربان کردیں تھیں-
اس نے اس شہرکی اخلاقی خوبیوں کی تعریف کی، اس کی رسوم و روایات کا قصیدہ پڑھا جس سے لوگوں میں فخر کا جذبہ پیدا ہوا- دوسروں کے مقابلے میں تہذیب و ثقافت کی برتری کی وجہ سے ایتھنز کا معاشرہ اخلاق اور عزت و وقار میں بے مثال تھا-
تھوسی ڈائیڈس کے 'جنگ کے واقعات' کے مطابق، پانچویں صدی میں حالات ڈرامائی طور پر بدلے، پیریکلس کی مشہور تقریر کے فوراً ہی بعد، پلیگ کی وبا نے ایتھنز کے شہر پر حملہ کیا- یہ وہ وقت تھا جب پیلوپونیشین جنگ سے متاثر مہاجرین نزدیکی دیہاتوں اور شہروں سے بھاگ کر ایتھنز میں پناہ گزین ہوئے تھے-
ان کی بھیڑبھاڑ، گرم اور مرطوب موسمی حالات، پانی کی کمیابی اور سیوریج کی عدم دستیابی کے نتیجے میں پلیگ کا موذی وائرس پھیل گیا- خود پیریکلس اس وبا کا شکار ہوا جس میں ہزاروں لوگ مرگئے- اور پورا شہر تباہ ہوچکا تھا-
بچاؤ کی تدابیر اور علاج کی غیر موجودگی میں یہ وبا پورے شہر میں تیزی سے پھیل گئی- ہر جگہ مردہ جسم پڑے ہوئے تھے اور لوگ مردوں کو جلتی ہوئی لاشوں کے ڈھیر پر پھینک رہے تھے- جنازوں کو دفنانے کے رسم و رواج سب ٹوٹ چکے تھے-
پلیگ نے پورے معاشرے کے تاروپود کو بکھیر کر رکھ دیا- جو کہ تھوسی ڈائیڈس کے مطابق پلیگ کا سب سے خراب پہلوتھا-
لوگوں نے مرے ہوئے لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے بیماردوستوں اور رشتہ داروں سے بھی ناطہ توڑ لیا تھا- جیسے جیسے ذاتی مفاد، بھائی چارگی اور برادری کے جذبے سے بڑھ گیا، عزت کا پاس اور دکھ درد بانٹنے کا جذبہ بھی ختم ہوتا گیا-
کچھ لوگوں نے پلیگ اور لوگوں کی تکلیفوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور سماجی روائیتوں کی دھجیاں اڑا دیں- انہوں نے خوب لوٹ مار کی، مال غنیمت کمایا اور خوب دولت سمیٹی- ساتھ ساتھ جی بھر کے عیاشی بھی کی-
ان تمام واقعات کی اس تفصیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ بدلتی ہے-
لوگوں کا رویہ امن اور خوشحالی کے زمانے میں مختلف ہوتا ہےاور جنگ، قحط، خشک سالی اور وبا کے زمانے میں مختلف-
تاریخ بتاتی ہے کہ جب قومیں ترقی کررہی ہوتی ہیں، لوگوں کے برتاؤ میں ایک وقارہوتا ہے لیکن جب قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو لوگوں کے کردار پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے-
اس تاریخی تناظر میں جب ہم پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ لوگوں کے رویئے سیاسی اور معاشی الٹ پھیرکی وجہ سے کیوں کر تبدیل ہوتے ہیں-
پاکستان کے ابتدائی دنوں میں معاشرے کی اخلاقی حالت اتنی گری ہوئی نہیں تھی جتنی آج ہے- ادارے مستعدی سے کام کررہے تھے- افسر شاہی اتنی بدعنوان نہیں تھی اور سیاست دان اگرچہ کہ نااہلی کا شکار تھے لیکن مکمل طور پر بکاوُ اور رشوت خور نہیں تھے-
یہ یقیناً ایک عمومی جائزہ ہے، لیکن کافی حد تک صحیح ہے-
بار بار کی فوجی مداخلت، جنگوں اور سیاسی چپقلشوں نے مکمل طور پر معاشرے کی ساخت اور اس کی اقدار کو بدل کر رکھ دیا ہے- جسکا نتیجہ بدنظمی اور نظم و نسق کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے-
اس گراوٹ اور سماجی ناکامی کا لوگوں کے اطوار پر اثر ہوا- اخلاقی اقدار بے اثر ہوگئیں جب کہ صرف اپنا ذاتی مفاد ہی لوگوں کی کامیابی کا مقصد بن گیا-
لوگوں کے طور طریقوں میں تبدیلی صرف معاشی اور سیاسی استحکام سے ہی آسکتی ہے-
ایک انگریز فلسفی جان لوک کے قول کے مطابق انسانی فطرت ایک (Tabula Rasa) یعنی ایک خالی سلیٹ کی طرح ہے- وہ اس بات میں یقین رکھتا تھا کہ انسانی فطرت کا انحصار اچھے اور برے حالات کے اوپر ہوتا ہے-
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ریاست لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتی ہے تو خوش گوار صورت حال لوگوں کے بہتر رویے اور طور طریقوں کی شکل میں نظر آجاتی ہے، لوگ اخلاقی اقدار کا پاس رکھینگے، ان کے رویوں سے وقاراور اخلاقی بلندی کا اظہار ہوگا-
اس فلسفے کی بنیاد پر، مغربی ریاستوں نے عام آدمی کے لئے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات کیں جو لوگوں کے طریق زندگی میں ایک مثبت تبدیلی کا سبب بنی-
پاکستان کے حکمران طبقے کو بھی عام آدمی کے لئے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات متعارف کرانی چاہئیں- اس سے یقینی طور پر پورے ملک میں انسانی فطرت میں مثبت بہتری آئیگی- لیکن ایسا کرنے میں ناکامی کا مطلب، انسانی فطرت میں موجودہ تنزلی کو تیز تر کردینے کے مترادف ہوگا-
ترجمہ: علی مظفر جعفری